شہریار آفریدی صاحب! سوال تو ہوں گے


چیئرمین کشمیر کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر امور کے چیئرمین شہریار آفریدی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے غرض سے ستمبر میں امریکہ کا سرکاری دورہ کرتے ہیں ویسے تو شہریار خان آفریدی کی وجہ شہرت یہ ہے کہ انھوں نے ‘جان اللہ کو دینی ہے’ لیکن امریکہ پہنچ کر انکی ایک ویڈیو وائرل ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہریار آفریدی ٹائمز اسکوائر پر موجود ہیں۔اس دوران شہریار آفریدی نے خواتین کے سلسلے میں پاکستانی معاشرے اور امریکی معاشرے کا موازنہ کیا اورکہا کہ وہ لوگ جو ہمیں لیکچر دیتے ہیں، دیکھیں ان کی بیٹیوں کا کیا حال ہے؟ ایئر پورٹ پر جو ان کے ساتھ ہوا وہ ایک الگ داستان ہے۔ لیکن سوال یہ ہے جو ویڈیو انہوں نے شیئر کی کیا کسی دوسرے ملک سرکاری دورے پر گئے ہوئے وزیر کو ایسے ویڈیو اور الفاظ استعمال کرنے چاہیں؟ کیا یہ سفارتی آداب کے خلاف نہیں تھا ؟

بات یہی پر حتم نہیں ہوتی۔ پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر امور کے چیئرمین فرانس آتے ہیں۔ یہاں پر 15 اکتوبر کو کشمیری کمیونٹی کشمیر کیلئے ایک پروگرام کا انقعاد کرتے ہیں جس میں شہریار آفریدی دو گھنٹے سے بھی زائد تقریر کرتے ہیں۔ تقریر میں کشمیر کے بجائے اپنے دورہ امریکا اور اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے ہیں۔ کشمیر کے بارے بہت کم بات کی جاتی ہے۔ تقریب کے احتتام پر میں ان سے ایک سادہ اور ایک عام سوال کرنے کی جسارت کی تھی یہ سوال بلکل تنقیدی نہیں تھا اب سوچتا ہوں اگر کوئی تنقیدی سوال کیا ہوتا تو اس کا کیا رد عمل آتا۔ میں ان سے پوچھا کہ آپ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ آپ کا کام پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر پر سفارت کاری میں کردار ادا کرنا ہے۔ آپ فرانس میں ہیں، آپ یہاں کس تھنک ٹینک سے ملے؟ کیا آپ نے کشمیر پر کسی رکن پارلیمنٹ سے بات کی ہے؟ جس کے جواب میں شہریار آفریدی نے مجھے جواب دیا کہ انکو میگرین ہے ادھے سر کا درد وہ تو یہاں سر درد کا علاج کرانے آئے تھے۔ یہاں پر متعلقہ لوگوں سے ملنے کیلئے ایک لمبا پراسس ہوتا ہے۔ اگلی دفعہ جب وہ آئیں گے تو فرانسیسی حکام سے ضرور ملیں گے۔

یہ سوال و جواب کی ویڈیو میں سوشل میڈیا پر شیئر کرتا ہوں یہ ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے اور مختلف چینل اس خبر کو چلاتے ہیں جس پر چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی میں موجود میرے دوستوں سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ میں ویڈیو ڈیلیٹ کر دوں۔ سفارت خانہ پاکستان پیرس کے افسران سے ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کی درخواست آتی ہے لیکن میں معذرت کر لیتا ہوں۔ جس کے بعد چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی پی ٹی آئی میں میرے ایک دوست کے موبائل سے مجھ سے فون پر بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ میرے سوال کا جواب سٹیج پر ہی دے سکتے تھے لیکن فرانس اور پاکستان کے تعلقات میں خرابی کے اندیشے کے پیش نظر انہوں نے جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی پشتون ہوں اپ بھی پشتون ہیں میں بھی مسلمان ہوں اپ بھی مسلمان ہیں۔ ہم بھائی ہیں اپ یہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دیں۔ میں فرانسیسی حکام سے نہیں ملنا چاہتا کیوں کہ انہوں نے توہین آمیز خاکے شایع کئے ہیں اور اسی وجہ سے پاکستان فرانس کے تعلقات اچھے نہیں۔

میں وزیر صاحب سے ویڈیو ڈیلیٹ کرنے سے معذرت کرتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ پاکستان فرانس کی تعلقات کی خرابی کی وجہ توہین آمیز خاکے نہیں بلکہ انڈیا فرانس کے اچھے تعلقات ہے اور اپ اس ایشو پر مذہب کارڈ نہ کھلیں۔ اس کے بعد 18 اکتوبر کشمیری کمیونٹی اور کچھ سیاسی اور کاروباری لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ اس کھانے کے پروگرام کی ایک آڈیو ریکارڈنگ مجھے دس دسمبر کو ملتی ہے۔ جس میں شہریار آفریدی نے میرے متعلق سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے فرانس میں مقیم ان کے اعزاز میں تقریب کے منتظمین کو یہ ہدایات کی ہیں کہ انہیں یونس خان کے خلاف سخت ایکشن لینا ہو گا۔ اپ نے ان کو نہیں چھوڑنا۔ انہیں یہ بھی کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اگر منتظمین نے یونس خان کے خلاف کارروائی نہ کی تو وہ (شہریار آفریدی) اللّه کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ شہریار آفریدی نے لوگوں کو میرے خلاف تشدد پر اکسانے والی زبان استعمال کی اور مجھے رگڑا دینے پر زور دیتے رہے۔ ان کے الفاظ کافی سخت اور غیر پارلیمانی تھے اور یہاں کے فرانسیسی اور یورپین قوانین کے بھی خلاف تھے۔

شہریار آفریدی یہ بھول گئے تھے کہ وہ پاکستان میں نہیں بلکہ یورپ میں ہیں اور یورپ میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے انتہائی سخت قوانین موجود ہیں۔ جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ میں یہاں بیان نہیں کر سکتا۔ اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے جب ایک وزیر جو اپنی وزرات کے حوالے سے ایک سادہ سا سوال کا جواب نہیں دے سکتے وہ کیسے دنیا کو کشمیر کے مسئلے کے بارے میں اگاہ کر سکتے ہیں ؟ مجھے حیرت اس بات پر نہیں کہ شہریار آفریدی نے کونسے الفاظ میرے لیے استعمال کئے ہیں، مجھے حیرانگی اس بات کی ہے کہ اس قامت کا آدمی چیئرمین کشمیر کمیٹی کیسے بنا؟ غلطیاں انسان سے ہوتی ہے اور اپنی غلطی ماننے والے ہی اپنی غلطی سدھار سکتے ہیں لیکن اگر اپ غلطی کو چھپانے کے لیے مزید غلطیاں کریں گے تو اس کا مطلب ہے اپ ناقابل اصلاح ہیں۔ اپ اپنی نااہلی چھپانے کیلئے مزید غلطیاں کر رہے ہیں۔

شہریار آفریدی کی یہ آڈیو لیک جب میڈیا میں آتی ہے تو بجائے معذرت کے وہ یورپ میں اپنے دوستوں سے کہتے ہیں کہ اس صحافی کو انڈین نواز ثابت کرو، یہ محب وطن نہیں ہے۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی کی کشمیر کاز کیلئے بہترین کام اور کارکردگی پر انڈین خائف ہیں اس لیے یہ سوال پوچھا گیا۔ تو میرا اس موقع پر یہ معصومانہ سوال بنتا ہے کونسی کارکردگی ؟ اگر اپ سے اپ کے کام کے حوالے سے اپکی ذمہ داریوں کے حوالے سے سوال کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے تو غداری ہم کرتے رہیں گے۔ سوال کرنے کے اپنے حق سے ہم دستبردار نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی ماضی میں جس جس کو ہم نے غدار قرار دیا تھا بعد میں پتہ چلا کہ اصل محب وطن تو وہ تھے۔ غدار اور اسلام کا کارڈ کھیلنا بند کریں۔ اپنی غلطیوں سے سیکھیں۔

کشمیر ایک حساس مسئلہ ہے اس پر سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ آپ کو کوئی حق نہیں کہ اپ کسی کے مذہب یا حب الوطنی پر سوالات اٹھائیں۔ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت، جن صحافیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں اور جمہوریت کے حامی ہیں، ان کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ انہیں ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سیاست میں محالفت میں کسی کو سیکورٹی رسک یا غدار کہنے کی غلط روایات کو حتم کرنا ہو گا . ایسا نہ ہو کہ مستقبل میں اپ ان سوالات کا شکار ہو سکتے ہیں کہ اپ نے اللّه کا نام لے کر کیوں جھوٹ بولتے رہے ہیں؟ لفظ انسان کے غلام ہوتے ہیں مگر صرف بولنے سے پہلے تک… . بولنے کے بعد انسان اپنے الفاظ کا غلام بن جاتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments