عہد ساز شخصیت: دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو


دنیا میں آئے دن سانحات رونما ہوتے رہتے ہیں،کچھ وقت اور حالات کی گرد میں زہن انسانی سے محوہوجاتے ہیں اور کچھ اپنی یادوں کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں جن کو بھلانا بھی چاہیں تو نہیں بھلاسکتے انہی سانحات میں سے ایک سانحہ 27دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈ ی میں پیش آیا۔جب دنیائے اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کو جلسہ عام سے خطاب کے فوراً بعد ملک دشمن عناصر نے خاک و خون میں غلطاں کردیا۔جس کے نتیجے میں وہ راہی ملک عدم ہوگئیں۔
یوں تو جو بھی دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن اس جہان فانی سے کوچ کرجانا ہے، لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کی شخصیت پاکستان کے مظلوم اور ستم رسیدہ عوام کی امیدوں کی وہ آخری کرن تھی جس کا مداوا شاید کبھی ممکن نہ ہوسکے۔یہی وجہ ہے نہ صرف مملکت پاکستان میں بلکہ دنیائے عالم میں ان کی کمی کو نہایت شدت کے ساتھ 14 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی محسوس کیا جارہا ہے۔شہید محترمہ کودنیا کی سب سے کم عمر وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ان کے والد محترم شہید ذوالفقار علی بھٹونے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار آداکیاتو شہید بی بی نے ملک کو میزائل ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا۔یہ دونوں ایسے کام ہیں جس کے سبب پاکستان دشمن قوتیں سراسیما ہیں اور پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہیں۔
28دسمبر کو بینظیر بھٹو کے جسد خاکی کو ان کے شوہر اور بچوں کی موجودگی میں چکلالہ ایئر بیس پر موجود خصوصی طیارے کے ذریعے سکھر ا یئر پورٹ پہنچایا جاتا ہے جہاں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جسد خاکی کو آخری آرام گاہ گڑھی خدابخش میں لاکھوں افراد کی موجودگی میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی قبر کے پہلو میں دفنا دیا جاتا ہے۔
اس موقع پر مشتعل عوام کے غم و غصہ کو قابو میں رکھنا ایک انتہائی مشکل کام تھا، محترمہ کے شوہر آصف علی ذرداری نے تدفین کے بعد اپنے حواس کو قابو میں رکھ کر جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کی جانب سے ریاست مخالف نعرہ کی نفی کرتے ہوئے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور بی بی کی جدوجہد کو آخری دم تک جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
بینظیر بھٹو کی شہادت نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی عوام کے لئے ایک بڑا سانحہ تھی، دنیا بھر کے حکمرانوں، عوام بشمول تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بینظیر بھٹو کے خاندان سے ان کی شہادت کے حوالے سے تعزیت کی، ایسا لگتا تھا کہ ملک میں اب غم کے بادل چھائے رہیں گے۔
بی بی شہید کی طویل جلا وطنی کے بعد پاکستان آمد کے موقع پر کراچی سے خیبر تک عوام کے چہروں پر خوشی تھی کیونکہ ان کو اندازہ تھا کہ بینظیر ہی وہ واحد لیڈر ہے جس کے ملک میں آنے کے بعد آمریت کا طویل دور اختتام پذیر ہوگا۔محترمہ بینظیر بھٹو شہیدکو اس وقت چاروں صوبوں کی زنجیر بھی کہا جاتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ رنگ،نسل، عقائد اور کسی بھی قسم کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیشہ عوام کے حقوق کی بات کر تی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت کے بعد بھی ہر سیاسی تنظیم کا لیڈر چاہے اس کا تعلق حکمران جماعت تحریک انصاف سے ہو یا پھر کسی اور جماعت سے سب ہی محترمہ کی قائدانہ صلاحیتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
 جب بینظیر بھٹو نے طویل جلاوطنی کے بعد 18اکتوبر2007 کو سرزمین پاکستان پر قدم رکھا تو اس روز کراچی ایئرپورٹ پر طیارہ لینڈ ہونے کے بعد بی بی کو حکومت وقت کی جانب سے پیغام پہنچایا گیا تھا کہ آپ کراچی ایئرپورٹ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر بلاول ہاؤس چلی جائیں،لیکن انہوں نے حکومت وقت کی اس پیشکش کو ٹھکرادیاتھا کیونکہ عوام کا ٹھاٹے مارتا سمندر شارع فیصل سے لے کر مزار قائداور حتیٰ کہ کراچی کی تمام اہم شاہراہوں پر بی بی کا استقبال کرنے کے لئے ان کی آمد کامنتظر تھا اور بی بی عوام کو ہر گز مایوس نہیں کرنا چاہتی تھیں ۔عوام کے اندر جوش، ولولہ اور چہروں پر خوشی عیاں تھی۔مرد، عورتیں، بچے  اور بزرگ سب ہی بی بی کا استقبال کرنے کے لئے ان کے ایئرپورٹ سے باہر آنے کی راہ تک رہے تھے۔
طیارہ سے باہر آنے کے بعد بی بی کچھ لمحہ کے لئے آبدیدہ ہوگئیں کیونکہ وہ ایک طویل عرصہ کی جلاوطنی کاٹ کر وطن واپس پہنچی تھیں پھر کچھ دیر بعد بی بی دیگر پارٹی قائدیں کے ساتھ ٹرک میں سوار ہو کر بلاول ہاؤس  جانے کے لئے روانہ ہوئیں، لاکھوں افراد کی موجودگی کی وجہ سے قافلہ بہت سست رفتاری سے براستہ شاہراہ فیصل اپنی منزل (بلاول ہاؤس) کی جانب رواں دواں تھا۔بی بی اپنی جان کی پرواہ  کئے بغیر ٹرک پر بنائے گئے اسٹیج سے وقتاٌفوقتاٌ خطاب کر رہی تھیں اور نعروں کا جواب بھی دے رہی تھیں۔
 خطاب کے دوران بی بی کا کہناتھا کہ”میں یہاں پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لئے آئی ہوں خواہ اس جدوجہد میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے میں اس جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹوں گی”۔ آخر کار قافلہ کارساز کے قریب پہنچا اور تھوڑی ہی دیر بعد یکے بعد دیگرے دو ذوردار دھماکے ہوئے دھماکے عین اس مقام پر ہوئے جہاں عوام کا ہجوم موجود تھا، اس وجہ سے جانی نقصان بہت زیادہ ہوااور میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دھماکے میں 177 افرادجاں بحق اور سینکڑوں افراد ذخمی ہوئے۔
اس تمام صورتحال اورجانی نقصان کے خدشہ کے باوجود بی بی کے حوصلے پست نہ ہوئے اور وہ سانحہ کے دوسرے ہی دن زخمیوں کی عیادت اور شہداء کے خاندان سے تعزیت کے لئے نکل گئیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بی بی نے خطرات کی پرواہ کئے بغیر انتخابی مہم کوجاری و ساری رکھا۔
اسی جوش و جزبہ کو جاری و ساری رکھتے ہوئے محترمہ نے 27 دسمبر کو پاکستان کے تاریخی مقام لیاقت باغ راولپنڈی سے عوام سے خطاب کا فیصلہ کیا اور یہ دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ثابت ہوا پر ہجوم جلسہ گاہ سے واپسی کے دوران قاتلانہ حملہ کے نتیجے میں بینظیر بھٹو نے جام شہادت نوش کیا اور یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ بدترین خون آشام دن تھا جس کے نتیجے میں ملک و قوم پرتاریکی کے سیاہ بادل منڈلانے لگے، جس کے اثرات آج بھی ملک و قوم پر واضع طور پر محسوس ہو رہے ہیں۔جمہوریت کی کشتی لاکھ کوششوں کے باوجود ڈاما ڈول ہے، بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے لے کر آج تک 14 برس گزرنے کے باوجود ایسا کوئی بھی سیاسی رہنما نہیں ہے جس پر پوری قوم متفق ہو۔
 27 دسمبر کا یہ سانحہ دنیا کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتایہی وجہ ہے کہ ہر سال بی بی کی شہادت کی یاد بھرپور طریقے سے منائی جاتی ہے اور شہید بی بی کے جانثار اپنے لہو سے شمعیں روشن کرتے ہیں۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments