عمران خان کا نصیب اور سادہ لوح عوام


میرے ایک دوست عمران خان اور کرکٹ کے چاہنے والوں میں سے ہیں، وہ علم نجوم اور علم اعداد (Numerology) پر بھی بہت پکا یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے شوکت خانم کی تعمیر میں بھی چندہ جمع کرنے میں عمران خاں کی مدد کی، عمران خان کے ساتھ کئی اخبارات کی تصویری جھلکیاں اب بھی انہوں نے سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں۔ وہ عمراں خاں کے نصیب کے بہت معترف ہیں۔ کہتے ہیں ایک دفعہ میں نے سٹیج پر عمران خان کی موجودگی میں کہا تھا ” عمران تم اپنا نصیب خود لکھ کر آئے ہو” جس پر وہ برا مان گئے تھے۔ وہ اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ میری یہ بات لکھ کر رکھ لیں: 2026 تک عمران خان ہی رہے گا۔ کیا معلوم وہ اپنے کسی علم کی بنیاد پر بتاتے ہیں یا کسی خاص ذرائع سے حاصل معلومات کے بل بوتے پر۔
یوں تو تجربات اور مشاہدات سے گزرا ہوا کوئی بھی علم سائنسی درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن میں اعداد کے علم پر ان سے اس بنیاد پر اختلاف کرتا ہوں کہ جس عددی ترتیب پر وہ اندازے لگاتے ہیں اس کا آغاز صدی عیسوی سے ہوا ہے اور کائنات تو بہت پہلے وجود میں آئی تھی۔ خیر ان کی اپنی سوچ ہے اور انسانی شخصیت کی اصل محرک بھی سوچ ہی ہوا کرتی ہے، گوشت اور ہڈیاں بھی اپنی ساخت اور کارکردگی کی بنیاد پر اہمیت تو رکھتی ہیں مگر اصل شے سوچ ہی ہے جو دنیا میں رہنے والے انسانوں کو پانچ اور پچانوے کی نسبت کے گروہ میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک وہ جو اپنی سوچ کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو دیکھا دیکھی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
خیبر پختون خواہ میں بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کے بعد پارٹی لیڈروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے سوال کیا کہ نواز شریف کی سزا کیسے ختم کی جا سکتی ہے؟ اور اگر نواز شریف جیسا بدعنوان شخص جیل نہیں جائے گا تو پھر جیلوں کے دروازے کھول دینے چاہئیں۔ اس سے لگتا ہے کہ ان کی معلومات نے ان کو پریشان کیا ہوا ہے۔ میں ان افواہوں اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے دوست کو چھیڑنے کے لئے اکثر پوچھتا رہتا ہوں کہ کیا آپ اپنے لکھائے ہوئے الفاظ پر اب بھی قائم ہیں یا ہم ان کو مٹا دیں؟ مگر وہ اب بھی اپنے دعوے پر قائم ہیں۔
میرے وہ دوست نصیب پر اس حد تک یقین رکھتے ہیں کہ اکثر ایک واقعہ سنایا کرتے ہیں جس میں ایک آدمی ہر وقت گھر میں ہی لیٹا رہتا تھا اور اس کی بیوی تنگ دستی سے پریشان اس کے ساتھ جھگڑتی رہتی تھی کہ ہمت کرو گے تو نصیب بھی بنے گا۔ مگر وہ اپنے پختہ یقین کے بل بوتے پر کہہ دیتا تھا کہ جب نصیب میں ہوگا تو چل کر دروازے پر آ جائے گا۔ ان کے پاس محنت سے نصیب بنانے کے لئے ایک کمزور سا گدھا بھی تھا جو ہر صبح اپنے نصیب کی تلاش میں چرنے نکل جاتا اور شام کو لوٹ آیا کرتا تھا۔ ایک دن اسکو دیر ہو گئی تو اسکی بیوی کو پریشانی لاحق ہونے لگی۔ محنت سے روزی حاصل کرنے والا گدھا کہیں دو نوسربازوں کے ہتھے چڑھ گیا، جب وہ واردات سے فارغ ہوئے تو ان کو بھوک ستا رہی تھی ایک دوسرے کو کہتا ہے کہ میں یہاں اس سامان کی حفاظت کرتا ہوں اور تم جاؤ بازار سے کھانے کے لئے کچھ لے آؤ، اسی دوران لالچ میں دونوں کی نیت خراب ہو جاتی ہے۔ جو کھانا لینے گیا ہوا تھا اس نے سوچا کہ خوراک میں کچھ ملا دیتا ہوں جس سے وہ بے ہوش ہوجائے گا اور سارا ساماں میں لے جاؤں گا۔ دوسرے ساتھی نے بھی پیچھے سے پروگرام بنا لیا کہ وہ جیسے ہی آئے گا اسے قتل کر دوں گا اور اس طرح سارا سامان میرا ہو جائے گا۔ لہذا جیسے ہی وہ کھانا لے کر آتا ہے وہ اس پر حملہ کرکے اس کا کام تمام کردیتا ہے۔ اور خود بڑے سکون سے کھانا کھانے لگتا ہے، جیسے ہی وہ کھانا کھاتا ہے بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اب گدھے کا گھر جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے وہ سامان سے لدا اپنے مالک کے گھر کو چل دیتا ہے۔ وہ میاں بیوی بھی دیر ہونے کی وجہ سے تشویش میں راہ تک رہے تھے۔ جونہی گدھا ان کو نظر آیا تو خاوند گدھے پر سامان لدا ہوا دیکھ کر بیوی کو کہتا ہے : میں کہتا تھا ناں کہ جب نصیب جاگے گا تو گھر چل کر آئے گا۔
خیر میں اپنے دوست سے اس بات پر بھی اتفاق نہیں کرتا، نصیب سے انکار ممکن نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے نظام میں نصیب کو اعمال سے جوڑا ہوا ہے، اللہ چاہتا تو یکدم دن ہوجاتا اور پھر یکدم رات، اس ذات کے لئے کچھ بھی تو ناممکن نہ تھا مگر اس نے انسان کو سمجھانے کے لئے دن رات کو سورج کے عمل کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔ سورج آتا ہے تو اندھیرے ختم کردیتا ہے اور جب اوجھل ہوتا ہے تو اندھیرے چھا جاتے ہیں۔
وہ عمران خان کے نصیب بارے کئی اور واقعات بھی سنایا کرتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کہ اس کے نصیب کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ عمران خان نے کرکٹ چھوڑ دی تھی۔ اور جنرل ضیاالحق کی ایک بیٹی تھی جو بھولی اور سادہ تھی، وہ کرکٹ کی شوقین تھی اور عمران خان کو بہت پسند کرتی تھی، جنرل ضیاءالحق اپنی اس بیٹی سے بے حد پیار کرتے تھے تو اس کی فرمائش پر جنرل ضیاءالحق نے عمران خان کو مجبور کر کے دوبارہ کرکٹ کھیلنے کے لئے آمادہ کیا اور پھر دیکھیں اس نے کیا عزت کمائی ہے۔ چونکہ ہماری آپس میں سیاسی بحث میں چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی ہے تو مجھے فوراً مذاق سوجھا اور میں نے ان کو کہا : اس کا مطلب ہے کہ عمران خاں اس وقت بھی ایک ایبنارمل بچی کی پسند تھے اور آج بھی بھولے (ایب نارمل) لوگ ہی ان کو پسند کرتے ہیں۔ خیر یہ تو مذاق تھا دل پہ نہ لیجئے گا۔ لیکن اس وقت تو ان کے نصیبوں سے ملک و قوم کا فائدہ ہوا تھا مگر اب خان صاحب کے نصیب قوم کو مہنگے پڑ رہے ہیں۔
ان بھولے عوام کے بھی کیا کہنے ہیں۔ انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو بھی دلوں پر راج کروائے اور پھر ان کی ذلت افزائی کرکے گھر بھیج دیا، مرد مومن مرد حق ضیاءالحق ضیاءالحق کے نعرے لگائے، پرویز مشرف کے لہراتے مکوں پر ہش ہش کرتے رہے۔ ویسے پرویزمشرف بھی نصیبوں میں کسی سے کم نہیں۔ جس عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ دیا اس کو خود نظام عدل نے ہی ختم کر دیا۔
ویسے عمران خان کے نصیب کا اندازہ ان باتوں سے بھی ہوتا ہے کہ جیسے ان کو خود بھی یقین نہیں تھا کہ ان کو حکومت ملے گی جس کا اظہار یوں ملتا ہے : ہماری تو تیاری ہی نہیں تھی، ہمیں تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ حالات اتنے زیادہ خراب ہیں، ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے، ستر سال کے خراب حالات راتوں رات تو ٹھیک نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ۔ ماضی کے بیانات کی جھلکیاں اور پھر موجودہ کارکردگی کا آپس میں موازنہ کریں تو ان کے نصیب پر رشک اور عوام کی سادہ دلی پر ترس آتا ہے۔ وہ نوے دنوں تو کیا نو دنوں میں تقدیر بدلنے، آئی ایم ایف کے پاس جانے کو خودکشی کے ساتھ مشروط کرنے، دو سو معاشی ماہرین کی ٹیم کے دعوے اور موجودہ کارکردگی سے معاشی کباڑا دیکھ کر سر چکرا جاتا ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔ کہاں وہ اٹھارہ کا پاکستان اور کہاں آج کا معاشی طور پر ڈوبتا پاکستان۔ کس طرح اس سادہ لوح عوام نے عمران خاں کے نصیب کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ہاتھ والی چھوڑ کر اڑتی کے پیچھے دوڑنا شروع کردیا۔ پھر اپنی ناکامیوں میں سے بھی کوئی نہ کوئی اپنی تعریف کا پہلو نکال لیتے ہیں : اپنی ہی حکومت کی بدعنوانی کی رپورٹس پر بھی ایمانداری کا کریڈٹ لینے کے لئے بے چین ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بے ایمانیاں بتا تو دی ہیں۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی ان کی قبولیت کا ماحول دیکھتا ہوں تو مجھے نصیب اور سادگی کی کرامات پر یقین پختہ ہونے لگتا ہے۔
جب غربت، بے روزگاری، لا قانونیت اور دن بدن بگڑتی صورتحال اور ہر روز ڈولتی حکومت کی غیر متوقع مدد کو دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس قوم پر ابھی امتحاں اور بھی ہیں۔ ویسے بھی ان کی سوچ بدلی ہی کب ہے جو اچھے حکمرانوں کی امید لگا لی جائے۔
اب بھی کچھ سادہ لوح لوگ ہیں جو مہنگائی کو مانتے ہی نہیں یا پھر پوری دنیا میں مہنگائی بڑھنے کی منطق سے اپنی سادگی اور انانیت کو تھپک کر سلانے لگتے ہیں۔ خیر ان کا اپنا خیال ہے، بعض لوگ حقائق اور دلائل کے بجائے خواہشات کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں، اسے پھر نصیب اور سادگی کا رشتہ ہی سمجھئے۔
جو قوم انکشافات اور شہادتوں کو سنجیدہ ہی نہ لیتی ہو : جسٹس شوکت عزیز صدیقی، ملک ارشد، جسٹس وجیہ الدین، مخدوم جاوید ہاشمی، چیف جج راناشمیم اور کئی ایسے کردار ہیں جو نتائج کی انتظار میں اس سادگی کی نذر ہو کر مزاح کا ساماں بن چکے ہیں۔
جس قوم کے حیران کن کمالات ہوں : ملک کے میڈیا ہاؤسز مفادپرست کاروباری لوگوں کے ہاتھوں میں ہوں، ان کو پاکستان کا مثبت چہرہ دکھانے کا ایک خاص ٹارگٹ دیا گیا ہو جس کی کسوٹی خاص لوگوں کی خاص باتیں ہوں۔ وہ جس کو چاہیں ہیرو بنا لیں جس کو چاہیں زیرو بنا لیں۔ جس ملک کی آدھی آبادی ناخواندہ ہو اور ملک کی پچانوے فیصد بدعنوانی کے مرتکب نام نہاد پڑھے لکھے ہوں اس قوم کی تقدیر کا سب سے بڑا سہارا نصیب اور سادگی ہی ہوا کرتی ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments