طاہر اشرفی اور طارق جمیل کی معذرت اور سیالکوٹ کا وحشی ہجوم


یہ الفاظ سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے منہ سے اس وقت ادا ہوئےجب عاشقان کا ہجوم  اسے  بے دردی  اور سفاکیت کے ساتھ واصل جہنم کرنے کے مشن پر لگے ہوئے تھے اور وہ لاچار بار بار یہ جملے بول رہا تھا کہ “میں کلمہ پڑھ کے مسلمان ہو جاتا ہوں مجھے چھوڑ دو مت مارو” مگر ظالموں نے اس کی آخری خواہش کا بھی احترام نہیں کیا اور اسے جہنم کے سپرد کرکے ہی ان کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا۔ ان آخری الفاظ کی گواہی مولانا طاہر اشرفی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران دی جس میں مولانا طارق جمیل بھی سری لنکن قوم سے تعزیت اور معافی مانگنے کی غرض سے موجود تھے۔ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ جب صدر پاکستان عارف علوی تعزیت کے لیے اس فیکٹری پہنچے تو وہاں کے ملازمین نے بتایا کہ جب پریانتھا کو بے دردی سے مارا جا رہا تھا تو ایک وقت اس نے یہ بھی کہا تھا کہ میں کلمہ پڑھ لیتا ہوں مجھے مت مارو مگر وحشی ہجوم نے اس مظلوم کی ایک نہ سنی۔ طاہر اشرفی کا اس واقعہ کو شیئر کرتے وقت یہ فرمانا تھا کہ یہ جملے مجھے راتوں کو سونے نہیں دیتے اور ان جملوں کی ادائیگی کے وقت واضح نمی ان کی آنکھوں میں دیکھی جا سکتی تھی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طاہر اشرفی کا شرمندگی سے بھرپور لہجہ اور طارق جمیل کا اس المناک واقعے پر معافی مانگنا کافی ہے؟ یا انہوں نے اس منزل تک پہنچنے میں کافی دیر کر دی ہے؟

ان کا بار بار اس بات پر اصرار کہ مذہب میں ایسی سفاکیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ حقیقت ہے یا محض افسانہ؟ کیونکہ اب تک جتنے بھی اس قسم کے ظالمانہ واقعات ہو چکے ہیں ان کے پیچھے جن لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے ان کا سرا کہاں جاکر جڑتا ہے اس کا  ان دونوں علما کوبڑےاچھے سے پتا ہے مگر رازداری کے پردے میں اپنے “قبیلہ” کو ناراض کرنا بھی نہیں چاہتے، آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہو رہی ہے کیا آپ میں حوصلہ ہے اس پردے کو ہٹانے کا؟ اس ملک میں اسی کی دہائی کے بعد ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب شیعہ سنی کے درمیان ایک دوسرے کے لوگوں کو مارنے کی سیریز چل رہی تھی اور اس کی جڑیں کہاں پہنچ رہی تھیں آپ کو بہت اچھے سے پتا ہے مگر آپ اس پر بھی گول مول موقف اختیار کرکے پردہ ڈالنا ہی پسند فرمائیں گے کیوں کہ آپ کی مصلحت اسی میں ہے۔

طاہر اشرفی صاحب ہم آپ کے اس کلپ کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں جو کہ یوٹیوب پر موجود ہے جس میں آپ جوش خطابت میں فرما رہے ہیں خاص طور پر شہباز بھٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ” کہ جنہوں نے بھی اسلامی دفعات کو چھیڑنے کی کوشش کی ان کے ہاتھ، زبان اور قدم کاٹ ڈالیں گے، جس طرح افغانستان میں ملا عمر نے تمہارے باپ امریکہ کو اپنے تلوے چاٹنے پر مجبور کیا ہے ہم بھی اسی طرح تمہیں اپنے علماء، مشائخ اور مدارس کے تلوے چاٹنے پر مجبور کر دیں گے” یہ  آپ کا ماضی میں حقیقی چہرہ تھا اور اب آپ نےوقت کے تقاضوں کے مطابق اپنے خیالات سے رجوع کرلیا ہے تو بہت خوش آئند بات ہے مگر آپ کو اس کا اظہار واضح طور پر کرنا چاہیے کہ میں ماضی میں غلطی پر تھا اور اب میں اپنے کیے پر شرمندہ ہو کر اپنے الفاظ واپس لینے کا اعلان کرتا ہوں۔

لیکن بصد احترام عرض کرتا چلوں کہ سیالکوٹ جیسے واقعات اسی جوش خطابت کا نتیجہ ہیں جب آپ یاآپ کے قبیلہ کے لوگ جوش خطابت میں مذہبی کارڈ کھیلنے کے لیے یا اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکروں میں بے تکے جملے بولتے ہیں تو اس کا اثر عام عوام کے ذہنوں پر جو پڑھتا ہے اسی کو آج آپ مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آپ آج بھی چند تعزیت کے جملوں کی آڑ میں مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے اور اپنے قبیلے کے دفاع کے لیے فیس سیونگ سے کام چلا رہے ہیں۔ چند سوالات پر غور فرمائیں گے تو بہت سارے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے ۔                             

1 ۔ یہ سفاکانہ ذہنیت کیسے پروان چڑھی ہے ؟ کیونکہ خود بخود کچھ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے مختلف اسباب ہوتے ہیں وہ کیا ہیں؟

2 ۔مذہب اگر امن کا درس دیتا ہے تو پھر مذہب کے نام پر اتنی سفاکیت کیوں؟

3۔جو لوگ بڑے دھڑلے سے اس سفاکیت کو سپورٹ کر رہے ہیں وہ کون ہیں؟

4۔اگر علماء مشائخ امن کا درس دیتے ہیں تو پھر ان کی ناک کے نیچے ایسی سفاکانہ ذہنیت کیوں فروغ پاتی ہے؟

5۔ اگر آپ اس قسم کی سفاکیت کے خلاف ہیں تو پھر ایسے درندوں کو سپلائی لائن کہاں سے ملتی ہے؟   

 طاہر اشرفی اور طارق جمیل صاحب معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے سے پہلے ان سوالات پر غور فرمالیں تو ان ڈاٹ کی مدد سے ایک مکمل تصویر بن کر آپ کے سامنے آجائے گی جو کہ آپ کے سامنے پہلے سے موجود ہے مگر آپ آنکھیں بند کر کے مصلحت سے کام لے کر ایک طرف کر دیتے ہیں اور آپ کی یہی مجرمانہ خاموشی اس معاشرے میں ڈائیلاگ کی سپیس کو ختم کرکے تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔  اگر آپ کو واقعی پریا نتھاکمارا کی المناک موت پر ندامت ہے تو خود احتسابی کا عمل اپنے اندر بھی شروع کردیں، ہو سکتا ہے پریانتھا کی روح آپ کی اس ندامت کو قبول کرلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments