خواتین کی صحت: مینوپاز میں اندام نہانی کی لیزر تھراپی ’جعلی اور بےسود‘ علاج ہے

مشل رابرٹس - ہیلتھ ایڈیٹر بی بی سی آن لائن نیوز


مینوپاز
طبی محققین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ایک خطرناک لیزر علاج جو کہ مینوپاز میں مبتلا خواتین کو آفر کیا جاتا ہے، وہ ایک ’جعلی تھراپی‘ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس علاج کا مقصد ان خواتین کی اندام نہانی کو ’ریجوونیٹ‘ یعنی عمر کے اثرات کو کم کرنا ہے۔

محققین نے اس علاج کا جائزہ لیا ہے تاکہ وہ اس بات کا تعین کر سکیں کہ مینوپاز کا شکار خواتین کی اندام نہانی میں خشکی اور تکلیف دہ سیکس کی شکایت کو اس علاج سے کم کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

برطانوی محکمہِ صحت این ایچ ایس کی مشاورتی کونسل نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسیلنس (نائس) کا کہنا ہے کہ اس تھراپی کو صرف تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

تاہم مختلف ممالک میں چند کلینک اس تھراپی کو خواتین کو مذکورہ مسائل کے حل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

جنسی تسکین

لیزر ریجوونیشن میں ایک پروب کو اندام نہانی میں ڈال کر گرم کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ارد گرد ٹیشوز کی ہیت کو تبدیل کیا جا سکے۔

اس علاج کو پیش کرنے والے کلینک کہتے ہیں کہ اس طریقے کا مقصد یہ ہے کہ ٹیشوز کو دانستہ طور پر نقصان پہنچایا جاتا ہے تاکہ جسم خود کو ٹھیک کرنے کا عمل تیزی سے شروع کرے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس سے قدرتی طور پر اندام نہانی میں نمی بڑھ جاتی ہے اور جنسی تسکین دوبارہ بہتر ہو جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مینوپاز خواتین کی صحت پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟

’بے چینی اور سیکس سے بیزاری مینوپاز کی عام علامات ہیں‘

کیا عورت کا جسم جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہوتا ہے؟

حکام کا کہنا ہے کہ یہ غیر سرجیکل علاج مکمل طور پر خطرے سے خالی نہیں ہے۔

امریکہ میں صحت کے حوالے سے نگراں ادارہ پہلے ہی یہ بات کہہ چکا ہے کہ انھیں شدید تشویش ہے کہ اس علاج سے خواتین کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس علاج کو کروانے والے کچھ لوگوں میں اندام نہانی کے جلنے اور اس پر نشان پڑنے کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

تازہ ترین تحقیق امریکہ میڈیکل اسوسی ایشن کے جریدے میں شائع کی گئی ہے۔ اس تھراپی پر کی جانے والی یہ سب سے بڑی تحقیق ہے۔

مینوپاز

نائس اس حوالے سے کافی عرصے سے مطالبہ کر رہی تھی کہ اس تھراپی پر تحقیق کی جائے تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ کیا اسے این ایچ ایس میں وسیع تر استعمال کے لیے محفوظ قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

مذکورہ تحقیق آسٹریلوی محققین نے کی ہے اور ان کو اس صنعت کی جانب سے مالی امداد نہیں کی گئی۔ اس تحقیق میں 85 خواتین میں سے کچھ کو یہ لیزر تھراپی آفر کی گئی اور کچھ میں پلسیبو پروسیجر آفر کی گئی جس میں پروب اندام نہانی میں ڈالا تو گیا تاہم لیزر کی درکار توانائی ڈلیور نہیں کی گئی۔

اس علاج کے کوئی مضر اثرات بھی ریکارڈ نہیں کیے گئے تھے اور علاج کے ایک سال بعد تک فالو اپ کیے گئے جس میں اصلی علاج اور پلسیبو علاج والوں میں کوئی فرق نہیں پایا گیا۔

مزید پڑھیے

اندام نہانی کے پانچ حقائق ہر خاتون کو معلوم ہونے چاہییں

سیکس سے جڑے حفظان صحت کے آٹھ اصول جو آپ کے لیے جاننا ضروری ہیں

’میرے شوہر نے میری صحت اور زندگی کی خاطر اپنی خوشیوں کو قربان کر دیا‘

اس تحقیق کے ساتھ شائع ہونے والے ایک ایڈیٹوریل میں کہا گیا ہے کہ اس لیزر تھرابی سے ’وجائنل میش‘ کے حوالے سے علاج کی یاد تازہ ہو گئی جو کچھ خواتین کے لیے انتہائی نقصان دہ علاج تھا اور بعد میں حفاظتی خدشات کی بنیاد پر اسے روک دیا گیا تھا۔

اس تحقیق کی مصنف یونیورسٹی آف یوٹا کی ڈاکر مریسا ایڈل مین اور انگریڈ نگارڈ کا کہنا ہے کہ ’اس علاج کے وسیع پیمانے پر استعمال، نقصان کی کہانیوں اور ایف ڈی اے کی تنبیہ نے ایک بدقسمت قسم کا ڈی جا وہ (یعنی ایسا خیال کہ یہ سب پہلے بھی ہو چکا ہے) یاد دلا دیا تھا۔‘

مینوپاز

اندام نہانی کی خشکی

برٹس مینوپاز سوسائٹی کے سابق صدر اور ترجمان ٹم ہلارڈ ڈورسٹ میں کنلسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک ایسی تحقیق ہے جس کا ہم کافی عرصے سے انتظار کر رہے تھے۔‘

’یہ رینڈم ٹرائلز کی بڑی تحقیقات میں سے ایک ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ تحقیق اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ علاج صرف کلینکل ٹرائلز میں فراہم کیا جانا چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’مینوپاز کے اثرات کے بارے میں نئے علاج پر تحقیق کی بہت ضرورت ہے۔ اندام نہانی میں خشکی، خارش، جنسی عمل کے دوران تکلیف، یہ سب انتہائی عام ہیں اور خواتین کے لیے کافی پریشان کن ہیں۔ ان کے بارے میں بات کرنا انتہائی مشکل بھی ہو سکتا ہے۔‘

مینوپاز کیا ہے؟

مینوپاز، خواتین کا ایسی عمر کو پہنچنا ہے جس میں حیض کا عمل رک جاتا ہے اور وہ قدرتی طور پر حاملہ نہیں ہو سکتیں۔

بڑھتی عمر میں مینوپاز ایک ایسا قدرتی عمل ہے جو 45 سے 55 برس کے درمیان ہوتا ہے لیکن بیضہ دانی یا رحم کو سرجری کے ذریعے نکلوا کر بھی اس عمل کو قبل از وقت انجام دیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹرز کی عمومی رائے یہ ہے کہ اگر ایک سال تک ماہواری نہیں آتی تو یہ مینوپاز ہے۔

گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر رابعہ نسا نے بی بی سی کو بتایاتھا کہ ‘یہ عمل 40 سے 55 سال کہ دوران کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ خواتین میں ماہواری 60 سال کی عمر تک بھی چلتی رہتی ہے۔ کہیں یہ وقت سے پہلے 30 سال کی عمر میں بھی بند ہوسکتی ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘قدرت نے ہر لڑکی کہ اندر ایک مخصوص تعداد میں انڈے رکھے ہیں، وہ مخصوص انڈے جب تک بیضہ دانی میں پیدا ہو رہے ہیں تو ماہواری کا عمل جاری رہتا ہے، جب وہ انڈے بننا بند ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد مینسس یا ماہواری کا عمل رک جاتا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments