نیا ہمیشہ طاقتور کا ساتھ دیتی ہے


دنیا کا دستور ہے کہ ہمیشہ طاقتور کا ساتھ دیتا ہے۔ اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ اس فانی دنیا نے ہمیشہ طاقتوروں کا ساتھ دیا ہے، چاہے وہ ظالم ہو یا قاتل کیوں نہ ہو۔ یہاں اکثر راج ظالموں نے کیا ہے، برم طاقت کی ہوتی ہے اور عزت معصوم کو روندنے والوں کی ہوتی ہے۔

کہتے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہے، ماں جیسی اس کا واضح مقصد یہ ہے کہ ریاست ماں ہے، تو ماں کا یہ فرض بنتی ہے کہ سارے بچوں سے ایک جیسا پیش آئے۔ اگر ایک ماں کی چار بچے ہیں تو اس ماں کو چاہیے کہ چاروں کو ایک ہی نظر سے دیکھ لے۔ ویسے ماں کی دید ایک کی سمت پر جاتی ہے اور درست زاویہ پر ، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سارے بچوں پر ایک ہی نظر رکھتے ہیں۔

اگر ماں ایک بیٹے سے زیادہ محبت کرے اسے زیادہ پسند کریں ان تینوں کے حساب سے اس سے زیادہ شفقت سے پیش آئے تو باقی بچے ظاہر ہے کہ بغاوت کریں گے۔ کمانے والے وہ بچہ ہو اور خرچ دوسرا بچہ کر رہا ہے وہ بچہ جس کو ماں کی پشت پناہی حاصل ہے تو وہ ان تینوں سے چلاک ہوتی ہے، شیطان بھی بنتا ہے باقیوں کی حق تلفی بھی یہی بچہ کرے گا۔

یہاں ریاست مدینہ میں ایسا ہی ہے۔ کمانے والے بچہ بلوچستان ہے اور خرچ پنجاب کرتی ہے۔ سوئی گیس یہاں سے نکل رہی ہے تو استعمال میرا بڑا بھائی ”پنجاب“ کر رہا ہے۔ ریکوڈیک بلوچستان سے نکال رہا ہے تو ثمرات پنجاب کھا رہی ہے۔ سی پیک اس چھوٹے بھائی ممنون منت ہے تو داد رسی بڑے بھائی پنجاب کے کھاتے میں جا رہی ہے۔ یہ حق تلفی نہیں تو اور کیا ہے؟ میں انصاف کو ہمسایوں کے سہارے پہ چھوڑ رہا ہوں کہ انصاف کی ترازو کو اچھی طرح زیر کار میں لائیں تاکہ میرا حق تلفی نہ ہو۔

اب آتے ہیں تعلیم کے اپر ان کو اعلیٰ تعلیم دے رہا ہے، اور مجھے ایسے اسکول پہ بٹھایا جاتا ہے کہ کمرے ہیں اور نہ ہی تعلیم یافتہ استاد، نہ اچھی کتابیں، اور نہ کہ لیبارٹری جہاں پریکٹیکل کریں، میرے یہاں تعلیم برائے نام ہے، اب تک ایسے لائبریری عمل میں نہیں آئی کہ وہاں ہم جاکر اپنا وقت کتابوں پر گزار دیں۔ وہ میرا بڑا بھائی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہو رہا ہے، اس کے پاس سب کچھ برابر چل رہا ہیں جدید آلہ چیزوں سے پریکٹیکل کر رہا ہے، تعلیم یافتہ استادوں سے ٹریننگ کر رہا ہے جدید ٹیکنالوجی سے لیس چیزوں کو وہ اپنے زیر سایہ استعمال میں لا رہا ہے تو ایک میں ہوں ساکن جیسی اس کی منہ کو دیکھ رہی ہوں۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ یہ نا انصافی مجھ سے کیوں ہو رہی ہے۔ میں نے کیسی گناہ کیا ہے کہ اللہ میاہ مجھے اس کی سزا دے رہا ہے۔ یہ حق تلفی نہیں تو کیا ہے جناب۔

آنکھوں میں خواب کی جگہ آنسو نے لے رکھی ہے۔ نا انصافی کی درد جسم کے اندر پیوست ہوئی ہے۔ ہر رات خیال، خوابوں میں یہی ناسکونی کی راگ الاپتی ہے۔ جب تک مساوات نہ ہوگی یہ زیست اپنی وجودیت کھو بیٹھتی ہے، کیونکہ میرا جسم اندر سے کھوکھلا بن چکا ہے۔ یہ خاکی اپنی قسمت کا مارا ہوا انصاف کی دہلیزوں کو دستک دے رہی ہے جہاں انصاف کی ”ا“ بھی نظر آئے گی تو وہاں ہزار چپل ٹوٹ بھی جائے کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ شرط یہ ہے اس ظالم ماں سے انصاف کون دلائے گا۔

ملک جان کے ڈی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک جان کے ڈی

ملک جان کے ڈی بلوچستان کے ساحلِ سمندر گوادر کے گیٹ وے پسنی مکران سے تعلق رکھتے ہیں۔ ادب کا مطالعہ، ادبی مباحث اور ادب کی تخلیق ملک جان کے ڈی کا اوڑھنا بچھونا ہیں، جامعہ کراچی میں اردو ادب کے طالب علم اور سوشل ایکٹیوسٹ ہیں

malik-jan-k-d has 14 posts and counting.See all posts by malik-jan-k-d

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments