بلی ہیلش: کس طرح پورنوگرافی نوجوانوں کے دماغ اور جنسی عادات کو متاثر کرتی ہے

شِن سوزوکی - بی بی سی نیوز برازیل، ساؤپالو


بلی ایلیش
گلوکارہ بلی ایلیش نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں پورن اور حقیقی جنسی تجربات کے بارے میں کھل کر بات کی ہے جس میں اُنھوں نے پورن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
چند دہائیاں پہلے، پورنوگرافی ایک عام رجحان سے ہٹ کر ذرا دور پرے رہنے والی صنعت تھی، جو کہ ’کاؤنٹر کلچر‘ کا حصہ تھی۔ یہاں تک کہ امریکہ میں اس کے حامیوں میں آزادی اظہار کے کارکن بھی شامل تھے۔

انتباہ: اس مضمون میں جنسی موضوعات زیرِ بحث ہیں۔

اور اس کی مخالف آوازیں زیادہ تر مذہبی اور قدامت پسند گروہوں کی تھیں۔

پورنوگرافی اب ایک بہت مختلف سطح پر پہنچ چکی ہے۔ یہ ایک اربوں ڈالر کی صنعت ہے، جو موبائل فون پر کی جانے والی تمام سرچز کا کل پانچواں حصہ ہے، اور اس کے سب سے بڑے نقادوں میں ایک نوجوان فنکارہ بھی شامل ہیں۔

20 سالہ امریکی گلوکارہ بلی ایلیش نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ پورنوگرافی ایک ’بدنامی‘ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب انھوں نے 11 سال کی عمر میں اس طرح کے مواد کو استعمال کرنا شروع کیا تو انھیں ’پرتشدد‘ اور ’توہین آمیز‘ تصاویر دیکھنے کو ملی تھیں۔

میزبان ہاورڈ سٹرن کی طرف سے پوچھے گئے سوال کا اشارہ ان کے تازہ ترین البم ’ہیپیئر دین ایور‘ کے ایک نمبر ’میل فینٹسی‘ سے لیے گئے گانے کے بول ’ہوم الون، ٹرائنگ ناٹ ٹو ایٹ/ ڈسٹریکٹ مائی سیلف وِد پورن‘ کی طرف تھا۔

ایلیش کہتی ہیں کہ چھوٹی عمر میں پریشان کن جنسی ویڈیوز دیکھ کر ان کا دماغ ’برباد‘ ہو گیا تھا۔ اور انھوں نے مزید بتایا کہ ان میں سے بہت سی پروڈکشنز ان حدود سے کہیں پرے تھیں جو جنسی تعلقات کے دوران عام سمجھی جاتی ہیں، جس میں رضامندی بھی شامل ہے۔

سیکس

پورنوگرافی کی صنعت کی وسعت کا ٹیکنالوجی اور میڈیا کے ارتقا سے گہرا تعلق ہے۔ انٹرنیٹ سے پہلے کے دور میں دنیا کے بیشتر حصوں میں، سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر دستیاب جنسی مواد عریاں میگزین (زیادہ تر خواتین کے) اور ویڈیو سٹورز سے کرائے پر لیے گئے وی ایچ ایس ٹیپس پر مشتمل ہوتا تھا، دونوں ہی میں 18 سال سے کم عمر افراد کے لیے کچھ پابندیاں تھیں۔

ویب کی آمد نے سارا کھیل بدل دیا۔ 2000 کی دہائی کے آخر سے دنیا میں براڈ بینڈ کی رفتار میں اضافہ اور سمارٹ فون کے مقبول ہونے کے بعد پورنوگرافی کی مقدار اور ورائٹی کی کھپت بھی بڑھ گئی، اس کے علاوہ اس ٹیکنالوجی نے مواد تک رسائی کو بھی آسان بنا دیا۔

فحش سائٹس کے مواد تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عمر کی توثیق کرنے پر کنٹرول بہت کم ہے۔ برطانیہ میں، بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے مہم چلائی ہے کہ برطانیہ کے ریگولیٹر اس کے لیے اقدامات کریں۔

آسٹریلیا اور کینیڈا میں رسائی حاصل کرنے کے لیے بائیومیٹرک شناخت پر بڑی بحث ہو رہی ہے، لیکن یہاں یہ خوف بھی ہے کہ اس سے بالغ صارفین کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے۔

برازیل میں، وفاقی نائب ڈیگوبرٹو نوگیرا نے ایوان میں ایک بل پیش کیا ہے جس میں عمر کے ڈیجیٹل ثبوت کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

پانچ ممالک میں کیے گئے 10 سے 14 سال کی عمروں کے 9250 نوجوانوں کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ایکواڈور میں 14.5 فیصد (سب سے کم شرح) اور بیلجیم میں 33 فیصد (سب سے زیادہ شرح) کی عمر کے گروپ کے نوجوانوں نے اس طرح کا فحش مواد استعمال کیا ہے۔

یہ مطالعہ جولائی 2021 میں ’جرنل آف ایڈولسنٹ ہیلتھ‘ میں شائع ہوا تھا اور اس میں کم آمدنی والے علاقوں کے رہائشیوں کو شامل کیا گیا تھا۔

فون

پورنوگرافی اور ٹیکنالوجی

پچھلی دہائی کے دوران، پورنوگرافی اور ٹیکنالوجی کے درمیان فیوژن کے ایک پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔۔۔ اور وہ ہے اس کی ’لت‘۔

تاہم طبی برادری میں اس اصطلاح کے درست ہونے کے بارے میں بڑی بحث ہے۔ اگرچہ اسے پیتھالوجی کے طور پر بیان کرنے کے لیے کچھ شرائط ضروری ہیں، ماہرین نفسیات نے ڈیجیٹل آلات کے بے دریغ استعمال کے معاملات کا علاج شروع کر دیا ہے۔

ان پیشہ ور افراد میں سے ایک اینا لیمبکے بھی ہیں، جو امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر ہیں، اور اسی ادارے میں نشے سے متعلق ایک کلینک کی سربراہ بھی ہیں۔

بی بی سی برازیل کے ساتھ ایک انٹرویو میں لیمبکے کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی ڈرگ کی نشہ آور خصوصیات کو اس کی زیادہ مقدار، زیادہ رسائی، زیادہ طاقت اور زیادہ جدیدیت کے ساتھ بڑھایا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ اور پورٹیبل ڈیجیٹل ڈیوائسز ان تمام ڈومینز کو فروغ دیتی ہیں جس کی وجہ سے آج پورنوگرافی ماضی کے مقابلے کی پورنوگرافی سے زیادہ وافر مقدار میں، زیادہ قابل رسائی، زیادہ طاقتور اور جدید ہے اور اسی لیے وہ زیادہ نشہ آور ہے۔‘

فون

وہ کہتی ہیں کہ ’سیکس کا نشہ ایک بڑا مسئلہ ہے، جو معاشرے میں آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا ہے اور جس کی وجہ سے پہلے ہی ان کے کچھ مریض خودکشی کا سوچ چکے ہیں۔

’یہ طرز زندگی یا معاشرتی اصولوں کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کے ان طریقوں کے بارے میں ہے جس کے ذریعے اس نے سیکس سمیت انسانی تعلق کو ایک ایسی دوا میں تبدیل کر دیا ہے جس تک ہر کوئی، بشمول بچے، پہنچ سکتا ہے۔‘

ڈوپامائن ڈسچارجز

لیمبکے نے 2021 میں ایک کتاب ’ڈوپامائن نیشن: فائنڈنگ بیلنس ان دی ایج آف انڈلجنس‘ شائع کی ہے۔

یہ کتاب جدید زندگی میں زبردستی یا خوراک، موبائل فون، سوشل نیٹ ورکس، اور دیگر چیزوں کے بہت زیادہ استعمال کے تناظر میں دماغ کے اہم نیورو ٹرانسمیٹر کے کردار کا جائزہ لیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’کم عمری میں پورن دیکھنے سے ذہن تباہ ہو گیا، ڈراؤنے خواب آنے لگے‘

‘جعلی فحش تصاویر کی وجہ سے مجھے آج بھی ڈراؤنے خواب آتے ہیں’

انسٹاگرام پورن سٹارز کے اکاؤنٹ کیوں ڈیلیٹ کر رہا ہے؟

برطانوی پورن کمپنیوں کے ڈائریکٹر کیسے بنے؟

اومیگل: ’انھوں نے میری آٹھ سالہ بیٹی سے برہنہ ہونے کے لیے کہا‘

اس حوالے سے پورنوگرافی بھی ایک کشش ہے جسے ڈوپامائن کا اخراج طے کرتا ہے۔

سٹیفورڈ یونیوسرٹی کی پروفیسر اپنی کتاب میں بتاتی ہیں کہ ہمارے جسم ہومیوسٹیٹس کا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہومیوسٹیٹس وہ حالت ہے جو جسم کے توازن کے بارے میں ہے۔ اس حالت کا ایک پوائنٹ مزے اور درد کے درمیان کی کیفیت ہے۔

دماغ

خوشگوار احساس حاصل کرنے کے بعد، چاہے وہ چاکلیٹ کھانے کا ہو یا خود لذتی کا، دماغ ایک ایسا عمل متحرک کرتا ہے تاکہ پیمانے کی دوسری طرف کی بھی تلافی ہو سکے، جس کا مقصد دراصل ہومیوسٹیٹس پر واپس آنا ہوتا ہے۔ درد کی سائیڈ ایک ہلکی سی تکلیف، جلن، یا افسردگی کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے۔

لیکن پھر لذت کے سابقہ ​​احساس کو دوبارہ پیدا کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔

ایسی اعصابی ڈائنیمکس ہر کسی میں وقوع پذیر ہوتی ہیں، لیکن کم عمر افراد پر اس کا اثر مختلف ہوتا ہے، کیونکہ انسانی دماغ 25 سال کی عمر تک تشکیل پاتا رہتا ہے۔

لیمبکے کہتی ہیں کہ نیورون جو اکٹھے نکلتے ہیں اپنے درمیان رابطے پیدا کرتے ہیں۔ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم اپنی نوخیز عمریں (ٹینز) آرام دہ اثر حاصل کرنے کے بنیادی طریقہ کار کے طور پر پورنوگرافی کا زیادہ استعمال کرنے میں صرف کرتے ہیں، اور یہی دراصل پورن کی لت ہے، تو ہم زبردست اعصابی سرکٹس بنائیں گے جو جڑ پکڑیں ​​گے اور جوانی میں مستحکم ہو جائیں گے۔‘

کمپیوٹر

زیادہ خوراکیں

بار بار لطف کے احساس کو پیدا کرنے کی کوشش کرنے سے وقت کے ساتھ اس کی شدت کم ہو سکتی ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں پہ منشیات کی لت کی تشبیہ کام کرتی ہے اور زیادہ اور مضبوط خوراکوں کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔

آن لائن پورنوگرافی میں اکثر اس کا نیجہ انتہائی جنسی ویڈیوز پر کلک کرنے کی صورت میں نکلتا ہے، جن میں تشدد، یا کسی قسم کے ’ٹیبو‘ یا معاشرتی طور پر ممنوع کام بھی دکھائے جاتے ہیں۔

لیمبکے کہتی ہیں کہ ’ڈوپامائن ایک خاص ماحول میں خاص طریقے سے ردِ عمل ظاہر کرتا ہے، چاہے وہ اچھا ہو یا برا۔ کیونکہ یہ کسی کو ایسے رویے کو اپنانے یا اس سے بچنے کی طرف لے جاتا ہے، جو بقا کے لیے ضروری ہوتا ہے۔‘

برازیل میں فیڈرل یونیورسٹی آف ریو ڈی جنیرو کے انسٹیٹیوٹ آف سائیکائٹری کی گریجویٹ پروفیسر اور اسی ادارے کی ڈیجیٹل ڈیلیٹ ڈیٹوکس لیبارٹری کی بانی کوآرڈینیٹر اینا لوسیا سپیئر کنگ تکنیکی انحصار کو ’اس طرح کے رویے کی تحقیق کے لیے بڑے مسئلے کے آغاز کے طور پر‘ دیکھتی ہیں۔

لڑکی

ان کے خیال میں ’عمومی طور پر انحصار کسی شخص کی کمزوری کا نتیجہ ہے، خاندانی مسائل اور جذباتی کمزوری کی طرح۔‘

’جذباتی تسکین کی یہ ضرورت مجبوری کی طرف لے جاتی ہے، مثلاً آن لائن پورنوگرافی۔‘

تشدد کی حوصلہ افزائی

جنسی تشدد کے واقعات میں پورنوگرافی کے اثر پر کئی دہائیوں کی تحقیق سے پیچیدہ نتائج برآمد ہوئے ہیں جو ان دونوں کے درمیان براہ راست اور وسیع تعلق پوری طرح ثابت نہیں کرتے۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں سائیکالوجی کے پروفیسر نیل ملامتھ نے، جو 40 سالوں سے تشدد، میڈیا اور انتہائی فحش مواد کے درمیان تعلق کا مطالعہ کر رہے ہیں، بی بی سی برازیل کو بتایا کہ پورنوگرافی کے حامی اور مخالف گروپس اس کے متعلق اپنی مرضی کے مطابق ڈیٹا استعمال کرتے ہیں۔

ان کے مطابق وہ پائی جانے والی باریکیوں کو مسترد کرتے ہیں تاکہ ان کے ایجنڈوں یا مہمات کو نقصان نہ پہنچے۔

لڑائی

وہ بتاتے ہیں کہ آبادی کی نسبتاً کم تعداد ظاہر کرتی ہے کہ میڈیا کے اثرات کی وجہ سے جنسی حملوں کے واقعات ہوتے ہیں، لیکن ان واقعات کے مضمرات اور اثرات بہت زیادہ لوگوں تک پھیل سکتے ہیں۔

ملامتھ کہتے ہیں کہ ’یہ واضح ہے کہ کئی قسم کی پورنوگرافی تک رسائی برسوں پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہے اور لوگ اس قسم کا انتخاب کرتے ہیں جو خاص طور پر ان کو ٹرن آن کرتی ہے۔‘

تاہم، وہ کہتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ فکر مند ان نوجوانوں کے بارے میں ہیں جن کے پاس سیکس کے مثبت پہلوؤں کے بارے میں زیادہ علم یا تعلیم نہیں ہے اور یہ کہ بعض قسم کی پورنوگرافی ان پر کیسا اثر ڈال سکتی ہے۔

ماہر نفسیات سنتھیا پیروانو کیمارگو بومیل کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس جنسی تعلیم نہیں ہے، اس پر بات کرنے کے لیے، شکوک و شبہات کو واضح کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اور خاندان اس کے بارے میں بات نہیں کرتے ہیں۔ (نوجوانوں کے لیے) کسی کے ساتھ رہنے کا پیرامیٹر پورنوگرافی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ ’مردوں کی کارکردگی کی سوچ، عضو تناسل کے سائز اور اس کے تناؤ کے دورانیے اور خواتین کے لیے بغیر سوال کیے اور بغیر کسی محرک کے جنسی تعلقات پر آمادگی ظاہر کرنے کی وجہ سے ہے۔‘

دوست

اینا لیمبکے کے لیے ’ایک ایسی سطح ہے جہاں تمام پورنوگرافی بری ہے، قطع نظر اس کے کہ ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں یا نہیں، کیونکہ یہ انسانی تعامل کو اس کی بنیادی سطح پر بغیر احساس والی یا بکاؤ چیز سمجھتا ہے۔‘

بومیل کا کہنا ہے کہ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو آج کل پورنوگرافی کی تیاری کے بارے میں پوچھے جانے کی ضرورت ہے۔

لیکن بومیل جنس کی نمائندگی پر ایک تاریخی نظر بھی ڈالتے ہیں۔

’جب سے ہم نے زمین پر چلنا شروع کیا ہے، انسانوں نے اپنے سب کاموں کو دکھایا ہے۔ غاروں کی دیواروں پر جنسی عمل کی نمائندگی کی گئی ہے۔ ہم رقص کے بارے میں بات کرتے ہیں، ہم کھانے کے بارے میں بات کرتے ہیں اور ہم سیکس کے بارے میں بات کرتے ہیں، جو ہماری زندگی کا حصہ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی اس کے متعلق ٹیکنالوجی تیار کی جاتی رہی۔ ہم نے مجسمے بنانا شروع کیے، جنسی عمل کا مجسمہ موجود ہے۔ ہم نے فوٹو لینا شروع کی، ویڈیوز بنانا شروع کیں ۔۔۔ سیکس کا ریکارڈ موجود ہے۔ سو جو ہمارے لیے اہم ہے اس کا اظہار اور ریکارڈنگ ہمیشہ ہوتی رہے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمیشہ ہوتا رہے گا اور اسے بند نہیں کیا جا سکتا۔

’یہ اظہار کا طریقہ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments