سید وارث شاہ۔ پنجابی سخن کا وارث ( 1 )


وارث شاہ کو پنجابی زبان، پنجابی شاعری، پنجابی ثقافت اور تہذیب و تمدن کا وارث کہا جاتا ہے۔ وہ قصبہ جنڈیالہ ضلع شیخوپورہ متحدہ ہندوستان (موجودہ پاکستان ) میں 1722 ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے یوم پیدائش پر مختلف دانشوروں اور محققین کی مختلف آرائیں ہیں لیکن کوئی واضح ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے کلام میں موجود مختلف اشعار کی روشنی میں ان کا سن پیدائش 1722 ء ہی مانا جاتا ہے۔ آپ کے والد محترم کا نام سید گل شیر تھا۔

آپ کے گاؤں میں موجود شجرہ کے مطابق آپ کا تعلق سید گھرانے سے تھا۔ بچپن میں ہی آپ کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا تھا۔ آپ کا بچپن ابھی بارہویں سال کی کچی عمر میں ہی تھا کہ آپ کی والدہ بھی آپ کو داغ مفارقت دے گئیں۔ ان حالات میں بھائیوں نے بھرپور پیار اور شفقت دی لیکن پیار و محبت بھی ان کے ماں باپ کی جگہ نہیں لے سکا، اس لئے چھوٹی عمر میں ہی وارث شاہ فطری طور پر بہت حساس ہو گئے۔

وارث شاہ کے والد محترم نے اس وقت کے رائج تعلیمی نظام کے مطابق بچپن میں آپ کو گاؤں کی مسجد میں پڑھنے کے لئے داخل کرا دیا تھا۔ جلد ہی ان کے والد کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا تھا۔ چھوٹی عمر میں اس صدمے نے آپ کو اس حد تک مغموم کر دیا کہ ان کا دل پڑھائی میں نہیں لگا اور وہ اس وقت پاس کے گاؤں ہرن مینار میں مقیم ایک فقیر کے ڈیرے پر ان سے ملنے چلے گئے۔ اس فقیر نے اس ننھے بچے کے سر پر اپنا دست شفقت رکھا اور انھیں تسلی دی، جس سے انھیں کچھ سکون ملا تو وہ واپس اپنے گاؤں آ گئے اور اسی مسجد میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔

اس زمانے میں دیہات کی مسجدوں میں قرآن کا ابتدائی قاعدہ اور ناظرہ قرآن کے علاوہ قرآن مجید حفظ کرایا جاتا تھا۔ قرآن مجید کی تفسیر، اس کے مطالب و گہرے مفہوم اور مزید تعلیم کے لئے مدرسوں میں جانا پڑتا تھا۔ وارث شاہ بنیادی پڑھائی ختم کرنے کے بعد علم کی مزید روشنی حاصل کرنے کا جذبہ لے کر قصور چلے گئے۔ اس زمانے میں لاہور، ملتان اور قصور تعلیم کے بڑے مرکز تھے۔ وارث شاہ نے اپنے قصبے سے نزدیک پڑنے والے قصور کا انتخاب کیا، جہاں حافظ غلام مرتضے مخدومی سلسلے کے ایک بڑے عالم کی نگرانی میں درس و تدریس کا کام ہو رہا تھا۔

اس مدرسے کی بنیاد غلام محی الدین قصوری نے رکھی تھی۔ قصور کے اس مدرسے سے تعلیم مکمل کر نے کے بعد انہیں لگا کہ یہاں سے حاصل کی گئی تعلیم کی روشنی انہیں منزل کا راستہ تو دکھا رہی ہے لیکن شاید اصل منزل تک نہ پہنچا سکے۔ علم کی لو کو مزید تیز کرنے کے لئے ان کی تلاش انہیں بابا فرید گنج شکرؒ کی درگاہ تک لے گئی۔ آپ وہاں پہنچے تو پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان کی خانقاہ میں دینیات کے علما اور صوفیا ء اکرام کی صحبت میں رہ کر انہوں نے اپنے آپ کو علم کی روشنی سے مالا مال کر لیا۔ ان کا عربی زبان پر پر عبور ان کے کلام میں جا بجا جھلکتا ہے اسی طرح ان کی علمیت جابجا ان کے کلام میں اس طرح جھلکتی ہے کہ قاری اس میں کھو کر رہ جاتا ہے۔

آپ کے ذاتی حالات زندگی کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ غالباً آپ کا کام اتنا زیادہ اور اچھا ہے جس کی وجہ سے آپ کے حالات زندگی پس پردہ چلے گئے ہیں۔ مولانا مولا بخش کشتہ اپنی کتاب ً پنجابی شاعراں دا تذکرہ ً میں وارث شاہ پر لکھے گئے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ وارث شاہ پاکپتن سے فیض یاب ہو کر ٹھٹھہ جاہد پنڈ میں آئے اور یہاں قیام کیا۔ اس گاؤں کی مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو واعظ و نصیحت اور درس دینے لگ لگے۔

یہاں پر ان کی دوستی ایک لوہار سے ہو گئی جس کے گھر ان کا آنا جانا لگ گیا۔ انہی لوہاروں کی ایک لڑکی بھاگ بھری سے انھیں عشق ہو گیا۔ عشق کا جب دھواں اٹھا تو عورت کے وارثوں کو یہ بات بری لگی اور انہوں نے وارث شاہ کو گاؤں سے نکال دیا۔ وہ وہاں سے پاکپتن کے نزدیک ملکہ ہانس میں چلے گئے اور عشق کے زخم کو تازہ کرنے کے لیے ہیر اور رانجھا کا قصہ منظوم کیا۔ ڈاکٹر موہن سنگھ وارث شاہ کے اس عشق کو نہیں مانتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ اس پاک صفت درویش پر ایک تہمت ہے۔ لیکن ً معشوقہ پنجاب ًکے مصنف چوہدری فضل حق اور بعض دوسرے اس کو درست مانتے ہیں۔ وارث شاہ نے اپنے قصے میں بھاگ بھری کا نام چھ سات بار استعمال کیا ہے۔ لیکن اس خوبی سے کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ بھاگ بھری کسے کہتے ہیں یا وہ بھاگوں والی کس کو سمجھتے ہیں۔

علی عباس جلال پوری اپنی تصنیف ً مقامات وارث شاہ ًمیں لکھتے ہیں کہ وارث شاہ خود بھی عشق کے درد سے آشنا تھے۔ ان کی محبوبہ بھاگ بھری موضع مدسی کی رہنے والی تھی۔ وارث شاہ نے پاکپتن سے واپس آتے ہوئے مدسی میں قیام کیا۔ بھاگ بھری کے گھر کھانا کھانے گئے تو اسے دیکھتے ہی ہزار جان سے اس پر فریفتہ ہو گئے۔ بھاگ بھری بھی ان سے محبت کرنے لگی۔ ان کی محبت کا راز فاش ہوا لیکن وارث شاہ کا عشق بے لوث اور حرص و ہوس سے پاک تھا اس لئے کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ وارث شاہ کو عشق کی منزلیں طے کرتے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ بھاگ بھری اچانک انھیں داغ مفارقت دے گئی۔ وارث شاہ کو اس مرگ ناگہاں کا بہت سخت صدمہ ہوا۔ غم فراق و حسرت دید کے اس عالم میں انہوں نے ہیر کا قصہ نظم کرنا شروع کیا۔

وارث شاہ بہت بڑے عالم فاضل تھے۔ طب، راگ، نجوم، تصوف، عربی، فارسی، سنسکرت، جوگ، نفسیات، علم قیافہ، عروض و قوافی، سیاست، معاشرت اور قرآن و حدیث کا گہرا علم رکھتے تھے۔ آپ کی کتاب میں حکمت بھری باتوں اور پندو نصائح کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہیں کہ آپ بلند پایہ حکیم و فلاسفر تھے جو ظاہری و باطنی امراض کو جانتے تھے۔ قدرت نے آپ کو قوت تخیل، زبان پر قدرت اور فطرت کے گہرے مطالعہ اور مشاہدہ کی بے پناہ طاقتیں بخشی تھیں۔ وارث شاہ کی تمثیلوں، تشبیہات اور تلمیحات میں بھی دیس پنجاب کی مٹی کی بو باس رچی ہوئی ہے۔ وہ روزمرہ کی دیہاتی زندگی سے اپنی تمثیلیں اور تشبیہات اخذ کرتے ہیں۔

وارث شاہ جس دور میں پروان چڑھے اس وقت پنجاب سیاسی و انتظامی اعتبار سے افراتفری کا شکار تھا۔ اٹھارہویں صدی کا یہ زمانہ پنجاب کے لئے تباہیوں کا زمانہ تھا۔ مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہو چکی تھی۔ دربار میں ریشہ دوانیوں کا عروج تھا۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے ملک کا نظام تباہ کر دیا تھا۔ پنجاب میں غارت گری، سراسیمگی، دہشت اور قتل و غارت گری کا کوئی انت شمار نہیں تھا جس کا پنجاب کو بیرونی حملہ آوروں کے حملوں اور لڑائیوں کے دوران سامنا کرنا پڑا۔

فاتحین کا لشکر جس علاقے سے گزرتا اس کو ٹڈیوں کی طرح ویران کر جاتا۔ رسد رسانی کے نام پر لشکری لوگوں کی بھیڑ بکریاں، گائیں، بھینسیں، بیل گھوڑے ہانک کر لے جاتے۔ اناج کی کوٹھیاں خالی کر الی جاتیں۔ سرسبز کھیت حملہ آوروں کے گھوڑوں اور باربرداری کے جانوروں کے چارے کی نظر ہو جاتے۔ ان سب سے بچنے کے لئے لوگ گائے بھینسوں کو جھنگی میں چھپانے کی کوشش کرتے۔ سونے چاندی کے زیورات زمین میں گاڑ دیتے۔ حملہ آوروں کی وجہ سے زندگی اجیرن ہو جاتی۔

وارث شاہ ایک ذی شعور اور ذی احساس شاعر تھے انھیں پنجاب کی اس تباہی کا بہت زیادہ احساس تھا۔ انہوں نے بڑے دلدوز پیرائے میں اپنے عہد کی سیاسی اور معاشرتی زبوں حالی اور اخلاقی پستی کا نقشہ کھینچا ہے۔ وارث شاہ کو زبان پر قدرت حاصل تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے جس خوبی سے قصہ ہیر کے سارے لوازمات پورے کیے ہیں وہ انہی کا خاصہ ہیں۔ ہیر میں زمینداروں، علما، مذہبی پیشواؤں کی تمدنی اور معاشرتی حالت کے جو نقشے کھینچے ہیں یہ ان کی جدت طرازی اور سحر کا نتیجہ ہے۔ ایک بات دوسری سے خود بخود نکلتی ہے اس لئے آج دنیا انہیں لافانی شاعر اور پنجابی ادب کا شیکسپیئر مانتے ہیں۔ (وارث شاہ کے حالات زندگی اور شاعری کے بارے کچھ اور اگلی قسط میں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments