سوشلزم، اسلامی سوشلزم اور پیپلز پارٹی


وزیر خارجہ بھٹو صدر ایوب کی کنونشنل مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری بھی تھے۔ صدر ایوب سے الگ ہو کر ابتدا میں بھٹو کا خیال کونسل مسلم لیگ میں شمولیت کا تھا۔ مگر ڈاکٹر مبشر حسن اور جے اے رحیم جیسے دوستوں کا رحجان ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کی طرف تھا۔ وہ ایک نئی طرح کی غیر روایتی سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔ ان کا اندازہ تھا کہ ایسی نئی جماعت کی پذیرائی بھی بہت ہوگی۔ آخر کار بھٹو بھی ان سے متفق ہو گئے۔ 1966ءمیں بھٹو نے جے اے رحیم سے پیرس میں کئی ملاقاتیں کیں۔ جے اے رحیم ان دنوں پیرس میں پاکستان کے سفیر تھے۔ بھٹو نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ جے اے رحیم نہایت ذہین سفارتکار تھے۔ نواب سراج الدولہ خاندان سے تعلق رکھنے والے اس بنگالی دانشور جے اے رحیم کے والد سر عبدالرحیم مدراس ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور انڈین لیجیسلیٹو اسمبلی کے ممبر بھی رہے۔ جے اے رحیم کی بہن بیگم نیاز فاطمہ حسین شہید سہروردی کی بیگم تھیں۔انڈین سول سروس سے یہ جے اے رحیم کیمبریج کے تعلیم یافتہ تھے۔ پیرس میں 1966میں بھٹو، جے اے رحیم ملاقاتوں کے بعد جے اے رحیم نے بھٹو کی زیر قیادت ایک نئی پارٹی کے فلسفے اور منشور کا خاکہ تیار کرنا شروع کر دیا۔ بھٹو ان دنوں یورپ میں پاکستانی طالب علموں اور نوجوانوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ لاہور سے طارق علی ان دنوں برطانیہ کی طالب علم سیاست میں اپنے عروج پر تھے۔ انہوں نے بعد میں رائٹر کے طور پر بھی بہت شہرت حاصل کی۔

طارق علی نے اپنی کتاب ”سٹریٹ فائٹنگ ایئرز “میں لکھا۔ CLARIDGESمیں لنچ کے بعد ہم ہوٹل میں بھٹو کے کمرے میں چلے گئے۔ وہاں جے اے رحیم نے مجھے پاکستان پیپلز پارٹی کا ٹائپ شدہ منشور تھما دیااور پڑھنے کو کہا۔ ساتھ ہی پارٹی کا بنیادی رکن بننے کے فارم پر دستخط کرنے کو بھی کہا۔ طارق علی نے تیزی سے منشور پڑھا اور پارٹی ممبر بننے سے انکار کر دیا۔ طارق علی کے مطابق اس کے انکار پر بھٹو چیخ کر بولے۔ تمہیں اور کیا چاہئے ؟ طارق علی کو اسلامی سوشلزم قبول نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ معاشی محاذ پر آدھا تیتر آدھا بٹیر کا نظام کسی کو مطمئن نہیں کریگا۔ تجھ سے مظلوموں کو بے پناہ توقعات وابستہ ہو جائیں گی مگر ان کی ضروریات پوری نہیں ہونگی۔ طارق علی کے مطابق جے اے رحیم بھی مجھ سے اتفاق کر رہے تھے۔ مگر بھٹو کی ہدایات تھیں کہ میانہ روی رکھی جائے۔ بھٹو کا خیال تھا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ملا ہونگے اور وہ تمہارے خالص پن کی وجہ سے مجھے ایک ہاتھ پیچھے باندھ کر میدان جنگ میں جانا پڑے گا۔ مگر طارق علی کا خیال تھا کہ ایک بے معنی اسلامی سوشلزم کی بنیاد پر وہ خود ملاﺅں کے ہاتھوں میں کھیلے جائیں گے۔ اسلام اور سوشلزم کو اکٹھا کرنے کی بنیاد پر ملا انہیں کافر قرار دینے کا طوفان اٹھائیں گے اور مجبوراًانہیں قرآن میں سے اسلامی سوشلزم کے معنی تلاش کرنے کیلئے تحقیق اور تحریر کرنے والے تلاش کرنے پڑیں گے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ ملا کے چنے ہوئے میدان میں جنگ کریں گے اور آخر کار فتح ملا کی ہوگی۔

علی جعفر زیدی پاکستان پیپلز پارٹی کے ابتدائی کارکنوں میں سے ہیں۔ ضیاءدور میں نقل مکانی اختیار کر کے بیرون ملک جا مقیم ہوئے۔  ان کی آٹو بائیو گرافی ”باہر جنگل اندر آگ“ پاکستان کی سیاسی کشمکش کے سفر کی کہانی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں طارق علی کے لکھے اس واقعے کا ذکر بھی کیا ہے۔وہ اسے من گھڑت قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق طارق علی نے اپنی کتاب میں جس ملاقات کا ذکر کیا ہے یہ 1966ءکا زمانہ ہے۔ اس وقت نہ ہی پیپلز پارٹی بنی تھی اور نہ ہی اس کی ممبری کے فارم تھے۔ اس وقت اسلامی سوشلزم کا بھٹو اور جے اے رحیم کے نزدیک کہیں دور دور بھی ذکر نہ تھا۔ نومبر 1967ءمیں پیپلز پارٹی کی تشکیل کے موقعہ پر 95صفحوں پر مبنی پاکستان پیپلز پارٹی کی جو اساسی دستاویز انگریزی میں چھپی تھی اور جس کا اردو ترجمہ بعد میں ہم نے ”نصرت“ میں شائع کیا۔ اس میں جو اصول درج تھا وہ سوشلزم ہماری معیشت ہے،تھا۔ نہ کہ اسلامی سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ پارٹی کے قیام کے بعد بھی سوشلزم ہماری معیشت ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کا اقتصادی پروگرام رہا۔ نومبر1960ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہوئی ہفت روزہ ”نصرت“پیپلز پارٹی کے نظریاتی ترجمان کے طور پر 1968ءمیں جاری ہوا۔ علی جعفر زیدی لکھتے ہیںکہ جب میں نے 1960میں” نصرت “ کی ذمہ داری سنبھالی تو ہم نے سوشلزم ہماری معیشت ہے کا نظریہ ہی عوام تک پہنچایا تھا۔ بھٹو بھی اس وقت صرف سوشلزم کی بات کرتے تھے۔ البتہ بعد میں اسلامی سوشلزم کی اصطلاح کا سہارا لیا گیا۔ اس سے پہلے البتہ 1966 محمد حنیف رامے نے جو اس وقت کنونشن مسلم لیگ کے آفس میں ملازم تھے اور ماہنامہ ”نصرت“ جو کہ ان کا ذاتی جریدہ تھا اس کا اسلامی سوشلزم نمبر ضرور شائع کیا گیا تھا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان اے ملک وزیر داخلہ بھی رہے ہیں۔ وہ انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ریفارم کے چیئرمین ہیں۔ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پر انہوں نے ’کیا کھویا کیا پایا ‘ کے عنوان سے پیپلز پارٹی کے زوال کے اسباب ڈسکس کئے ہیں۔ پارٹی چھوڑ کر جانے والے اہم افراد کی ایک لمبی فہرست، پارٹی کے خلاف موثر پروپیگنڈہ، اقتدار کے آخری دنوں میں ریاستی امور میں ناقص کارکردگی اور ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسی شخصیات کی غیر موجودگی سمیت سبھی عوامل لکھے ہیں۔ وہ اس بزنس ٹائیکون کو نظر انداز نہ کرنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ جس کا پچھلے ہی دنوں برطانیہ کی خاتون جج نے اپنی سوسائٹی کیلئے سخت مضر رساں قرار دیتے ہوئے ویزہ منسوخ کیا ہے۔اس کے پاس سارا کالا روپیہ ہے اور معزز برطانوی خاتون جج خوب جانتی ہیں کہ کالے دھن کے معاشرے پر کتنے بد اثرات پڑتے ہیں۔ وہ پارٹی قیادت کو ناراض کارکن منانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ لیکن رحمان اے ملک اپنے طویل مضمون میں سوشلزم یا اسلامی سوشلزم کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ جاگیرداری ٹھاہ کے نعرے کے بغیر پیپلز پارٹی، بھٹو والی پیپلز پارٹی رہتی ہی نہیں۔ اس پیپلز پارٹی کا جنم بینظیر بھٹو کی بے مثال جمہوری جدو جہد اور شہادت سے ہوا ہے۔ بھٹو خاندان کی خدمات اس کا اثاثہ ضرور ہیں لیکن اس کے پاس بھٹو کے نظریات بالکل نہیں رہے۔ آج پاکستان کا سب سے اہم سیاسی مسئلہ ملکی زمین میں بے مالک لوگوں کے حقوق کا تعین کرنا ہے۔ رہائش کیلئے چند مرلے اور تدفین کیلئے چند گز زمین عام آدمیوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کا احیاءصرف سپریم کورٹ میں جاگیرداری کے خلاف رٹ میں عابد منٹو کے ساتھ کھڑے ہونے میں ممکن ہے۔ لیکن رحمان اے ملک خوب جانتے ہیں کہ یہ پارٹی کے موجودہ مالکان کے مفاد میں ہرگز نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments