تئیس برس، پانچ مہینے اور گیارہ دن۔۔۔


جان مادر

تئیس برس، پانچ مہینے اور گیارہ دن۔۔۔

اتنی جلدی؟

یہ کوئی عمر تھی جانے کی؟

ابھی تو بہت کچھ باقی تھا

بہت کچھ کرنا اور کہنا تھا

کنتی ہی باتیں

 بہت سا اور پیار بھی تمہیں دینا تھا

ویسے تم اکیلے نہیں گئے

میرے دل کا ایک ٹکڑا ساتھ لے گئے

اور وہاں جو جگہ خالی ہوئی

 اسے میں نے تمہارے کھلونوں سے بھر لیا ہے

انہیں خاموشی سے دیکھتی ہوں

کیونکہ اب کوئی نئی یاد تو بنے گی نہیں

بس یہی میرا سرمایہ ہیں

یہ سب کہتے ہیں کہ

وقت سارے زخم مندمل کر دیتا ہے

یہ سچ نہیں۔۔۔

وقت اتنا مہربان نہیں ہے

میرے زخم سے اب بھی خون رستا ہے

میں بھی چاہتی ہوں کہ یہ زخم تازہ ہی رہے

تیئس برس، پانچ مہینے اور گیارہ دن

کم ہیں۔۔۔ بہت ہی کم

اب تم تصویروں میں رہ گئے ہو

چمکتی مسکراہٹ ،دمکتی آنکھیں

رسیلے چکنے گال

اور پیروں میں بجلی جیسی چلبلاہٹ

وقت منجمد ہو گیا ہے

کلینڈر پر وہی ایک ورق

بے معنی طور پر جھول رہا ہے

گھڑی کی رکی سوئیوں

میں چاقو جیسی کاٹ ہے

تیئس برس، پانچ مہینے گیارہ دن کی دسراتھ

کم بہت ہی کم ہے

جب ہم سب کسی خوشی کے موقع پر اکھٹے ہوتے ہیں

تو کھانے کی میز پر

 میری نظریں اس خالی کرسی پر جم سی جاتی ہیں

میں گھبرا جاتی ہوں

کوئی میری چوری نہ پکڑ لے

میری اداسی نہ دیکھ پائے

لیکن میں دیکھتی ہوں کہ تمہارا باپ اور تمہارے بھائی بھی

اس خالی کرسی کو حسرت سے تکتے ہیں

وہ مجھ سے اپنا دکھ چھپا رہے ہیں

اور میں ان سے اپنے زخم کی کاٹ

پھر میں ماحول کو بدلنے کی کوشش کرتی ہوں

یونہی کوئی بات چھیڑ دیتی ہوں

پتہ نہیں اس میں کامیاب ہوتی ہوں

یا سب مجھے بہلانے کو مسکراتے ہیں۔

کیونکہ ہم سب جانتے ہیں

دنیا کے اتنے بہت سے رنگ دیکھنے کو

دن اور رات کے ان گنت راز جاننے کو

نامعلوم جزیروں پر الاؤ کے گرد

موسیقی میں رم کرنے کو

ایک آدھی پڑھی کتاب مکمل کرنے کو

ایک آلوچے جیسی رس بھری کو چومنے میں

کسی نوجوان دوست کے ساتھ درختوں کے نیچے رک کر

بارش کے قطروں کی ٹھنڈک محسوس کرنے کو

اور اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں خوشیاں بھرنے کو

تیئس برس، پانچ مہینے اور گیارہ دن

کم ہیں۔۔۔ بہت ہی کم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments