اومی کرون: دنیا ایک بار پھر ہائی رسک پر


کرونا کے خلاف دو سال سے جاری جنگ ختم نہیں ہوئی

دنیابھر میں پھیلنے والا کرونا وائرس (کوویڈ 19 ) خوف کی علامت بن کر رواں برس بھی چھایا رہا۔ 2019 سے ظہور پانے والے کرونا وائرس نے عالمی معیشت، اقتصادی اور سماجی ستونوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ 2021 کا اختتام ہy لیکن کرونا وبا کی نت نئی اقسام، اشکال بدل کر بدستور چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ کرونا سے بچاؤ کے لئے ہنگامی بنیادوں پر ویکسین کم ازکم ترین مدت میں بنا لی گئی تاہم اس کے باوجود کرونا کا پھیلاؤ کسی نہ کسی طور بے احتیاطی کے باعث در در سر بنا ہوا ہے۔

کرونا کا شکار ہونے والوں کی تعداد مجموعی تعداد 2 ارب 83 کروڑ 23 لاکھ 7912 سے زائد ہو چکی جب کہ زندگی کی بازی ہارنے والے افراد کی تعداد 5 کروڑ 43 لاکھ 1 ہزار 448 سے زائد ہے۔ دو ارب 51 کروڑ 91 لاکھ 6 ہزار 91 سے زائد افراد کرونا کے وار سے کسی نہ کسی طرح بچ گئے۔ امریکہ پانچ کروڑ 41 لاکھ 48 ہزار 5 سو 44 سے زائد کیسوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ امریکہ میں کرونا 8 لاکھ 42 ہزار 161 افراد کو نگل چکا، امریکہ کی کل آبادی 33 کروڑ 38 لاکھ 92 ہزار کے قریب ہے، ۔

بھارت نے کرونا وبا میں 34 کروڑ 80 لاکھ 8 ہزار 886 سے زائد کیسوں کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کر رکھی ہے جب کہ 4 لاکھ 08 ہزار 592 سے زائد انسانی جانیں کرونا وبا کی بھینٹ چڑھ چکی۔ بھارت کی مجموعی 1400 کروڑ کے قریب ہے۔ پاکستان اپنی مجموعی آبادی 22 کروڑ 72 لاکھ 70 ہزار 644 ہے، اس وقت کرونا وبا سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں 12 لاکھ 94 ہزار 379 سے زائد کیسوں کے ساتھ 36 ویں نمبر پر ہے، جبکہ 28 ہزار 918 سے زائد انسان اپنی جانوں سے محروم ہوچکے ہیں۔

کرونا وائرس 2021 کے اختتام تک بے پناہ نقصان پہنچا چکا اور بالخصوص لاک ڈاؤن نے انسان کی سماجی زندگی کو بری طرح متاثر کیا، اب نئے پھیلنے والے اومی کر ون وائرس نے خوف و ہراس پیدا کر رہا ہے۔ کوویڈ 19 نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا بھر کے سماجی نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور سماجی پابندیوں نے بدترین نفسیاتی مسائل کو جنم دیا تو دوسری طرف معاشی طور پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک پر کاری ضرب لگائی۔ مہنگائی کے طوفانوں نے دنیا کی مضبوط معیشتوں میں ریکارڈ قائم کیے اور اشیاء ضروریہ کی کمیابی اور پہنچ کی دوری کے باعث بحرانوں نے جنم لیا۔

خیال رہے کہ جنوبی افریقہ کے شہر جبرگ کی لیبارٹری لینسٹ میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کر ون کی دریافت ہوا اور برطانیہ میں فروغ پانے کے بعد اب تیزی سے دنیا کے کرونا وبا سے متاثرہ ممالک میں پھیلتا جا رہا ہے۔ اومی کر ون پاکستان میں بھی براستہ برطانیہ سے آنے والوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے داخل ہو چکا جب کہ بھارت سمیت یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں تیزی سے جڑ پکڑنے لگا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبرائسیس کا کہنا ہے، ”عالمی سطح پر ہمیں کم ویکسین شدہ افراد اور کم ٹیسٹوں کے خطرناک ملاپ کا سامنا ہے جو کہ نئے ویریئنٹس کے پیدا ہونے کے لیے موافق ماحول ہے۔

“ گیبرائسیس کے مطابق اب قریب تمام کیسز ڈیلٹا ویریئنٹ کے ہیں، ”ہمیں ڈیلٹا کے پھیلاؤ اور اس سے انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے تمام وسائل کو استعمال کرنا ہو گا اور اگر ہم نے ایسا کر لیا تو ہم اومی کر ون کے پھیلاؤ کو بھی روک پائیں گے۔“ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اومی کر ون کی تشخیص اور اس کا تیزی سے پھیلاؤ یہ ضرور ثابت کرتا ہے کہ ”دو سال سے کورونا وبا سے جاری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی“ ۔

کرونا وبا نے اقتصادی طور پر مضبوط حکومتوں کو بھی ناکوں چنے چبا دیے۔ برطانیہ میں مہنگائی کا گزشتہ 10 سالہ ریکارڈ ٹوٹا، سال کے دوران گیس کی قیمتوں میں 28.1 فیصد اور بجلی کے نرخ میں 18.8 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا۔ پیٹرول کی قیمتوں میں 25.4 پنس فی لیٹر کا اضافہ ہوا جس سے پیٹرول کی قیمت 138.6 پنس فی لیٹر تک پہنچی۔ کیپٹل اکنامکس کے چیف اکانومسٹ پال ڈیلس کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ بینک آف انگلینڈ دسمبر میں سود کی شرح میں 0.1 فیصد سے 0.25 فیصد تک اضافہ کردے گا۔

اس کے بعد فروری میں یہ شرح 0.5 فیصد اور اگلے سال کے آخر تک 1۔ 1.25 فیصد تک کردی جائے گی۔ بریگزٹ اور عالمی وبا کورونا وائرس کے بعد سپلائی چین کے بحران نے برطانیہ کو جہاں افرادی قوت کی کمی جیسے سنگین مسائل کی دلدل میں دھکیلا، وہیں مہنگائی کی شرح ایک دہائی میں سب سے بلند ترین شرح پر پہنچی اور زندگی کے اخراجات میں 4.2 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ امریکہ میں افراط زر کی شرح 30 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچی بعض ماہرین اقتصادیات نے متنبہ کیا ہے کہ اسے اجرتوں میں شامل ہونے کی اجازت دینا ایک ایسا سرپل پیدا کر سکتا ہے جو 1970 کی دہائی سے برطانیہ میں نہیں دیکھا گیا تھا ستمبر 2021 تک سال میں 11.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ 2021 میں برطانیہ کے کارخانوں کے ذریعہ تیار کردہ سامان کی قیمتوں میں سال میں 8 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ سال میں 7 فیصد اضافے سے زیادہ ہے۔

کوویڈ 19 کے اثرات نے جاپانیوں کو بھی نہیں چھوڑا اور جاپان کو 40 برس بعد ایک بدترین مہنگائی کا سامنا ہوا۔ بنک آف جاپان کے حکام مطابق پروڈیوس پرائس اشاریے میں چالیس سال سے زائد عرصے میں سب سے بڑا اضافہ ہوا۔ حکام اس کی وجہ خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کو قرار دیتے ہیں۔ مرکزی بینک کا کہنا تھا کہ کمپنیوں کے درمیان اشیا کی لین دین کی لاگت گزشتہ سال کے مقابلے میں 8 فیصد بڑھی۔ یہ جنوری 1981 ء کے بعد سب سے بڑا اضافہ رہا۔

مذکورہ اشاریہ مسلسل کئی مہینوں بلند ہے۔ بینک آف جاپان کا کہنا تھا کہ خام تیل کی پہلے سے زیادہ قیمتوں کی وجہ سے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں زیادہ مہنگی ہوئی۔ سال 2021 کے آغاز سے ترک کرنسی لیرا ڈالر کے مقابلے میں اپنی 23 فیصد قدر کھوئی جبکہ سالانہ افراط زر کی شرح تقریباً 20 فیصد تک پہنچ گئی۔ یہ شرح حکومتی ہدف سے چار گنا زیادہ بنتی ہے۔ ترک باشندوں نے لیرا کو غیر ملکی کرنسیوں اور سونے میں تبدیل کرنا شروع کر دیا تاکہ گرتی قدر سے اپنی بچت کو نقصان سے بچایا جا سکے۔

لیرا کی قدر کم ہونے کے سبب ملک میں مہنگائی زیادہ سے زیادہ ہی ہوتی گئی۔ اقتصادی ماہرین موجودہ مالیاتی پالیسیاں خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ ترکی کو اپنے ہاں صرف اقتصادی صورت حال میں ابتری ہی کا سامنا نہیں بلکہ اشیائے صرف کی قیمتیں بھی مسلسل بہت زیادہ ہوتی جا رہی ہیں۔ عالمی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ صدر ایردوان کے لیے ملک میں افراط زر کی بہت اونچی شرح سیاسی طور پر بہت خطرناک ہو سکتی ہے۔

عالمی وبا کورونا وائرس کے سبب سپلائی چین متاثر ہونے اور صنعتی پیداوار میں کمی سے امریکا میں بھی مہنگائی کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹا۔ مہنگائی عروج پر ہونے کی خبروں پر امریکی منڈیوں میں مندی دیکھی گئی۔ تیل، گاڑیوں اور مکانات کی قیمتیں 30 سال کی بلند ترین سطح پر گئی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے تسلیم کیا کہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ ڈاؤجونز میں 0.7، ایس اینڈ پی میں 0.8 اور نیسڈیک انڈیکس میں 1.7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔

جائزہ رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں امریکا میں مہنگائی قابو میں تھی لیکن سپلائی چین متاثر ہونے سے دنیا بھر میں قیمتوں پر فرق پڑا۔ امریکا میں مہنگائی کی شرح 6.2 فیصد تک پہنچی جو کہ 1990 کے بعد سب سے بلند ترین شرح ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا میں دسمبر 1990 کے بعد پہلی بار 30 سالہ تاریخ میں مہنگائی میں اتنا اضافہ ہوا کہ جب جارج بش کے دور حکومت جب امریکا عراق اور خلیجی ممالک کے ساتھ جنگوں میں مشغول تھا، اس وقت بھی اتنی مہنگائی نہیں تھی۔

مہنگائی کی شرح میں بتدریج اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے، گھریلو اشیا کی قیمتوں میں 5.4 فیصد اضافہ ہوا۔ امریکا کے محکمہ برائے افرادی قوت کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مہنگائی کی شرح بڑھ کر 5.9 فیصد تک پہنچی۔ مختلف اشیا کی قیمتوں میں 0.9 فیصد اضافہ ہوا، جون میں کورونا پابندیاں ختم ہونے کے باوجود ملک بھر میں مہنگائی کی شرح مسلسل بڑھی۔ امریکا میں توانائی کی قیمتوں میں 4.6 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد اگست 1991 کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔

کرونا وائرس کی نئی قسم اومی کر ون ویریئنٹ کے ممکنہ پھیلاؤ نے کرسمس اور سال نو کی تقریبات پر اثر ڈالنا شروع کر دیا اور لاک ڈاؤن لگانے کے خبروں کی وجہ سے کرونا وبا کے باعث شدید نقصان سے دوچار صنعتوں میں خوف پھیلا۔ کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کر ون کے یورپ، امریکہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں تیزی سے پھیلاؤ کے بعد حکومتوں نے جہاں ایک مرتبہ پھر سخت اقدامات لینا شروع کیے وہیں عوام پر کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگوانے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔

جرمنی، سکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، نیدرلینڈز اور جنوبی کوریا کا شمار ان ممالک میں ہے جنہوں نے جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کیا، پھر سماجی فاصلہ رکھنے کی احتیاطی تدابیر کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ خیال رہے کہ پہلے ہی کرونا وبا سے متاثر سیاحت، ہوا بازی، ف ہوٹلنگ اور چھوٹے بڑے بازاروں کے دکاندار اور فیشن انڈسٹری کے ساتھ فلمی صنعت اور تعلیمی اداروں سے وابستہ کروڑوں لوگوں کو ایک بار پھر معاشی پابندیاں، روزگار اور سرمایہ میں نقصان کے خدشات پریشان کر رہے ہیں۔

عالمی کرونا وبا کے مضمرات سے دنیا سنبھل نہیں پائی اور ترقی یافتہ ممالک سمیت غریب حکومتیں اپنے عوام کو ریلیف دینے میں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ کرونا وائرس کے خلاف تیار کردہ ویکسین بھی ابھی تک دنیا بھر میں ہدف کے مطابق نہیں لگائی جا سکی کہ اب متعدد ممالک ویکسین کی دوسری خوراک اور بوسٹر شاٹ کے درمیان وقت کم کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ بالخصوص موسم سرما میں یورپ تبدیل ہونے والے کورونا وائرس ’اومی کرون‘ کی شدید لپیٹ میں ہے جہاں اس وائرس کا تناسب 90 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اسی حوالے سے یورپ پر اومی کر ون کے مہیب سائے منڈلا رہے ہیں۔ یورپی ممالک میں اومی کرون کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے وہاں احتیاطی تدابیر پر عمل شروع ہونے سے بعض سماجی و تفریحی سرگرمیاں بھی معطل کرنا شروع ہو چکی اور کرسمس کے بعد اس میں مزید شدت لانے کا امکان ہے۔

پاکستان میں کرونا وبا سے دنیا کے دیگر اور بالخصوص پڑوسی ممالک ایران، بھارت کی طرح اس طرح متاثر نہیں ہوا، لیکن کرونا کے کم دباؤ کے باوجود صورتحال تسلی بخش نہیں۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن ہو یا کسی بھی شکل میں کرونا وبا پر قابو پانے کی کوشش میں عوام کی بڑی تعداد کو خطہ غربت سے نیچے دھکیل دیا، لاکھوں لوگ بے روزگار اور ہزاروں چھوٹے بڑے کاروباری طبقہ بری طرح متاثر ہوا۔ جہاں کتوں کے کاٹنے کی ویکسین ملنا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہو، وہاں کسی بھی وبا کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومتی اقدامات تنقید کے زد میں رہے، سرکاری اسپتالوں میں کرونا وبا سے نمٹنے کے لئے کیے جانے والے اقدامات عدم تحفظ کا شکار رہے۔

مریضوں کو ناکافی سہولیات کی عدم فراہمی و بدترین صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، کرونا وبا کو کنٹرول کرنے کے لئے ویکسین مہم عوامی عدم تعاون کا شکار نظر آئی۔ ویکسینیشن پروگرام کا حشر بھی پولیو مہم سے مختلف نہیں کہ ریاست کی تمام تر کوشش کے باوجود عوامی عدم تعاون دیکھنے میں آیا، اسی طرح اومی کر ون جیسی خطرناک وبا، گر پاکستان میں پھیلنا شروع ہو گئی تو اس کے بھیانک نتائج آنا شروع ہوجائیں گے، جس پر قابو پا نا مزید مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ 2021 کے آخر تک تمام اہل بالغوں کو مکمل طور پر ویکسین دینا ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کہ غریب ممالک کو ضرورت کے مطابق ویکسینز نہ ملنے کی وجہ سے وبا کم از کم مزید ایک سال جاری رہے گی۔ ڈبلیو ایچ او کے سینیئر اہلکار ڈاکٹر بروس ایلوارڈ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ کووڈ کا بحران ’آسانی سے 2022 کے آخر تک جا سکتا ہے۔ ‘ اس وقت دنیا بھر میں اوسطاً ہر 100 افراد کو مجموعی طور پر 52 ویکسین لگائی جا رہی ہیں۔

پاکستان اس وقت بدترین معاشی دشواریوں اور براہ راست سیاسی عدم استحکام میں الجھا ہوا ہے، بلدیاتی انتخابات کا سلسلہ جاری ہے، سماجی فاصلے اور کرونا سے بچاؤ کی تدابیر اختیار نہ کرنے سے اومی کر ون کے تیزی سے پھیلاؤ کے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان حالات میں عام انتخابات جس طرح عوام کی سیاسی معاملات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں تو طبی طور پر مشکلات میں اضافہ خوف ناک ثابت ہو سکتا ہے۔ سیاسی حالات ملک میں ساز گار نہیں، مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی صورتحال پر کئی بار بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں، حزب اختلاف کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندیاں بھی سامنے آ چکی ہیں، ان حالات میں اومی کر ون سے بچاؤ کے لئے حفاظتی انتظامات کی ضرورت کئی لحاظ سے بڑھ جاتی ہے۔

، حکومت اپنی تمام تر مشکلات و عالمی قوتوں کی مداخلت کے سبب داخلی حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تاہم کرونا وائرس کی وبا نے جس طرح ترقی یافتہ اور محفوظ ترین قرار دیے جانے والے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا اگر اس بار اومی کر ون نے پنجے گاڑ دیے تو حالات کو قابو کرنا مشکل ترین ہو جائے گا۔ پاکستان کو اپنی سرحدوں کی نگرانی سمیت قانونی و غیر قانونی آمد و رفت کو سختی سے مانیٹر کرنا ہو گا، سہل پسندی کے نتائج قیامت خیز ہوسکتے ہیں۔

کچھ فضائی و زمینی راستے سے آنے والوں میں کرونا کی بروقت تشخیص نہ کرنے کی وجہ سے وبا نے زور پکڑا تھا اس لئے ملک میں آمد و رفت کی گزرگاہوں پر سخت نگرانی سب کے لئے بھی بہتر ہو گا۔ مذہبی مقامات پر زائرین کی نقل و حرکت، افغانستان سے مہاجرین کی آمد میں عالمی اصولوں کے مطابق پیش بندیاں انتہائی ضروری ہیں تاکہ انسانی غفلت کی وجہ سے کسی ناگہانی وبا سے بچ سکے۔ پاکستان صحت عامہ کی سہولیات میں خود کفیل نہیں ہے، اہم ادویات تک بیرون ملک سے منگوا پڑتی ہیں، حفاظتی ماسک و اہم ادویہ ابھی سے بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتی رہی ہیں، لہذا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ کسی مصلحت و لاپرواہی کے سبب بڑی آفت سے محفوظ رکھنے کے لئے پاکستان احتیاطی تدابیر اختیار کرے۔ کمزور معیشت میں دنیا کو درکار اہم ضروریات پوری کرنے کے لئے حتمی اہداف کا تعین اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مضبوط ترقی یافتہ ممالک کو چین سپلائی سسٹم میں دقت کا سامنا ہے، جسے حکومت سفارتی چینلوں کو استعمال کر کے کوویڈ 19 کے مضر اثرات سے بچاؤ کے لئے استعمال کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments