واللہ خیۡر الۡماکریۡن۔ بہتر سے بہترین عطا کرنے والا رب


ایف ایس سی کا امتحان دے کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ ائر پورٹ سیکیورٹی فورس میں اے ایس آئی کا اشتہار آیا، فوراً درخواست دے ڈالی، تھکا دینے والی دوڑ کے بعد تحریری امتحان اپنے تئیں سب سے بہترین کر کے آئے۔ دو تین ہفتے گزرے رزلٹ کے کوئی آثار نہ دیکھتے ہوئے ائر پورٹ جا پہنچے، معلوم ہوا کہاں کا رزلٹ؟ بندے تو سیلیکٹ ہو کر جوائن بھی کر چکے۔ یہ پہلا اتفاق تھا۔ چند ماہ بعد ایک خفیہ ایجنسی میں سب انسپکٹر کی سیٹ اناؤنس ہوئی تو ٹیسٹ دے کر انٹرویو کے لئے اپنی برادری کے ایک آرمی افسر کی سفارش کروانے اسلام آباد جا پہنچے، جواب ملا لیٹ ہو گئے ہیں۔

یہ دوسرا اتفاق تھا۔ ایف ایس سی کرنے کے بعد بھی ایک سال مزید ضائع ہو گیا تو اسلامیات پنجابی جیسے آسان مضمون رکھ کر بی اے کرنے کا سوچا۔ پہلے دن کتابوں کو ہاتھ لگایا تو والد صاحب کے ایک دوست تشریف لائے، باتوں باتوں میں بی اے کی تیاری کا بتایا تو فرمانے لگے اچھے سبجیکٹس رکھیں کام آئیں گے۔ اسی لمحے ارادہ بدلا اور انگریزی ادب کے ساتھ بی اے کرنے میں لگ گئے۔ یہ تیسرا اتفاق تھا۔

ایم اے انگلش کر لینے کے بعد مقابلے کے امتحان کا سوچا لیکن لاہور میں رہ کر تیاری کرنے کے ریسورسز نہ ہونے کی وجہ سے ارادہ ترک ہی کر بیٹھے تھے کہ چھوٹے بھائی کے پاس برسوں سے پڑا ایک انعامی بانڈ نکل آیا۔ یوں لاہور جانے کے زاد راہ کا بندوبست ہوا اور اللہ تعالی کے کرم سے افسر بننے کا خواب بھی پورا ہوا۔ یہ چوتھا اتفاق تھا۔

سردار صاحب بھائیوں جیسے دوست ہیں، بتاتے ہیں کہ ایف ایس کرنے کے بعد وہ ایک کھٹارا سی بس پہ سوار ہو کر کالج جایا کرتے تھے، ایک دن کچھ لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے روڈ بلاک تھا اور یوں بس ڈرائیور نے ایک نیا روٹ اختیار کیا، راستے میں ایک جگہ پاکستان آرمی میں کمیشنڈ افسر بنیے کا بینر دیکھ کر بس رکوائی اور عمارت کے اندر داخل ہو گئے۔ اندر جا کر معلوم ہوا کمیشنڈ افسر کے ٹیسٹ کا آج آخری دن ہے۔ بغیر کسی تیاری اور ارادے کے قسمت آزمائی کی اور آج آرمی میں ایک اعلیٰ عہدے پہ فائز ہیں۔

متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے خان صاحب ایک انشورنس کمپنی میں درمیانے درجے کے ملازم تھے۔ کمپنی کے کام ہی کے سلسلے میں کراچی جانا ہوا تو ساتھ والی سیٹ پر ایک ائر فورس افسر ہمسفر ہوئے۔ گپ شپ ہوئی تعارف ہوا اور دونوں اپنی اپنی منزل پہ روانہ ہو گئے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد ان صاحب کی پوسٹنگ خان صاحب کے شہر میں ہو گئی۔ یوں پھر سے میل ملاپ کا سلسلہ جاری ہوا۔ خان صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے اس دوست کی بیٹی کی شادی طے ہوئی تو مجھ سے تعاون کی درخواست کی۔

مسئلہ حل نا ہوتے دیکھ کر فرمانے لگے لاہور ڈی ایچ اے میں ان کا ایک پلاٹ ہے وہ آپ رکھ لیں اور وقتی طور پر وہ انہیں تین لاکھ ارینج کر کے دے دیں۔ خان صاحب بتاتے ہیں کہ ابتدائی طور پر تین لاکھ ارینج کر کے لیا جانے والا پلاٹ تھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے ستاسی لاکھ کا بیچا۔ خان صاحب اب اپنے شہر کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون ہیں اور متعدد شہروں میں ان کے بزنس ہیں۔

اب ذرا ایک لمحے کے لئے ان سب اتفاقات پہ غور کیجئے۔ اگر اس طالبعلم کی سیلیکشن اے ایس ایف میں ہو جاتی، خفیہ ادارے میں سب انسپکٹر بن جاتا، والد صاحب کے دوست اسی دن چائے پہ آ کر حوصلہ افزائی نہ کرتے، انعامی بانڈ کی وجہ سے لاہور جا کر رہنا ممکن نہ ہوتا تو آج یہ طالبعلم اس مقام پہ کبھی نہ ہوتا۔

سردار صاحب کے راستے میں جلوس رکاوٹ بن کر ان کا راستہ تبدیل نہ کرواتا تو آج وہ بھی سینئر آرمی افسر نہ ہوتے۔

ائر فورس کے افسر خان صاحب کے ہم سفر نہ بنتے اور پوسٹنگ پہ ان کے شہر نہ آتے تو وہ بھی شاید اسی انشورنس کمپنی کے کسی نسبتاً بہتر عہدے پہ ہوتے اور پراپرٹی کی دنیا کے سب سے بڑے نام کی حیثیت سے نہ جانے جاتے۔

یقیناً وہ شہ رگ سے قریب رب سب سے بہترین کار ساز ہے جو اپنے بندے کو بہتر سے محروم کر کے بہترین عطا کرتا ہے لیکن اس کے بندے کم ہی شکر کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments