انجنیئر محمد علی مرزا کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کیجئے


جب مساجد میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے جایا کرتے تھے تو اکثر ایک رویہ دیکھنے میں آتا تھا۔ جو ہمیں اس وقت بہت ہی عجیب اور احمقانہ محسوس ہوتا تھا مگر ڈر کی وجہ سے کبھی حفاظ کرام سے تذکرہ نہیں کر پاتے تھے۔ وہ رویہ یہ تھا کہ تقریباً ہر فرقہ کی مسجد کی ایک ایسی دیوار ہوتی ہے جس پر مذہبی پروگرام کے اشتہارات یا مسلکی سٹکرز وغیرہ چسپاں کیے جاتے ہیں، حفاظ کرام کچھ بچوں کی ڈیوٹی لگا دیا کرتے تھے کہ اگر کسی مخالف فرقہ کا اشتہار چسپاں دیکھو تو فوراً اسے پھاڑ کر پھینک دو۔ مثلاً اگر کسی بریلوی مکتبہ فکر کی مسجد کی دیوار کے اوپر رات کے وقت کوئی اہل حدیث مکتبہ فکر کی طرف سے کانفرنس کا اشتہار لگایا جاتا تو اگلی صبح اسے پھاڑ دیا جاتا ہے اور اس قسم کی مضحکہ خیزی والی ذہنیت ہر فرقہ میں موجود ہے۔

دن کے وقت ایک دوسرے کی مساجد کی دیوار پر اشتہار اس لیے نہیں لگاتے کیونکہ وہ پکڑ کر پھینٹی لگا دیتے ہیں۔ دوسروں کو اپنے مذہب میں بھرتی کرنے کا عزم لیے یہ بانیان مذہب خود اپنے مذہب کے بارے میں کتنا ظرف رکھتے ہیں وہ آپ اس سرگرمی سے اندازہ کر سکتے ہیں۔ حالانکہ دوسرے فرقوں کے اشتہارات پر بھی قرآنی آیات درج ہوتی ہیں مگر مسلکی نفرت میں غرق یہ صاحبان ممبر اس طرح کی حرکات سے باز نہیں آتے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ایسا کرتے وقت یہ توہین مذہب یا بلاسفیمی کے تصورات کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ توہین مذہب غیر مسلم ہی کر سکتا ہے ہم ایک دوسرے کو کافر ڈکلیئر کر کے بھی توہین مذہب کے دائرے میں نہیں آ سکتے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جتنے ہمارے فرقے ہیں اتنے ہی ورژن آف اسلام ہیں یہ آپس میں ایک دوسرے سے متفق بالکل نہیں ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی مذہب کے نام پر کوئی ”موب لنچنگ“ ہوتی ہے تو یہ سب فرقوں کے علما مذمت کرنے کے نام پر گول مول باتیں کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر آ دھمکتے ہیں، ایک دوسرے کے مخالف تقریر کرنے والے یہ علماء ہم آواز ہو کر ایک ہی بات کرتے ملیں گے کہ ”اسلام میں اس قسم کے ظلم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اسلام امن کا مذہب ہے اور قتل و غارت کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے“ مؤدبانہ التماس ہے کہ پھر یہ سوچ کہاں سے آئی ہے کہ لوگ جنونی بن کر اور حقائق کا انتظار کرنے سے پہلے ہی اپنی عدالت قائم کر کے ایسے بندے کو بے دردی سے مار ڈالتے ہیں؟

ایسے لوگوں کو نفرت کی آکسیجن کہاں سے ملتی ہے؟ ایک ویڈیو نظر سے گزری جسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ایک عربی ٹیچر کمرہ جماعت میں غالباً پانچویں کلاس کے بچوں کو عربی کی تعلیم دینے کی بجائے ان چھوٹے چھوٹے بچوں کی برین واشنگ کر رہا ہے اور بچوں سے باقاعدہ نعرے بھی لگوا رہا ہے۔ سوچیے اگر ایسا اسکول کی سطح پر ہونے لگے گا تو کیا اس معاشرے میں امن برقرار رہ سکے گا؟ جو تشریح آپ کو سمجھ میں آئی ہے کیا اس تشریح سے عرب ممالک یا دوسرے ممالک کے مسلمان نابلد ہیں؟

یہود و نصاریٰ جو آپ کے ورژن کے مطابق آپ کے دوست کبھی نہیں ہو سکتے مگر ہماری محتاجی کا حل ان کے پاس ہے اور ہمارے مسلمان ممالک کی تجارت بھی سب سے زیادہ انہی کے ساتھ چل رہی ہے تو ایسی صورت حال میں آپ کا جو فتویٰ ہے اس سے بھی مسلمان ممالک کو آگاہ کر دیں۔ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ جناب آپ کا ورژن آف مذہب ایک ہی صورت میں ایک تسلیم شدہ اتھارٹی کے طور پر مقبول عام کا درجہ حاصل کر سکتا ہے اگر ہماری اکانومی کا فر ممالک سے سپر سیڈ کر جائے اور ہم صارف لسٹ سے نکل کر اقوام متحدہ میں ”ویٹو پاور“ کا ہتھیار اپنے ہاتھ میں لے لیں تو پھر ہی آپ دنیا پر راج کر سکتے ہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

ابھی تو ہمیں اپنے ملک میں امن سے جینے کا سلیقہ نہیں آیا تو پھر ہم دنیا کو اپنے ورژن آف مذہب یا اپنے کانچ جیسے مذہبی جذبات کے بارے میں کیسے قائل کر سکتے ہیں؟ اگر برابری کی سطح پر بات کرنی ہے تو پھر ہمیں ان کے لیول تک جانا ہو گا ورنہ اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں ہے سوائے وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کرنے کے تاکہ تھوڑا سا تذکرہ ہمارا بھی رہے داستانوں میں۔ انسانوں کے درمیان درندہ بن کر رہنے کا چلن اب متروک ہو چکا ہے اور جہاں یہ غاروں والا تسلسل چل رہا ہے وہ معاشرے دنیا کی رینکنگ میں کسی کھاتے میں بھی نہیں آتے۔

اپنی آواز کو مضبوط بنانے کے لئے ہمیں مہذب اور کلچرڈ رویے اپنانے ہوں گے، دھمکی آمیز رویوں سے ہم خود کو ہی کاٹتے رہیں گے اور ہماری تباہی نوشتہ دیوار بن جائے گی اور یہ باتیں ہمارے ماڈرن مسلمانوں کو بھی سمجھنی چاہیے۔ آج کی دنیا جذبات کے اصولوں پر نہیں چلتی بلکہ ایک مضبوط معیشت کے سہارے چلتی ہے۔ دنیا میں رہ کر اگر دنیا میں اپنا مقام بنانا ہے تو ہمیں دنیا کے ساتھ چلنے کے طور طریقے بھی سیکھنا ہوں گے ہم اس چکاچوند والی دنیا میں ایک تاریک غار یا محدود سوچ کے باکس میں بند ہو کر سروائیو نہیں کر سکیں گے۔

آپ افغانستان کو دیکھ لیجیے دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی ہے اور وہ ابھی تک جنگ و جدل میں پھنس کر دنیا سے ترقی میں بہت پیچھے رہ گئے جب سے امریکہ نے وہاں سے بوریا بستر سمیٹا ہے افغان لوگ پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے اپنی چھوٹی چھوٹی بچیوں کی خرید و فروخت کر رہے ہیں اگر ہم نے بھی اپنی روش نہ بدلی تو ہمارے اس بھیانک چہرے کو دیکھ کر کوئی بھی ہمارے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہو گا۔ خدارا انجینئر محمد علی مرزا کی ہی سن لو جنہوں نے ریاست کو ایک تجویز پیش کی ہے کہ c 295 میں ایک شق کا اضافہ کر دیا جائے کہ ”اگر کوئی بندہ ارادتاً یا غیر ارادتاً توہین مذہب کرتا ہے اگر وہ معافی کا طلب گار ہو تو اسے معاف کر دیا جائے“ دوسری تجویز یہ ہے کہ اس المناک واقعہ کے بعد تمام فرقوں کے علما بیٹھیں اور یہ اعلان کریں کہ جنہوں نے بھی یہ ایکسٹرا جوڈیشل گھناؤنا کام کیا ہے انہیں سزائے موت دی جائے تاکہ معاشرے کے لئے ایک مثال قائم ہو اور آپ کا حقیقی چہرہ اس دعوی کے ساتھ سامنے آ جائے گا کہ ”اسلام میں کسی قسم کی بربریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہمارا مذہب امن پسند ہے“ اب علماء کا امتحان ہے کہ وہ نفرت کو آکسیجن پہنچانے والی اس نفرت کی لہر کی تار کو کس طرح سے کاٹتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نازک صورتحال میں یہ دنیا کے سامنے اپنا امیج کیسے بہتر بناتے ہیں مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست کو ایسے مذہبی جتھوں کو گود نہیں لینا چاہیے جو بعد میں پاکستان کے امیج سے کھلواڑ کریں، ریاست کی ہمدردی اپنی عوام کے ساتھ ہر قسم کی وابستگیوں سے بالاتر ہونی چاہیے ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے جسے ہر بچے سے برابر پیار ہوتا ہے یاد رکھیے یہ سیالکوٹ والا واقعہ معمولی نہیں ہے اس کی بہت بھیانک اثرات ہوں گے اور اس بربریت کی ایک بھاری قیمت چکانا پڑے گی کاش ہمارے علماء کرام اس وقت سر جوڑ کر بیٹھ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments