سید وارث شاہ۔ پنجابی سخن کا وارث (2)


وارث شاہ نے غریبوں اور عوام کی معاشی استحصال اور انفرادی تذلیل کا تذکرہ جہاں اپنے کلام میں اپنے انداز میں کیا ہے وہیں اسلامی شرع کے منافی اپنے خاوند اور اہل خانہ کو بے عزت کرنے والی خواتین اور اوباش مردوں کو بھی نشانہ تنقید بنایا ہے۔ اپنے کلام میں لالچی کھتریوں اور ظالم چوہدریوں کے کالے کرتوت کھول کر پیش کیے ہیں۔ انہوں نے پنجاب کی صبح کا ایسا نقشہ کھینچا کہ پنجاب کا کلچر اور رہن سہن اور روایات فطرت پوری طرح عیاں ہو گئیں۔

عورتوں کی اقسام بیان کیں تو زنانہ نفسیات کی پرتیں کھول کر رکھ دیں۔ عشق کی بات کی تو مجاز سے حقیقت تک سفر آسان کر دیا۔ عوامی مسائل کا ذکر کیا تو ملکہ ہانس کے چھوٹے بڑے آپ کے دیوانے ہو گئے۔ آپ نے قصہ ہیر رانجھا کی لافانی تخلیق 1766 / 1767 میں ملکہ ہانس میں مکمل کی۔ یوں یہ رومان خیز داستان عقل و دانش سے مرصع علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کا خزانہ بن گئی۔

وارث شاہ کے نزدیک جب تک کسی پیر کی بیعت نہ کی جائے راہ حق کا طلب گار اپنی منزل نہیں پا سکتا۔ رہبر کی تلاش کرنے کے بعد اس کے دامن سے وابستہ ہونا لازم ہے، رہبر کے بغیر کبھی مشکل دور نہیں ہو سکتی۔ بندہ خطاؤں اور گناہوں سے بھرا ہوا ہے۔ اسی لئے آپ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا بروز حشر کون شفاعت کرے گا۔

رہبر ڈھونڈ کے پکڑنا فرض ہویا بناں ہادیاں تم نہ ہون جہیڑے
بندہ پر تقصیر گناہ بھریا شافعی حشر نوں باجھ رسول کیہڑے

وارث شاہ نے اپنے دور کے کٹھ ملاؤں اور قاضیوں کی ریاکاری و مکر و فریب کا پردہ بڑی بے رحمی سے چاک کیا ہے۔ کہتے ہیں یہ شریعت کے احکام بالائے طاق رکھ کر ہمیشہ اس شخص کی حمایت کرتے ہیں جو انھیں رشوت دے۔ یہ لوگ دینی علوم تو اپنی غرض داری کے لئے حاصل کرتے ہیں لیکن اس کا احسان خلق خدا پر دھرتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمارے پیر ہر وقت اپنے نفس کی پرورش میں مصروف رہتے ہیں انھیں نماز روزے سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ انھیں لوگوں سے قدم بوسی کرانے کا بہت شوق ہے، خواہ مرید کے بچے بیوی بھوکے مر رہے ہوں، پیروں کو اپنے نذرانے سے کام ہوتا ہے۔

وارث شاہ نے پنجاب کے ظالم و جابر معاشرے کی روایات کی نشاندہی بھی کی ہے۔ وہ طاقتوروں کی چھوٹے طبقے کو دبانے کی عادات بتاتے ہوئے کہتے ہیں طاقتور تو غریبوں کا جینا محال کر دیتے ہیں۔ غریب ہی ہمیشہ درد سہنے والے ہیں جو دوسروں کے دکھ درد میں شریک بھی ہوتے ہیں اور ان کی دلجوئی کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔

ساک ماڑیاں دے کھو لین ڈاہڈے ان پجدے اوہ نہ بولدے نیں
نہیں چلدا وس لاچار ہو کے موئے سپ وانگوں و س گھولدے نیں
کدی آکھدے مارئیے آپ مرئیے پئے اندروں باہروں ڈولدے نیں
کن ماڑیاں دے سبھے رہن وچے ماڑے ماڑیاں تھے دکھ پھولدے نیں
شاندار نوں کرے نہ کوئی جھوٹھا کنگال جھوٹھا کر ٹولدے نیں
وارث شاہ لٹاؤندے کھڑے ماڑے مارے خوف دے مونہوں نہ بولدے نیں

(طاقتور کمزور لوگوں سے زبردستی رشتے چھین کر خود ان دوشیزاؤں سے شادیاں کر لیتے ہیں۔ نہ وہ پوچھتے ہیں اور نہ بولتے ہیں۔ غریبوں کا بس نہیں چلتا بس مرتے ہوئے سانپ کی طرح اپنے اندر ہی اندر زہر گھولتے رہتے ہیں۔ کبھی مارنے کا اور کبھی خود مرنے کا سوچتے ہیں لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے۔ کمزور لوگوں کے ارمان دل میں ہی رہ جاتے ہیں۔ کمزور لوگ ہی ایک دوسرے کے دکھ بانٹتے ہیں۔ طاقتور کو کوئی جھوٹا نہیں کہتا الٹا کنگال غریب کو ہی جھوٹا گردانتے ہیں۔ وارث شاہ کمزور اور غریب کھڑے لٹتے رہتے ہیں اور پھر بھی منہ سے کچھ نہیں بولتے۔ )

مولانا مولا بخش کشتہ کا خیال ہے کہ ہیر رانجھا لکھنے سے پہلے آپ قصہ بردہ اور چوہڑی نامہ ( ایک خوبصورت بھنگن کے نازو نخروں کی کہانی ) کے علاوہ سی حرفی، سسی وارث شاہ اور معراج نامہ لکھ چکے تھے۔ معراج نامہ ان کی اولین تصنیف خیال کی جاتی ہے۔ وارث شاہ نے دوہڑے بھی کہے جن کی تعریف شاعر احمد یار خان ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

ہنجو ڈولہن، مونہوں نہ بولن، دو ہڑے درد ہجر دے
سان چڑھے ہوئے خنجر وانگوں، کھبن وچ جگر دے

(یعنی وارث شاہ کے دو ہڑے منہ سے تو کچھ نہیں بولتے مگر آنسو بہاتے ہوئے ہجر کا درد بیان کرتے ہیں اور تیز کیے ہوئے خنجر کی طرح سیدھے دل میں اترتے جاتے ہیں۔ ) اسی طرح میاں محمد بخش ؒ بھی وارث شاہ کی شاعرانہ عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

وارث شاہ سخن دا وارث نندے کون اونہاں نوں
حرف اوہدے تے انگل دھرنی نہیں قدر اسانوں

یعنی وارث شاہ تو سخن کا وارث ہے اس پر تنقید کون سوچ سکتا ہے میں اس قابل نہیں کہ اس کے لکھے پر انگلی اٹھا سکوں۔

قاری مولانا غلام حسین قادری اپنی کتاب ً کلام حضرت سید وارث شاہ ً میں لکھتے ہیں۔ حضرت وارث شاہ ہیر کی تصنیف سے پہلے اپنے دوستوں کے ہمراہ گرو گورکھ ناتھ دوم کے ٹلہ واقع ضلع جہلم پہنچے اور وہاں اس وقت موجود ان کے چیلے تیرتھ ناتھ سے ملاقات کی اور وہاں رہ کر جوگیوں کی عادات و رسوم کا بغور جائزہ لیا۔ پھر اپنے دوستوں کے ہمراہ تخت ہزارہ پہنچے اور وہاں رانجھے کی مسجد اور حمام کو دیکھا اور اس میں کچھ دن اعتکاف بھی کیا۔ وارث شاہ اپنے دوستوں کے ہمراہ جھنگ سیال بھی گئے اور وہاں ہیر کے گاؤں کے لوگوں کے رہن سہن کا جائزہ لیا۔ آپ جھنگ سیال سے کوٹ قبولہ گئے اور سلیم چشتی ؒکے مزار پر حاضری دے کر پاک پتن چلے گئے پھر وہاں سے ملکہ ہانس قیام کیا اور ہیر وارث شاہ لکھنے کا آغاز کیا۔

وارث شاہ نے ریت کے مطابق رب کی شان، نبی اکرم کی صفت، ان کے چاروں یاروں کی خوبیاں بیان کرنے کے بعد اپنے پیر کی مدح سرائی کی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بزرگوں بابا فرید گنج شکرؒ، خواجہ قطب الدین چشتی ؒ، خواجہ معین الدین چشتی ؒکا ذکر کیا ہے۔ ان بزرگوں نے ہندوستان میں اسلام کی روشنی سے لوگوں کے دلوں کو منور کیا۔ اس کے بعد انہوں نے قصہ منظوم کرنے کی وجہ تسمیہ بتائی ہے جس کے بعد انہوں نے قصہ بیان کیا ہے۔

قصہ ہیر رانجھا۔

قصہ ہیر رانجھا وارث شاہ سے پہلے بھی کئی مصنفین نے منظوم کیا۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ یہ قصہ ہی وارث شاہ کا اصلی اور بڑا کام ہے جو پہلے سب مصنفین کے کام پر بھاری ہے اور انہوں نے یہ قصہ بھاگ بھری سے عشق اور اس کی جدائی کے بعد منظوم کیا۔ دوسروں کا کہنا ہے کہ ہیر اور رانجھا دو حقیقی شخصیات تھیں جو پندرہویں اور سولہویں صدی میں لودھی خاندان کے دور میں رہتی تھیں۔ وارث شاہ نے بعد میں انہیں اپنے قصہ میں استعمال کیا جو انہوں نے 1766 میں لکھا۔ وارث شاہ کا اس قصہ کے بارے میں کہنا ہے کہ اس کہانی کا ایک بہت گہرا منطق ہے جو انسان کی اللہ تعالی کے بارے میں کی جستجو سے متعلق ہے۔

ہیر ایک انتہائی خوبصورت دوشیزہ ہے جو موجودہ پاکستانی پنجاب کے شہر جھنگ کے ایک امیر سیال جاٹ خاندان میں پیدا ہوئی اور اپنے ماں باپ کی منہ زور لاڈلی بیٹی ہے۔ جاٹوں کے رانجھا قبیلے کا دھیدو رانجھا اپنے چار بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے اور دریا چناب کے کنارے تخت ہزارہ کے گاؤں میں رہتا ہے۔ اپنے بھائیوں کی نسبت گھر یا کھیتی باڑی کا کام کرنے کی بجائے وہ بانسری بجاتے ہوئے آرام کی زندگی گزارتا ہے جبکہ اس کے بڑے بھائی سخت محنت کرتے ہیں۔

رانجھا کے والد چوہدری موجو کی وفات کے بعد رانجھا کا اپنے بھائیوں سے زمین پر جھگڑا ہو گیا تو اس نے گھر چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں رانجھے کی سستی کی وجہ سے اس کی بھابھیوں نے اسے کھانا دینے سے انکار کر دیا اور طعنے مار مار کر اس کا برا حال کر دیا جس وجہ سے اس نے گھر چھوڑ دیا۔ نگری نگری گھومتا بالآخر وہ ہیر کے گاؤں پہنچتا ہے جہاں ہیر کا والد چوہدری چوچک رانجھے کو نوکری پر رکھ لیتا ہے۔ وہ بیلے میں ہیر کے والد کی بھینسیں چراتے ہوئے بانسری بجاتا ہے۔

اس کی بانسری کی مدھر دھنوں سے ہیر مسحور ہو جاتی ہے اور آخرکار اس کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ وہ کئی سال تک خفیہ طور پر ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ دونوں ہیر کے غیرت مند چچا کیدو اور اس کے والد چوچک اور ماں ملکی کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں۔ بے عزتی کے ڈر سے ہیر کے والدین اس کی شادی رنگ پور کے ایک امیر جاٹ خاندان کے سیدے کھیڑے کے ساتھ طے کر دیتے ہیں۔ شادی والے دن ہیر کو اس کے خاندان والے اور مقامی مسجد کا مولوی مجبور کر کے زبردستی اس کی ہاں کرا کے سیدے کھیڑے سے شادی کر دیتے ہیں۔

سید اکھیڑا ہیر کو بیاہ کر اپنے گاؤں رنگ پورلے جاتا ہے۔ رانجھا کا دل ہیر کی شادی پر ٹوٹ گیا وہ دیہی علاقوں میں گھومتا ہوا ٹلہ جوگیاں واقع موجودہ ضلع جہلم میں پہنچتا ہے۔ یہاں اس کی ملاقات ایک جوگی سے ہوتی ہے۔ جوگیوں کے کنقتا ( کان چھیدنے والے ) فرقے کے بانی گورکھ ناتھ سے ملنے کے بعد رانجھا جوگی ہو گیا۔ اس نے اپنے کان چھدوا لیے اور مادی دنیا کو ترک کر دیا۔ اب سادھو بن کر رب کے نام کا ورد کرتے ہوئے وہ پورا پنجاب گھومتا ہے۔

ہیر شادی کے بعد اس کی نند سہتی اس کی رازدار سہیلی بن جاتی ہے جو خود بھی ایک شخص مراد سے محبت کرتی ہے۔ رانجھا جب جوگی بن کر رنگ پور پہنچتا ہے۔ کھیڑوں کی عورتیں جن میں ہیر اور سہتی بھی شامل تھیں سادھو کو خیرات دینے نکلتی ہیں۔ ہیر رانجھے کو پہچان لیتی ہے اور رانجھا بھی اپنے گوہر مقصود کو دیکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد رانجھے نے رنگ پور میں ہی ڈیرہ لگا لیا۔ بالآخر ہیر نے سہتی کے ساتھ مل کر رانجھا کے ساتھ بھاگ جانے کا پروگرام بنایا جس کے مطابق ہیر کو سانپ نے ڈس لیا جب ہیر بیہوش ہو گئی تو سادھو رانجھے کو

سانپ کا زہر نکالنے کے لئے بلایا گیا۔ ہیر اور رانجھے کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا تا کہ سادھو منتر پڑھ کر ہیر کو صحت یاب کر دے لیکن سہتی نے رانجھے کی مدد سے کمرے میں نقب لگا کر ہیر رانجھے کو بھگا دیا۔ خود سہتی بھاگ کر اپنے عاشق مراد کے پاس پہنچ گئی۔ ہیر اور رانجھا رنگ پور سے بھاگ کر ہیر کے گاؤں لوٹتے ہیں جہاں ہیر کے والدین ان کی شادی پر راضی ہو جاتے ہیں۔ لیکن والدین کا شادی کا معاہدہ صرف ایک دھوکہ ہوتا ہے۔

شادی کے دن کیدو نے ہیر کو اس کے رویے کی سزا دینے کے لیے اس کے کھانے میں زہر ملا دیا تا کہ شادی نہ ہو سکے۔ یہ خبر سن کر رانجھا ہیر کی مدد کے لئے دوڑتا ہے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہے۔ اس کے پہنچنے سے پہلے ہیر مر جاتی ہے۔ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ رانجھا باقی کا زہریلا کھانا کھاتا ہے اور ہیر کے پاس ہی مر جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments