پتھر کی کرامت


پتھروں کی ہماری زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ یہ ہماری پتھروں سے محبت ہے یا پھر ڈر کہ ہم پتھروں کو انگلیوں میں بھی پہنتے ہیں۔

مجھے انگوٹھی پہننے کا کبھی شوق نہیں رہا۔ اس لئے کبھی پتھر پہننے کا خیال تک نہیں آیا۔ حالانکہ میرے معاشی حالات اچھے نہیں رہے۔

میں ایک ٹیکسی ڈرائیور ہوں۔ میری ٹیکسی نئی نہیں مگر کھٹارا بھی نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود اکثر خالی رہتی ہے۔ سواریاں کم ملتیں۔ کبھی کبھی تو خالی جیب ہی گھر لوٹنا پڑتا۔ سواریوں سے ملنے والا کرایہ ٹیکسی کے ایندھن میں خرچ ہو جاتا۔ خالی جیب جب گھر لوٹتا تو بیوی کے طعنے سننے پڑتے۔ وہ خود گھروں میں کام کر کے کھانے کے لئے کچھ نا کچھ بندوبست کر لیتی تھی۔

بیوی سے طعنے ملنا معمول کی بات ہے، اس لئے اس کا برا بھی نہیں لگتا۔ مگر سواری نہ ملنے سے تکلیف ہوتی۔ خاص کر تب دکھ زیادہ ہوتا جب ٹیکسی اسٹینڈ پر دوسروں کو سواری مل جاتی اور مجھے خالی ہی رہنا پڑتا۔ اس وقت نا چاہتے ہوئے بھی میری نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ جاتیں۔

ایک شام اندھیرا چھاتے ہی حسب معمول گھر لوٹ رہا تھا کہ راستے میں ایک فقیر نے روکا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ ”ٹیکسی میں بیٹھے ہو کرایہ تو ہے نا؟“

جس پر فقیر نے میری طرف دیکھے بغیر کہا ”کوئی کرایہ نہیں ہے۔“ میں نے فقیر کو گھور کر دیکھا۔ مگر وہ میرے بجائے کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ میں نے کوئی جواب دیے اور بغیر کچھ سوچے گاڑی آگے بڑھا دی۔

ہم نے پندرہ منٹ سفر طے کیا تھا۔ ٹیکسی شہر کی پکی عمارتوں سے گزر کر کچی آبادی کی طرف مڑی تو فقیر نے گاڑی روکوا دی۔ گاڑی کے رکتے ہی فقیر کچھ کہے بغیر آناً فاناً دروازہ کھول کر باہر نکل چکا تھا۔ میں نے اسے جاتے ہوئے دیکھ کر سوچا ”کتنا بدتمیز فقیر ہے۔ نہ ٹیکسی میں بیٹھنے پر شکریہ ادا کیا اور نہ ہی اترنے پر ۔“

فقیر گاڑی سے اترتے ہی تیز تیز قدموں سے آگے بڑھنے لگا۔ میں اسے جاتے دیکھتا رہ گیا۔ وہ چند میٹر چلنے کے بعد رک گیا۔ اور پیچھے مڑ کر دیکھنے لگا۔ ایسا لگا جیسے فقیر نے میرے دل کی بات سن لی تھی۔ وہ آگے بڑھنے کے بجائے واپس آنے لگا۔ اسے واپس آتا دیکھ کر گاڑی کو گیئر میں ڈال دیا۔ مجھے یہ خیال آنے لگا کہ کہیں یہ اور آگے چلنے کی فرمائش نہ کردے۔ ٹیکسی ابھی پہلے گیئر میں ہی تھی کہ فقیر نے مجھے کہا ”رکو۔ تم کو کچھ دینا ہے۔“

فقیر کی بات سن کر مجھے ہنسی آنے لگی۔ سوچا ”مانگنے پر کرایہ تو دیا نہیں اب یہ کیا خاک کچھ دے گا۔“ اس خیال کے ساتھ میں نے فقیر کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنا بہتر سمجھا۔

ابھی دوسرا گیئر لگایا تھا۔ کہ فقیر نے ٹیکسی پر زور مکا مارا۔ میں نے ہڑبڑا کر بریک لگادی۔ اور کھڑکی سے باہر جھانک کر کہنے لگا۔ ”فقیر تم پاگل ہو کیا، ایک تو کرایہ نہیں دیا اوپر گاڑی پر مکے مار رہے ہو۔ دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا۔“

فقیر نے میری بات کا جواب دیے بغیر میرے ہاتھ میں کوئی چیز تھماتے ہوئے کہا ”اب تمہاری ٹیکسی کبھی خالی نہیں رہے گی۔“

میں کچھ سمجھ ہی نہیں پایا اور فقیر تیز تیز قدموں سے کچے مکانوں والی اندھیری گلیوں میں گم ہو گیا۔

مٹھی کھول کر دیکھا تو یہ ایک چھوٹا سا سرخ پتھر تھا۔ جسے سوچے بغیر میں نے اپنے بٹوے میں رکھا۔ اور ٹیکسی کو آگے بڑھا دیا۔

گھر ابھی دس منٹ کی دوری پر تھا۔ ذہن میں گھر کا منظر چل رہا تھا۔ اتنے میں ”ٹیکسی۔“ کی آواز میری کانوں میں پڑی۔ غور سے دیکھا تو ایک خاتون ہاتھ ہلاتے ہوئے روڈ کی طرف بڑھتی دکھائی دی۔

میں نے ٹیکسی کو روک لیا۔ پینتیس کے آس پاس کی عمر کی خاتون نے کہا ”اسپتال چلنا ہے۔ کتنا لو گے۔“
”دو سو روپے“ میں نے کہا۔
خاتون ”ٹھیک ہے“ کہہ کر ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔ میں نے گاڑی کو واپس شہر کی طرف گھما لیا۔

ٹیکسی پکی عمارتوں کی حدود میں داخل ہو چکی تھی۔ میں نے دو تین بار بیک مرر میں پیچھے بیٹھی سواری کو دیکھا۔ خاتون چپ چاپ اپنے ہی خیالوں میں بیٹھی تھی۔

ٹیکسی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ اسپتال ہم سے ابھی پانچ کلومیٹر دور تھا۔ اسپیڈ بریکر پر ٹیکسی کو آہستہ کیا تو ایک اور خاتون سامنے آ گئی۔ وہ گاڑی کے آگے رک گئی۔ اس لئے بریک لگانی پڑ گئی۔

خاتون نے کہا ”مجھے ریلوے اسٹیشن لے چلیں۔“
” گاڑی میں سواری بیٹھی ہے۔ میں نہیں لے جا سکتا۔ آپ کوئی اور ٹیکسی دیکھ لیں۔“ میں نے کہا۔

” میں کافی دیر سے انتظار کر رہی ہوں۔ ٹیکسی کیا یہاں سے تو کوئی رکشہ بھی نہیں گزرا۔ میری ٹرین چلی جائے۔ مہربانی کریں۔“

باہر کھڑی خاتون کی باتیں سن کر میں نے اندر بیٹھی خاتون کی طرف دیکھ کر پوچھا
”میڈم اگر آپ کو مسئلہ نا ہو تو ۔ انہیں بھی بٹھا لیں۔“
” ٹھیک ہے بٹھا لیں۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔“ یہ سنتے ہیں دوسری خاتون بھی بیٹھ گئی۔
اسپتال پہنچ کر پہلی سواری اتر گئی اور میں دوسری سواری کو چھوڑنے اسٹیشن کی طرف جانے لگا۔

اسٹیشن پہنچا تو تھکن سے چور ہو چکا تھا۔ بھوک سے برا حال تھا۔ سواری کو اتار کر پانی پینے ہوٹل میں گیا۔ اس وقت ٹیکسی اسٹینڈ خالی ہو چکا تھا۔ پانی پی کر واپس آیا تو دو خواتین کو ٹیکسی کے پاس کھڑا پایا۔ ان میں ایک بوڑھی اور دوسری جوان لڑکی تھی۔

ٹیکسی کے پاس پہنچا تو خواتین نے کہا ”گلبرگ جانا ہے۔“

گلبرگ گھر کے راستے میں پڑتا تھا۔ اس لئے میں نے انہیں گاڑی میں بٹھا لیا۔ راستے بھر میں سواری پر سواری ملنے کے بارے میں سوچتا رہا۔

سواری اتار کر جب میں گلبرگ سے نکلا تو رات کے سوا نو بج چکے تھے۔ گھر پہنچنے میں کافی دیر ہو گئی تھی۔ جانتا تھا بیوی اور بچے پریشان ہوں گے۔ کیونکہ میں چھ بجے تک گھر پہنچ جاتا ہوں۔ اچھی دیہاڑی لگی تھی تو بچوں کے لئے کیک اور آئسکریم خرید لئے۔ دس بجے گھر پہنچا تو سب نے دیر سے آنے کا سبب پوچھا۔ مگر میں کوئی جواب دیے بغیر انہیں کیک اور آئسکریم دے کر نہانے چلا گیا۔

اس دن کے بعد گھر دیر سے آنا معمول بن گیا تھا۔ کبھی ٹیکسی خالی نہیں رہی۔ یہاں تک کہ جب کسی دن بچوں کو گھمانے ساتھ لے گیا تو بھی سواری مل جاتی۔ شروع شروع میں تو بیوی کہتی کہ ”سواری کو بٹھا لیں۔ کرایہ مل جائے گا۔“ اور میں اس کی بات مان لیتا تھا۔

یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ میری طرح بیوی نے بھی یہ نوٹ کر لیا کہ سواری صرف اکیلی خواتین کی ہی ملتی تھی۔

خواتین کا خیال آتے ہی بیوی مجھ پر خار کھانے لگی تھی۔ جل بھن جاتی۔ بار بار ٹوکتی۔ کہتی کہ ”خواتین ہی تمہاری گاڑی میں کیوں بیٹھتی ہیں۔“

میرے پاس بیوی کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ یہ سلسلہ مہینوں تک چلتا رہا۔ اچھی آمدنی ہو رہی تھی۔ جس سے گھر کی حالت بھی بہتر ہو گئی تھی۔ بیوی بظاہر خوش تھی۔ مگر اسے ایک ہی چیز اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی کہ ”ٹیکسی میں صرف خواتین ہی کیوں بیٹھتی ہیں۔ “

میں فقیر کو بھلا بیٹھا تھا۔ مگر ایک دن وہ مجھے یاد آہی گیا۔ اور پھر سب کچھ فلمی مناظر کی طرح سامنے چلنے لگا۔

پھر وہ آخری دن آ گیا۔ جب ہم سیر کرنے ساحل سمندر جا رہے تھے۔ راستے میں بار بار خواتین سواریاں مل رہی تھیں۔ مگر بیوی نے ایک بھی سواری بٹھانے سے منع کر دیا تھا۔ میں ترچھی نظر سے بیوی کی حالت دیکھ کر من ہی من گدگدا رہا تھا۔ اور وہ جیسے بن جل مچھلی۔

” تم مجھے صاف بتاؤ یہ کیا تماشا ہے۔ تمہاری گاڑی میں لڑکیاں ہی یوں بیٹھ رہی ہیں۔“ بیوی نے غصہ دکھایا۔

” یار مجھے کیا پتہ۔ اگر میں جانتا تو ضرور بتاتا۔“

ہم سمندر کی لہروں سے کھیل رہے تھے۔ میں نے چپکے سے بٹوا کھولا، اس میں رکھا فقیر کا سرخ پتھر نکالا۔ اور اسے مٹھی میں چھپا لیا۔

بیوی کو گھٹنوں گھٹنوں میں پانی میں لے جا کر کہا ”جان تم ایسا کرو سمندر دیوتا سے پرارتھنا کرو کہ“ ٹیکسی میں صرف مرد سواری بیٹھے اور کوئی نہیں ”

بیوی نے میری بات دہرائی اور اسی لمحے میں نے پتھر کو سمندر میں پھینک دیا۔
وہ دن اور آج کا دن پھر میری ٹیکسی میں کبھی کوئی خاتون اکیلی نہیں بیٹھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments