قتل، حرمت انسان اور اسلام


اسلام ایک پرامن مذہب ہے جس کی دامن عافیت میں عالم انسانیت کے تمام مذہب اور اقوام نے چین و سکھ کا سانس لیا، تاریخ کے اوراق گواہ ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے مذہب اور اعتقاد کا اختلاف فسادات، قتل و خونریزی کا سب سے بڑا وجہ تھا، دنیا کی ہر قبیلے اور قوم نے حصول اقتدار کے بعد دوسرے مذہب کے پیروکاروں کا بے دریغ قتل عام کیا، اپنے مذہب کے ماسوا کسی مذہب کو برداشت نہیں کیا بلکہ دوسرے کے شہریوں کو زندگی اور معیشت تک کے حقوق سے محروم کر دیا، اس کے برعکس اسلام نے مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کی ایسی فضا پیدا کردی جس کی مثال مذاہب عالم پیش کرنے سے قاصر ہے، اسلامی سلطنتوں میں فتح مکہ کے بعد سے ہر مذہب و ملت کے پیروکار آباد تھے اور انہیں بلا امتیاز ایک ہی طرح کے شہری حقوق حاصل تھے مذہب و ملت کے اختلاف کی وجہ سے کوئی شہری دوسرے شہری کے حقوق غصب نہیں کر سکتے تھے بلکہ خاص کر کے غیرمسلموں کے حوالے سے بہت زیادہ احتیاط کیا کرتے تھے مسلمان حکمران غیر مسلم شہریوں (ذمیوں ) کے حوالے سے کتنا احتیاط کرتے اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے قبل از موت جو وصیت فرمائی اس میں فرمایا۔

”غیر مسلموں کے حقوق کا خیال رکھنا کیونکہ ہم نے ان کا ذمہ لیا ہے“ اسلام نے دنیا کے سامنے یہ تصور پیش کیا ہے کہ ”ایک غیر مسلم ذمی کا خون بھی ویسا ہی محترم ہے جیسا مسلمانوں کا خون اور اس کا خون بہا بھی ویسا ہی ہے جیسا مسلمان کا “ یہ صرف زبانی کلامی باتیں نہیں تھی اور نا ہی صرف کاغذوں میں لکھے ہوئے سطور تھے بلکہ مسلمان حکمرانوں نے ان سنہری اصولوں کو اسلامی عدالتوں کے ذریعے نافذ عمل کر کے اسلامی آئینی تاریخ کو منور کر دیا، خلیفۃ المسلمین سیدنا حضرت عمر فاروقؓ، سیدنا عثمان ذولنورینؓ، سیدنا علی المرتضیٰؓ ایسے مسلمانوں کو قتل کا کرنے کا حکم صادر فرمایا جنہوں نے کسی غیر مسلم شہری کو بنا کسی شرعی کے قتل عذر کر دیا،

ایک طرف اسلام کی درخشندہ تعلیم و تاریخ اور دوسری طرف مملکت خداداد پاکستان، پاکستان اپنے وجود کے ابتدائی ایام سے ہی دنیا کے سامنے ایک اسلامی ریاست کے شناخت سے نمایاں ہے سلام کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو اسلام نے کبھی بھی فسادات کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ فساد پھیلانے والوں کا زبردست محاسبہ کیا ہے قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالی کا واضح پیغام موجود ہے ”االلہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتے“ (سورۃ القصص ) اور دوسری جگہ فرماتے ہیں ”اصلاح کے بعد زمین میں فساد برپا مت کرو“ (سورۃ الاعراف) اس کے باوجود ہمارے ملک میں مذہبی جنونیت اور مذہب کے نام پر فسادات عروج پر ہے گزشتہ دنوں میں یک کے بعد دیگر کئی جگر خراش ایسے رونما ہوئے جس نے ہر ذی ہوش مسلمان کے روح تک کو زخمی کر دیا یقیناً اس قسم کی جنونیت پر مبنی سانحات کا تصور اسلامی ریاست میں ممکن نہیں ہے سانحہ سیالکوٹ بھی اسی جنونیت کی ایک کڑی ہے، جہاں ایک غیر مسلم و غیر ملکی شہری کو محض الزامات اور شک کی بنیادوں پر چند شرپسند عناصر اور عقل شعور سے عاری عوام نے پر تشدد کر کے مار مار کے قتل کر دیا، اور پھر ان شرپسند لوگوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس انسانیت سوز سانحہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی، پر کیا اسلام جیسا پرامن مذہب اس قسم کی بربریت اور دہشت گردی کی اجازت دیتی ہے کیا اسلام کا کوئی عدالتی نظام نہیں ہے کیا اسلام یہ اجازت دیتی ہے کہ عوام الناس خود ہی فیصلہ کریں اور خود ہی سزا بھی نافذ کریں، ایسا ہرگز نہیں اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام میں ایک مضبوط و مربوط آزاد اور خودمختار عدالتی نظام ہے جس کی اہم ترین ستون انصاف اور صرف انصاف ہے جہاں گواہوں اور دلیلوں کی بنیاد پر فیصلے کو یقینی بنایا جاتا ہے، (یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت پر مبنی ہے کہ ملک خداداد کی موجودہ عدالتیں فوری فیصلے کرنے سے قاصر ہے پر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم قانون کو ہاتھ میں لے کر زمین میں فساد برپا کرنے لگ جائے ) ہمارے ملک میں مذہب اسلام کی درخشندہ تعلیم، اسلام کا پیغام امن، اسلام کی دعوت کا بنیادی سبق ایثار و ہمدردی اور تعلیمات نبویﷺ اخلاق و محبت ہے، ایک دیہاتی مسجد نبوی ﷺ کے ایک گوشے میں قضائے حاجت کرنے لگا مسجد میں موجود لوگوں نے ہنگامہ برپا کر دیا اور اس دیہاتی کو برا بھلا کہنے لگے آنحضرت ﷺ نے صحابہ اکرامؓ کو خاموش کیا حتیٰ کہ جب تک فارغ نہیں ہو گیا، بعد ازاں آنحضرت ﷺ نے صحابہ اکرامؓ کو پانی چھڑک کر صاف کرنے کا حکم دیا اور دیہاتی کو بلا کر نہایت نرم لہجہ میں فرمایا: مسجد پیشاب کرنے کی جگہ نہیں ہے مسجد میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے نماز پڑھی جاتی ہے، وہ دیہاتی اعرابی آپﷺ کے اخلاق سے بے حد متاثر ہوا اور کہنے لگا ”میرے ماں باپ آپ پر قربان آپﷺ نے مجھے ڈانٹا اور نہ ہی برا بھلا کہا (سنن ابن ماجہ) وہ مجسمہ رحمت ﷺجو قاتل کو درگزر فرمائے، جس کی سایہ رحمت سے وحشی جیسا حبشی قاتل سے صحابی رسول کا لقب پائے اس نبیﷺ کی امتی سیالکوٹ کی سرزمین پہ ایک نہتے شہری کو محض الزامات کے بنیاد پر مذہبی جنونیت کے آڑ پہ دکھاوے کے نعرے بلند کر کے سڑکوں میں گھسیٹ کے قتل کر دیں، کیا یہ جنونیت پر مبنی نعرے یہ ظلم و بربریت آپ کو دنیا و آخرت کی احتساب بچا سکتے ہیں کیا کبھی زمین میں فساد برپا کرنے والا سرور کونین رحمت العالمین ﷺ کے آگے سرخرو ہو سکتے ہیں نہیں ہرگز نہیں یقیناً یہ فعل بعث شرمندگی ہے، بقول علامہ اقبالؒ“ ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ، شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ ”

ایک ضروری بات! اسلام قتل خونریزی کے علاوہ فتنہ انگیزی اور جھوٹی افواہوں کی گرم بازاری کو سخت ناپسند کرتا ہے، اس کو ایک فساد پر مبنی وحشیانہ عمل قرار دیتا ہے اور نا ہی علمائے اکرام اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں لہذا خدارا اس قسم کی قبیح فعل کو اسلام یا علماء اکرام سے نا جوڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments