چل کہیں اور چلیں



میری جان جس معاشرے میں محبت کو گھناؤنا جرم گردانا جائے، جہاں محبت کرنے والوں کو سولی چڑھایا جائے، جہاں محبتوں کے اظہار کرنے والوں سے ان کے اپنے ہی لا تعلقی کا اظہار کر دیں، جہاں محبت کے بجائے نفرت کا بیوپار کیا جاتا ہو، جہاں پیار و محبت کے باغی لوگ اہل محبت والوں کو غیرت کے نام پر قتل کر کے بے غیرتی کر جاتے ہیں، جہاں سینوں میں نفرت کھوٹ کھوٹ کر بھری ہو۔

میری جان! چل ایسے معاشرے سے بغاوت کر کے دور کہیں اور چلیں۔

میری جان! مذہب کا بنیادی درس ہی محبت و انسانیت کا ہوتا ہے لیکن جہاں مذہب کا لبادہ اوڑھ کر فرعونیت اور نمرودیت پھیلائی جاتی ہو، جہاں انسان دوست مذاہب کو انسانیت کے خلاف ہی استعمال کیا جاتا ہو، جہاں مسلکی اختلافات کو جواز بنا کر مسلکی فسادات کو ہوا دی جاتی ہو، جہاں مذہب کے نام پر فرقہ پرستی ہو، جہاں ایک فرقہ سے تعلق رکھنے والے مخالف فرقہ کو واجب القتل قرار دیتے ہو، جہاں ہر مسلکی ممبر پر کافر کافر کا الاپ اور ورد کیا جاتا ہو، جہاں بزور بازو جبری مذہبی تبدیلیاں کی جاتی ہو، جہاں ذاتی رنجشوں اور چپقلش کی وجہ سے مذہبی توہین کا الزام لگا کر سنگسار کیا جاتا ہو۔

میری جان! چلیں ایسے معاشرے سے بغاوت کر کے دور کہیں اور چلیں۔

میری جان! جہاں نصاب میں نفرت و تعصب ہو، نصابی تعصب تو خیر۔ جہاں نصاب کو پڑھانے والا اشرف المخلوقات جسے ماں باپ کا درجہ دیا گیا ہے، وہ استاد بھی بھیڑیا بن جائے، جہاں معصوم بچیوں کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہو۔

میری جان! اب تو اس معاشرے سے بغاوت فرض ہوتی ہے، چلیں ایسے معاشرے سے دور کہیں اور چلیں۔

جان من! جہاں ہر سو، ہر طرف ہر علاقے سے قومیتوں کی بو آتی ہو، جہاں معاشرہ قومیتوں کی بنیاد پر تعصب کا شکار ہو، جہاں سالوں سال آپس کی قومی دشمنیاں چلتی ہو، جہاں قومی لشکر کشی سے کسی انسان کے انفرادی جرم کی پاداش میں اجتماعی قتال کیا جاتا ہو، جہاں قبائلیت کی آڑ قبیلوں کو برباد کیا جاتا ہو، ۔

میری جان! الزام تو لگیں گے، لیکن اب اس معاشرے میں سانس لینے میں دشواری ہے، چل کہیں اور چلیں۔

جناب! جہاں ریاست کا کردار ممتا جیسا ہوتا ہے، لیکن ریاست اپنے ہی بچوں کے لئے بھیڑیا بن جاتا ہو، ہر سو اپنے ہی بچوں کی مسخ شدہ لاشیں بکھری پڑی ہو اور قاتل دندناتے پھرتے ہو، جناب! کچھ تو سرکاری قاتل ہوتے ہیں جو قانون کو اپنے لئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔

جناب جہاں کا چوکیدار میری کھا پی کر مجھ سے ہی اپنی حفاظت کے حلف نامے لکھوائے، جہاں کا چوکیدار ملکی و داخلی معاملات میں انگلی کرے اور ملک کی سیاسی مستقبل کے فیصلے جہاں چوکیدار کے ہاتھ میں ہو، جہاں سرکار میرے ہی ماتھے پر بندوق تان کر تجربے کرے، جہاں انتقامی اور مفاد پرست سیاست کا رواج ہو۔

جناب! اب تو یہاں سے چلنا بنتا ہے، چلیں کہیں اور چلیں۔

میری جان! جس معاشرے میں دولت پر کچھ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا راج ہو، جہاں غربت سے لوگ تنگ آ کر خودکشیاں کرتے ہو، جہاں پر غریب معاشی پیداوار کے لئے بطور ایندھن استعمال ہوتا ہو۔ جان من ایسے معاشرے سے بغاوت اب فرض کے زمرے میں آتا ہے۔

میری جان! اب میں یہاں کون سے مظالم اور تعصبات گنواؤ، گھٹن سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ،

تم الزامات کی پرواہ نہ کرو، تمام تہمتیں اور الزامات میں اپنے سر لینے کو تیار ہو لیکن۔ بس یہاں سے کوچ کر کے دور کہیں اور چلیں، دور کہیں اور چلیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments