انڈیا میں 2021 کے ادب کا جائزہ


2021 کا ادبی جائزہ لینے بیٹھا تو  ایک قیدی کا مکالمہ یاد آ گیا۔ ایک بے رحم بادشاہ نے اپنے تین قیدیوں کو سزائے موت سنائی۔

”میں بادشاہ سلامت کے گھوڑے کو اڑنا سکھا سکتا ہوں۔“
قیدیوں میں سے ایک نے کہا۔
جان بخش دی گئی۔ دوبارہ حکم ہوا۔
”اگر ایک برس کے اندر میرے گھوڑے نے اڑنا نہ سیکھا تو تمہیں قتل کر دیا جائے گا۔“
”مجھے منظور ہے۔“ اس نے پھر کہا۔
”کیا تم سچ میں پاگل ہو گئے ہو؟ بھلا گھوڑا بھی اڑا ہے؟“ ساتھی قیدیوں نے اسے تعصبانہ نگاہوں سے دیکھا۔

”میں نے زندگی نہیں مانگی۔ خود کو آزاد کرنے کے چار مواقع حاصل کیے ہیں۔ ایک برس کے اندر بادشاہ مر سکتا ہے۔ میں مر سکتا ہوں۔ گھوڑا مر سکتا ہے۔ یا یہ کہ میں گھوڑے کو اڑنا بھی سکھا سکتا ہوں۔“

قیدی کی طرح ہم میں سے ہر ایک اسی امکان پہ زندہ ہے۔ نہ جانے کب چراغ بجھ جائے اور ایک گھنا اندھیرا آئے اور ہمیں لے ڈوبے۔ 2021۔ چراغ کہاں نہ بجھے؟ صرف ہندوستان بھر میں لاکھوں انسان تاریخ میں کبھی نہ وقوع پذیر ہونے والے مرگ انبوہ کا حصہ بن گئے۔ ان میں وہ بھی تھے جو، سیاسی اسٹیج سے ہمیں بہلاتے آئے تھے۔ وہ بھی تھے جنہوں نے، پورے ملک میں ایک خاص طبقے کے خلاف زہر افشانی کی تھی۔ وہ بھی تھے جو ہماری کائنات کو محبت کی نگاہوں سے چومتے تھے۔ وہ بھی تھے، جن کی آوازیں ظلم کے خلاف ہمیشہ بلند رہی تھیں۔ وہ بھی تھے جو، اپنی نسل نو کے لیے بہت کچھ کر گزرنا چاہتے تھے۔ اور وہ بھی جو، اپنی پوری زندگی ادب کی آغوش میں گزارنے کے دعویدار تھے۔

وبا نے کسی کو نہ چھوڑا۔ مردوں کے لیے زمین تنگ ہو گئی۔ انسان جلائے گئے اور فضاء میں سیاہ دھند کے مرغولے بادلوں کی طرح بکھر گئے۔ گنگا جسے ہندؤں سے ماں کا لقب تہذیبی و سنسکرتی ورثے میں ملا ہے، اور اس جیسی بڑی بڑی ندیوں میں اندوختہ لاتعداد لاوارث لاشیں پانی کی سطح پر تیر نے لگیں۔ چوپایے اور گدھ انہیں نوچ نوچ کر کھا گئے۔ اور انہیں کوئی دیکھنے والا نہ بچا۔ اس سخت گھٹن اور حبس زدہ ماحول نے ادبی خانقاہوں کا بھی راستہ دیکھ لیا۔

اردو نے اپنے بڑے بڑے ادیب اور شاعر کھو دیے۔ اردو ناول کی دنیا کا ایک بڑا نام مشرف عالم ذوقی، نمایاں فکشن نویس اور شاعرہ تبسم فاطمہ، معروف صحافی ریاض عظیم آبادی، زود نویس قلمکار مناظر عاشق ہرگانوی، سلطان اختر، شوکت حیات، ممتاز نقاد شمیم حنفی، افتخار امام صدیقی، پروفیسر ظفیر الدین، پروفیسر مولی بخش، پروفیسر ممتاز احمد خاں، وجاہت فاروقی، سیف سہسرامی، سید رضا حیدر، کمال جعفری، ترنم ریاض، رتن سنگھ، اشرف مولا نگری، حسن احمد قادری، فرقان سنبھلی اور حسین الحق جیسے جینوئن ادیبوں نے ہماری دنیا کو الوداع کہہ دیا۔

ایسوں کی ناگہانی موت پر اردو ہمیشہ خود پر ماتم کرے گی۔ تیز آندھی کی طرح گزر جانے والے اس ایک برس کا ہر لمحہ اتنا سفاک گزرا کہ کئی رسائل و جریدے کی اشاعت رک گئی۔ تفہیم، اثبات، جہان اردو، آج کل، ایوان اردو، عالمی فلک اور دربھنگہ ٹائمز جیسے رسالے پابندی سے شائع ہوئے۔ کمال یہ کہ ذوقی کے مرگ انبوہ سیریز کے دو ناول ”صحرائے لایعنی“ اور ”ہائی وے پہ کھڑا آدمی“ دونوں ایک ساتھ میٹر لنک سے شائع ہویے۔ صدیق عالم کا نیا ناول ”مرزبوم“ اور اشعر نجمی کا پہلا ناول ”اس نے کہا تھا“ منظر عام پر آیا۔ ہندوستان میں یوپی ایس سی کے امتحان کو یاں کے لوگوں نے آسمان سے ستارہ توڑ لانے سے تشبیہ دی ہے۔ اردو کے ایک طالب علم نے اسی ستارے کو زمین پر اتارنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ اردو کے لیے اور ہندوستانی نسل نو کے لیے بڑی خوش آئند بات ہے۔

اجمالی طور پر کم و بیش 2021 میں یہی کچھ ہے۔ کچھ خوش کن خبریں ہیں تو کچھ بڑی اندوہناک اور ناقابل یقین حادثے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ 2020 کی طرح یہ سال بھی اردو کے لیے ہلاکت و بربادی کا سال ثابت ہوا۔ مگر 2022 کیسا ہو گا؟ اس کا جواب ہم اومیکرون کے قید میں رہ کر تو نہیں دے سکتے۔

بس امکان ہے کہ ابھی ہم جئیں گے
ہمیں منزل کا پتا ہے نہ سراغ کوئی کامیابی کا
پھر بھی
خشمناک لہروں کی طرح ساحل پہ
جھومیں گے اور گائیں گے
ہم اداس ہوں / یا ہوں مایوسی کے شکنجے میں
تب بھی چلیں گے
کہ ہماری زبان کے سناٹے میں جب تک زندگی کی حرکت برقرار رہے گی
ہم چلتے رہیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments