ہمارے جذباتی رویے


انہی دنوں اسی سائٹ (ہم سب) پر دو ایک کالم (کفار کی ٹیلی سکوپ اور کرسمس وش کرنا) پڑھے اور یہ دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا کہ وطن عزیز میں کچھ اہل عقل لوگوں کا وجود ابھی باقی ہے ورنہ تو کند اور متعصب ذہنیت اور سونے پہ سہاگہ خوش فہمیوں کی شکار عوام کی اتنی بہتات ہے کہ سچ بولنے یا سننے والوں کا وجود ناپید لگتا ہے۔ کیونکہ یہاں سچ بولنا یا حقیقت بیان کرنا ایسا ہے کہ ”آ بیل مجھے مار“ جس کی بڑی مثال کفار کی ٹیلی سکوپ کے رائٹر نے ایک جگہ پر مزید لکھنے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے ”مجھے اپنی گردن بھی عزیز ہے“ ۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں جو سچ بولتا ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی بیرونی ایجنڈے پہ کام کر رہا ہے، کیونکہ سب کو علم ہے کہ ویسے تو یہاں کوئی سچ بولتا نہیں، اگر یہ سچ بول رہا ہے تو یقیناً بیرونی ایجنڈے پہ ہی کام کر رہا ہو گا۔ وجہ یہ کہ کوئی سچ بول دے تو ہمارے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں اور اگر ہمارے جذبات مجروح ہو جائیں تو پھر ہم کچھ نہیں دیکھتے، کسی کی گردن اڑانے، زندہ جلانے، گولیاں داغنے وغیرہ سے بھی گریز نہیں کرتے، کیونکہ ”ہمارے جذبات“ تو ”کسی کی زندگی“ سے کہیں زیادہ عزیز ہیں، حتیٰ کہ کوئی کتنے بچوں کا باپ یا ماں ہو یا کسی کا اکلوتا لخت جگر ہویا وہ اپنے خاندان کا واحد سہارا ہو یا وہ کہیں بیچارہ دماغی توازن ہی کیوں نا کھو بیٹھا ہو، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں، ہاں ہمیں تو اس سے غرض ہے کہ ہمارے جذبات نہ مجروح ہو جائیں، کیونکہ ہمارے جذبات تو کتنی بھی زندگیوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ نا جانے دیگر اسلامی ممالک کے باسیوں کے جذبات کہاں فوت ہو چکے ہیں، نہ وہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لئے اپنی پولیس کو مارتے ہیں، نہ ریاستی املاک تباہ کرتے ہیں۔ نہ آئے روز ناموس رسالت کے نام پہ لوگوں کو زندہ جلاتے ہیں۔

ویسے تو ہماری اوقات یہ ہے کہ نسل انسانی کی تاریخ کے اوراق پلٹ کے دیکھ لیں ہمارے خطے نے کسی بھی شعبہ زندگی میں کوئی ایسے عظیم لوگ تو پیدا کیے نہیں جن کا نام ہم بھی فخر سے لے سکیں خواہ وہ مثبت فیلڈ ہو یا منفی۔ آپ بڑے مذاہب (یہودی، مسیحی، مسلم) کے بانی دیکھ لیں اسرائیل یا عرب میں آئے، دیگر انبیاء بھی انہی علاقوں میں آئے، مذہبی رہنماؤں میں مارٹن لوتھر، مدر ٹریسا، ڈاکٹر روتھ فاؤ جیسے نام بھی یورپ میں گزرے۔

بڑے عالمی لیول کے ادیب، فلاسفر جیسا کہ سقراط، ارسطو، افلاطون، جبران خلیل جبران، شیکسپئیر، نٹشے وغیرہ سبھی عرب یورپ وغیرہ میں گزرے۔ عالمی سیاستدان، جنگجو فرعون، نمرود، موزے تنگ، ہٹلر، چرچل، منڈیلا وغیرہ۔ سائنس و ایجادات کی بات کریں تو آئن سٹائن، نیوٹن، ایڈیسن، گلیلیو، البیرونی، الخوارزمی وغیرہ تو کوئی بھی ہمارا خطہ پیدا نہیں کر سکا۔ ہاں! البتہ ہم نے دنیا میں نام کمایا ہے تو جذباتی لوگوں کی کثرت والوں کے نام سے۔

گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک خبر نظر سے گزری کہ سنی لیون کے ایک گانے ”مدھو بن میں رادھیکا ناچے رے“ پر انڈیا میں خاصا شور شرابا ہوا ہے اور اس گانے کو فلم میں سے ہٹانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ چونکہ ”رادھا“ ہندوؤں کی دیوی ہے اس لیے اس کے نام کے ساتھ جوڑ کر ایسا گانا بنانا ہندؤوں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے۔ اسی طرح جب ”اوہ مائی گاڈ“ فلم بنی تھی تب بھی کتنے ہی سینما گھر جلا دیے گئے، اور اس فلم کے اداکاروں کو جان بچانے کے لئے ادھر ادھر بھاگنا پڑا تھا وغیرہ وغیرہ۔

اس سے ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ ہمارے خطہ خاص کر پاک و ہند کے باسیوں کا باوا آدم ہی کچھ نرالا ہے۔ ہم ایسے مزاج والے لوگ ہیں جنہیں صرف اپنے حقوق کا علم ہے فرائض سے قطعاً غافل ہیں۔ ہمیں اپنے جذبات مجروح ہونے کا ہر وقت اندیشہ رہتا ہے، چھوٹی چھوٹی بات پر ہمارے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں مگر ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہمارے کردار سے دوسروں کے بھی جذبات تو مجروح نہیں ہوتے۔ ہم کسی کے بارے میں سب کچھ کہنے کا حق رکھتے ہیں مگر کوئی اور ہمارے بارے میں ایسی بات نہ کرے کہ ہمارے جذبات مجروح ہو جائیں۔

اور پھر اس کے بعد نتائج کیا ہوں گے وہ تو سبھی جانتے ہی ہیں۔ ادھر ہم جب اپنے نصاب میں بڑے فخر سے بچوں کی ذہن سازی کرتے ہوئے یہ پڑھاتے ہیں کہ محمد بن قاسم نے سومنات کا مندر توڑا تو کبھی یہ سوچا کہ یہی نصاب پاکستان میں بسنے والے اقلیتی بچے جن میں ہندو بھی شامل ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور کیا اس بات سے ان کے جذبات مجروح نہیں ہوتے؟ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں نے عیسائیوں کو بہت مارا اور بیت المقدس پر قبضہ کر لیا وغیرہ تو یہ نہیں سوچتے کہ اقلیتی بچے جن میں مسیحی بھی ہیں ان کے بھی جذبات مجروح ہوتے ہیں؟

جب ترکی ایک چرچ (آیا صوفیہ) کو مسجد میں تبدیل کر لیتا ہے تب ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے لیکن ذرا سوچیں اگر یہی کام یورپ امریکہ، کسی کرسچن ملک میں کسی مسجد کے ساتھ کیا ہوتا تو فیض آباد بند ہونے سے شروع ہو کر سارا پاکستان بند ہو جانا تھا کہ اسلاموفوبیا عروج پر پہنچ گیا وغیرہ وغیرہ۔ ذرا سوچیں، کیا اس سے مسیحیوں کے جذبات مجروح نہیں ہوئے؟ لیکن کیا کسی بھی ملک میں مسیحیوں نے ہماری طرح ہنگامہ آرائی کی؟

اسی طرح ہندوؤں کا حال دیکھ لیں، ایک طرف خود کو سیکولر کہتے ہوئے نہیں تھکتے اور دوسری طرف تنگ نظری اور تعصب ہم سے بھی دو ہاتھ آگے۔ جب بابری مسجد پر حملہ کیا تو سوچا کہ مندر پر حملہ ہونا تو بری بات ہے لیکن مسجد پہ حملہ مسلم کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے؟ خود گوشت نہیں کھانا تو نہ کھاؤ مگر اپنے ساتھ بسنے والی اقلیتوں پر تو پابندی مت لگاؤ۔ آپ اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ بھارت جیسے خود کو سیکولر کہنے والے نام نہاد ملک میں کوئی گائے ذبح نہیں کر سکتا اور نا چاہتے ہوئے بہت لوگ ویجیٹیرین بن چکے ہیں۔

آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ جو وقت گزر گیا سو گزر گیا، اب ہم بھی اپنے جذباتی رویوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس طرح بچوں کی ذہن سازی کر کے نفرت اور تعصب کے بیج بوئے ہیں اب اخلاقی معیار بلند کرنے کا درس دیں، رواداری، مساوی حقوق کے خیال کا سبق سکھائیں۔ جس طرح کفار نے ایجادات کر کے سب کے لئے سہولیات کے سامان بہم مہیا کیے اسی طرح ہم بھی اپنے بچوں کے ذہنوں میں دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کے لئے عالمی لیول کے لوگوں کے معیار کا نمونہ دکھا کر کچھ کر گزرنے کا حوصلہ پیدا کریں اور چیلنج دیں۔ تو شاید آنے والے کل ہم بھی اس ترقی میں جو دنیا نے کی اور دن بدن کر رہی ہے اور جس سے ہم بھی استفادہ کرتے ہیں، ہم بھی اس ترقی میں کچھ حصہ ڈال سکیں۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments