تحفظ ماحول کے لئے رضاکارانہ جذبے کی ضرورت


حالیہ دنوں پاکستان میں سموگ اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل کو ذکر بڑے زور و شور سے کیا جا رہا ہے۔ ایسے بہت افراد اور کاروباری اداروں کے خلاف ایکشن کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بن رہی ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سے قبل حکومت کی جانب سے شجرکاری مہم کی خبریں اخباری سرخیوں اور نشریاتی اداروں کی ہیڈ لائنز کا حصہ رہیں۔ ماحولیاتی آلودگی پوری دنیا کو درپیش ایک ایسا مسئلہ ہے جو صرف حکومتی کوششوں سے حل نہیں ہو سکتا ۔

اس کے لئے عوامی سطح پر رضاکارانہ جذبے اور ”اونر شپ“ کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اپنے گھر کی دہلیز سے باہر کی دنیا بھی ہماری اپنی دنیا ہے۔ اس کی صفائی، اس پر موجود سبزے کی حفاظت اور سبز رقبے میں اضافہ ہمارے لئے ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ باہر کی دنیا میں ہم سب بلا تفریق رنگ و نسل سانس لیتے ہیں۔

پڑوسی ملک عوامی جمہوریہ چین میں شجرکاری رضاکارانہ طور پر کی جاتی ہے۔ تقریباً چالیس برس قبل تیرہ دسمبر سنہ 1981 کو پانچویں قومی عوامی کانگریس کے چوتھے اجلاس میں ”قومی رضاکارانہ شجرکاری مہم سے متعلق قرارداد“ منظور کی گئی تھی، جس میں شجرکاری اور مادر وطن کی شادابی کو ہر شہری کے فریضے کے طور پر اجاگر کیا گیا۔ گزشتہ 40 برسوں کے دوران ملک بھر کے عوام نے اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور عوام کی رضاکارانہ شجرکاری کے شاندار نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ تاحال، چین بھر میں 17.5 بلین افراد رضاکارانہ طور پر شجرکاری میں حصہ لے چکے ہیں، اور 78 بلین سے زائد پودے لگائے ہیں۔ ان رضا کاروں نے موسمیاتی تبدیلی کا فعال طور پر جواب دینے سمیت ایک ماحولیاتی تہذیب اور ایک خوبصورت چین کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

حال ہی میں چین نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کا پہلا وائٹ پیپر جاری کیا، جس سے ظاہر ہوتا کہ چین نہ صرف اپنے ملک میں، بلکہ عالمی سطح پر بھی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ دی بیلٹ اینڈ روڈ کی سرسبز ترقی سے لے کر حیاتیاتی تحفظ کے بگ ڈیٹا پلیٹ فارم کی تعمیر تک، کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل کے وژن سے لے کر ترقی پذیر ممالک میں کم کاربن ترقی کی مدد تک، چین ”کرہ ارض پر زندگیوں کے ہم نصیب معاشرے“ کی تعمیر میں اپنا عملی کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔ فطرت اور انسانیت کی ہم آہنگ بقائے باہمی سے لے کر ”سرسبز پہاڑ سونے کے پہاڑ، شفاف دریا چاندی کے دریا ہیں“ کے تصور تک، چین اپنے قدیم روایتی فلسفے سے لے کر جدید ترقیاتی تصور تک، دنیا کے لیے اپنی دانشمندی فراہم کرتا آر ہا ہے۔

انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگ بقائے باہمی چین کی ایک عمدہ روایت ہے جو عوام کے ”ثقافتی جین“ میں زندہ ہے۔ حالیہ دنوں چین کے شہر کھون منگ میں منعقدہ حیاتیاتی تنوع کنونشن کے فریقوں کی 15 ویں کانفرنس میں ”کرہ ارض پر زندگیوں کے ہم نصیب معاشرے“ کی تعمیر کی تجاویز پیش کی گئیں جو سرکاری سطح پر کی جانے والی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ ساتھ ساتھ چینی عوام کے دل و دماغ میں تعلیم، ذرائع ابلاغ نیز سیاحت کے شعبے سے بھی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کا شعور اجاگر کیا گیا ہے اور اسے عوامی سطح پر ”کرہ ارض پر زندگیوں کے ہم نصیب معاشرے“ کا ابتدائی ضامن قرار دیا گیا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے میدان میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی بڑی کوششیں ہو رہی ہیں۔ سرکاری میڈیا کی جانب سے چائنا میڈیا گروپ نے حالیہ برسوں حیاتیاتی تحفظ سے متعلق ”مشترکہ گھر“ اور ”نیشنل پارکس“ جیسے کئی دستاویزی پروگرام پیش کیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر عوام کو فطرت سے متعلق معلومات سے روشناس کروانے کے لیے مختلف اکاؤنٹس، مضامین انتہائی مقبول ہو رہے ہیں اور سوشل میڈیا کی معروف شخصیات بھی فطرت سے وابستہ معلومات کو شیئر کرنے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا سمیت روایتی ذرائع ابلاغ میں پانڈا، ہاتھیوں، نادر نباتات جیسے موضوعات پر خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں، یوں سرکاری میڈیا اور عوامی ذرائع کی مشترکہ کوششوں سے حیاتیاتی تحفظ سے متعلق لوگوں کے شعور کو بلند کیا گیا ہے۔

چین میں رضاکارانہ شجرکاری سے ملک کے جنگلاتی وسائل کی نشوونما کو موثر طریقے سے فروغ دیا گیا ہے، آج چین میں جنگلات کا مجموعی رقبہ ملک کے مجموعی رقبے کا 23.04 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یوں چین عالمی سطح پر جنگلاتی وسائل میں سب سے زیادہ اضافے کا حامل ملک بن چکا ہے اور چین مصنوعی جنگلات کے رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments