مذبی محافل اور ادب کا فقدان


اک مسلمان کے لئے رسول اللہ کی اطاعت، محبت اور مدحت سرمایۂ زیست ہے۔ اس ہستی کی ثناء پہ کیا کہیں کہ جس پر خالق دو جہاں خود سلام بھیجتا ہے۔ آپﷺ افضل البشر اور افضل الانبیاء ہیں لہٰذا نعت گوئی، نعت خوانی اور محافل کے انصرام میں ادب کے قرینے اور تقاضے ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیر مہر علی شاہ جیسی ہستی نے مدحت لکھتے وقت عاجزی کا اظہار یوں کیا، کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں

پیر نصیرالدین نصیر کے ہاں بھی نعت لکھنا اور کہنا تلوار کی دھار پہ چلنے کے مترادف ہے۔ مگر آج ہم ان تقاضوں کو فراموش کرتے ہوئے نعتیہ محفلوں کو بھی عمومی و عوامی رنگ دینے میں لگے ہیں۔ دور نبوی، خلافت راشدہ اور چند سال پہلے تک محافل میلاد کے انعقاد کا انداز، ادب اور شائستگی پہ مبنی تھا جب اعظم چشتی، حفیظ تائب، مظفر وارثی، منظورالکونین اور زبید رسول ایسی محافل میں مہذب انداز میں ہدیۂ تبریک پیش کرتے تھے۔

میڈیا کی رینکنگ زدہ کاروائیوں نے مذہب کے تقدس کو نظر انداز کرتے ہوئے بھیڑ چال کے عادی لوگوں کو مذہبی محافل میں بھی گلیمرائیزڈ کر دیا ہے۔ شب برات کو تو پہلے ہی دیوالی نما بنا کر شرلیوں پٹاخوں کے حوالے کر چکے تھے۔ عاشورہ پر بھی طرح طرح کی شبیہات موجود تھیں پر اس بار عراق میں امام عالی مقام کے سر مبارک کو لے دربار یزید لے جانے کا ڈرامہ تک کر لیا گیا۔ ادھر میلاد کے نام پر ہمہ قسم ہلچل، آتش بازیاں اور شبیہ سازیاں، ریلیاں حتیٰ کہ ڈھول اور رقص بھی متعارف کروا یا جا رہا ہے۔

بزرگان کے اعراس پہ ان کے مزارات اور قبرستانوں میں زور دار آتش بازی کے مظاہرے کر کے عجیب قسم کی عقیدت اور عشق کا اظہار کیا جاتا ہے حالانکہ یہ سب اسلام میں کسی صورت بھی پسندیدہ نہیں ہیں۔ آج ممبر رسول پہ براجمان ہو کر دوسرے مسالک اور علماء کو گالیوں اور فتوؤں سے نوازا جاتا ہے جبکہ رسول خدا نے تو گالیاں سن کر بھی دعائیں دیں۔ آپ محض رحمت اللمسلمین نہیں بلکہ رحمت اللعالمین ہیں۔ آج کا عالم محفل میں لاؤڈ سپیکر میں خوب گلہ پھاڑ پھاڑ کر سیرت النبی کی بجائے دوسروں کی تذلیل کرتا نظر آتا ہے۔

نعت خواں تو حد سے گزرتے جا رہے ہیں اور عجیب و غریب انداز میں نعت کے تقدس کو متاثر کر رہے ہیں۔ ہزاروں روپے طے کر کے آ نے والے سٹیج سے اترنا اور مائیک چھوڑنا ہی بھول جاتے ہیں اور ماہر ایسے کہ کنجوسوں کی زبانوں سے داد اور جیبوں سے پیسے نکلوا لیتے ہیں۔ جاتے جاتے اجازت کے بہانے مزید رقم کے تقاضے بھی کرتے ہیں۔ ثناء خوان راگوں، لوگ گیتوں، فلمی دھنوں اور خاص کر بھارتی فلمی گانوں کے بغیر ثنا پیش کرنا مناسب نہیں سمجھتے اور نہ ہی آج کے عشاق کو شائستہ نعتیں پسند آتی ہیں۔

الفاظ کی بجائے مشہور طرزوں، نازو انداز اور بھیروی، سندھڑا اور پہاڑی کے راگوں کے الاپ پر اش اش ہوتی ہے۔ بعض ثناء خواں لکھنوی اور نسوانی وضع قطع اپنائے ہوئے ہیں۔ دوران محفل مک مکا اور لین دین کے جھگڑے بھی چلتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ آقا اپنی محفل میں ضرور تشریف لاتے ہیں۔ اب ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کہ نبی کی موجودگی میں چیخ کر زور دار آواز میں بولنے کی ہمت ہو سکتی ہے کیا توہین آمیز اسلوب میں نعت پڑھنے اور لکشمی کانت پیارے لال کی دھنوں پر مبنی مدحت پہ سر دھنا جا سکتا ہے۔

کیا، میرا ماہیا میرا ڈھولنا اور تیریاں نئیں ریساں، کہہ کر آ پ کو مخاطب کیا جا سکتا ہے۔ کیا آپ کے سامنے اکڑ کر نوٹوں کی ویلیں دی جا سکتی ہیں۔ کیا آپ کے سامنے دھاڑ دھاڑ کر نعرے لگا نے اور شور و غل کی گنجائش ہے حالانکہ اللہ تو صحابہ کرام کو بھی نبی کی آواز سے اپنی آوازیں نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ محبت کے قرینوں میں ادب ہی تو پہلا قرینہ ہے۔ آنحضور نے حضرت عمر کو بلند آواز میں ذکر سے یہ کہہ کر روک دیا کہ کیا تیرا رب آہستہ ذکر نہیں سنتا، دوسروں کا خیال کرو۔

حد تو یہ ہوئی کہ امسال محافل میلاد میں حوروں کو بھی شامل رکھا گیا اور عشاق نے عشق رسول ﷺ کے ساتھ جمالیاتی منفعت سے بھی حظ اٹھایا۔ تاہم ایک آدھ حور اور ہزاروں عاشقان کی طلب و رسد میں توازن کا فقدان نظر آیا۔ خدشہ ہے کہ مستقبل میں یہ پاکھنڈ بھی میلاد کے لوازمات میں لازم نہ ٹھہر جائے۔ دیکھا دیکھی اب عورتوں کے میلاد کا رواج بھی عام ہے۔ ٹی وی پہ بے پردہ خواتین بن سنور کر پوری دنیا کے سامنے فلمی طرزوں پہ نعت پڑھتی ہیں اور لمحۂ فکریہ ہے کہ مخلوط محافل کا انعقاد بھی دیکھا جا رہا ہے۔

گھروں میں ایسی محافل صدیوں سے ہوتی آئی ہیں مگر اب ان میں بھی ادب کے تقاضے مفقود ہو رہے ہیں۔ لباس کی نمود و نمائش، لاؤڈ سپیکر کا استعمال، وی آئی پی ٹریٹمنٹ اور ہلہ گلہ محفل کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ماڈرن فیمیلیز کی خواتین نے تو محفل میلاد کی تیاری کے لئے بیوٹی پارلرز بھی جانا شروع کر دیا ہے۔ کچھ پیر اور بابے اپنے عقیدت مند مردوزن کے ہمراہ ایسی محفلوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں کہ عالم وجد میں میر مجلس کی ریش سفید اور خواتین زائرین کی زلف ہائے سیاہ باہم لپٹ جاتی ہیں۔ قوالی کے انداز میں غزلیں اور گانے عام ہیں او ر اب نعتوں کو بھی یہی اسلوب دیا جا رہا ہے۔ اسی لیے اقبال نے ابلیس کی مجلس شوریٰ میں باور کرایا تھا کہ

طبع مشرق کے لئے موزوں یہی افیون تھی

ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہ تھا علم الکلام

اس ضمن میں باشعور اور اعتدال پسند علماء، اساتذہ اور مشائخ سے مصلحانہ کردار ادا کرنے کی التجا ہے۔ عشق رسول اور شاہ و گدا کے تصور سے کچھ آگے سوچا جائے۔ عملی زندگی کے بہت پہلو تشنہ ہیں۔ رسالت مآب نے بھیک مانگنے والوں کو کاسہ کی بجائے کلہاڑا دیا تاکہ با عزت روزی کما سکیں۔ اسلام کی اصل روح سے ایسی محفل میں کہیں بھی تعارف نہیں کروایا جا رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا سے خیر کی توقع عبث ہوگی۔ آخر میں جناب حفیظ تائب کے چند نعتیہ اشعار جو ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں۔

کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے تیری تعلیم اپنائی اغیار نے حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے بھلا، ہم سے ناکردہ کار، امتی یا نبی

سچ میرے دور میں جرم ہے، عیب ہے جھوٹ فن عظیم آج لاریب ہے ایک اعزاز ہے جہل و بے راہروی ایک آزار ہے آگہی یا نبی

یا نبی اب تو آشوب حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دیے دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبی

اب کہنا بجا ہو گا کہ مذہب دور کسی کونے میں بیٹھا روتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments