کیا سوال اٹھانا جرم ہے؟


تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سوال اٹھانے کا جرم قدیم ہے۔ اس کی پاداش میں مارے جانا، ہمسر زندان ہونا، مصائب و آلام کا جھیلنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ سوال کے جرم کی سزا سے تو موسیٰ بھی بچ نہیں پائے۔ حضرت خضر  نے موسیٰ سے اپنی راہیں جدا کرلی۔ حالانکہ موسیٰ کا سوال اٹھانا فطری امر تھا۔ حضرت خضر کے منع کرنے کے باوجود موسیٰ کا یوں گویا ہونا، کم فہمی، کم علمی کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ حالات اور واقعات تھے، جنہیں دیکھنے کے بعد ولی خدا کے لیے خاموش رہنا ناممکن تھا۔

موسیٰ کا فرعون سے ٹکرانا، دربدر ہونا، سختیوں کا جھیلنا، سوال کا نتیجہ تھا۔ سوال اٹھانے کے جرم میں ہی ابراہیم کو آگ میں دھکیلا گیا۔ سوال اٹھانے کا عمل ہی تو ہے جو انسان کو مقام اشرف عطا کرتا ہے۔ اشراف المخلوقات کا جو مقام انسان کو ملا ہے، وہ بلا سبب و مقصد نہیں۔ سوال کی قوت صرف انسان کے پاس ہے، یہ انسان کی وہ صفت ہے جو دیگر مخلوقات سے اس کو ممتاز کرتی ہے۔ سوال اٹھانے والے عام لوگوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں، ان کی عقل، فہم و فراست، سوچ و فکر اور بصیرت و بصارت عام لوگوں سے ذرا ہٹ کے ہوتی ہے۔

وہ حالات واقعات کو ، سماجی نظام کو ، قدرت کی رعنائی کو مختلف زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ سوال اٹھانے کا رواج تو صدیوں پرانا ہے مگر سوال اٹھانے والوں کی تعداد ہر صدی میں محدود رہی ہے۔ سوال اٹھانے والے نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوتے ہیں۔ سوال، جہاں سوال اٹھانے اور جواب دینے والوں کو مشکل میں ڈال دیتا ہے، وہی علم و تحقیق کے بند دریچے کھولنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہی سوال کی طاقت ہے، جس نے انسان کو پتھروں، غاروں اور درختوں کے خول سے نکال کر پر تعیش زندگی کی جانب مائل کیا۔

پتھروں کے خول سے انٹرنیٹ کے خول تک کا سفر سوال ہی کی مرہون منت ہے۔ یہ فہم سوال ہی کا نتیجہ تھا، کہ درخت سے گرتے پھل کے معمولی واقعے پر سوال اٹھا یا اور کشش ثقل کا قانون پیش کر کے رہتی دنیا تک امر ہو گئے۔ میں بات نیوٹن کی کر رہا ہوں۔ حالانکہ اس سے قبل بھی خس و خاشاک، پتھر، پھل اور پھول وغیرہ خلا میں تحلیل نہیں ہوا کرتے بلکہ زمین پر ہی گھیرتے تھے، فرق صرف اتنا تھا کہ سوال اٹھانے والا کوئی نہ تھا۔ کارل مارکس سے پہلے بھی غریب تھے، سرمایہ دار تھے، دولت مند تھے، سرمایہ سمیٹنے والے تھے، کارل مارکس نے سوال اٹھایا اور کہا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دولت چند گھروں کی رکھیل بنی رہے۔

سر سید کو ہی دیکھ لیجیے سوال اٹھایا۔ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہوتے بچ گئے، علامہ اقبال نے سوال اٹھایا تو کفر کے فتوے لگے اور یہ سلسلہ آج تک تھم نہ سکا۔ ایران کے ایک اسکالر آیت اللہ جواد عاملی سوال اور جواب کے بارے میں لکھتے ہیں ”کہ سوال و جواب کا مقام حیات علمی میں وہی ہے جو حیات حیوانی میں نر اور مادہ کا ہوتا ہے، حیات حیوانی میں اگر نر اور مادہ میں سے کوئی ایک بھی با نجھ یا عقیم ہو جائے تو نسل حیوانی کا سلسلہ روک جاتا ہے، اسی طرح سے حیات علمی میں سوال یا جواب دونوں میں سے کوئی ایک بھی اگر عقیم ہو تو حیات علمی متروک ہوجاتی ہے“ اس قاعدہ کی رو سے تو ہمارا نظام ہی با نجھ ہو چکا ہے۔

تعلیمی اداروں میں سوال و جواب دونوں عقیم ہیں۔ سوال میں اگر علمی تولیدی صلاحیت ہو تو بھی جواب دینے والے جواب کی بجائے سوال کی تولیدی صلاحیت ختم کرنے کے در پے ہوتے ہیں۔ سوال اٹھانے والوں کے ساتھ ہمارا مجموعی سلوک اچھوتوں جیسا ہے، آج کل سوال اٹھانے والوں سے رسمی تعلقات تک منقطع کیا جا رہا ہے۔ سوال اٹھانے والے کا انجام اکثر بھیانک ہوتا ہے۔ قیام پاکستان سے تاحال وطن عزیز میں سوال اٹھانے والے، بذات خود سوال بن گئے ہیں، ایسا سوال جس کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔

ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں بھی سوال کا سلسلہ متروک ہوتا چلا آ رہا ہے۔ جامعات میں بڑی کھیپ ایسے اساتذہ پر مشتمل ہوتی ہے جو اعلیٰ سند یافتہ تو ہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں، ایسے اساتذہ کی بڑی کھیپ پنپ رہی ہے جو علمی بانجھ پن کا شکا ر ہیں۔ ایسے میں ہمیں صحت مند علمی، تحقیقی، فلسفی اور تخلیقی نسل کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ یہی تعلیمی و تدریسی بانجھ پن کے عناصر ہیں جن کی بدولت جامعات کا نظام روبہ زوال ہے اور اقبال کے شاہین آج کرگس کی چال چل رہے ہیں۔

دنیا بھر کی جامعات تحقیق، تخلیق اور ریسرچ کی جانب گامزن ہیں، لیکن ہماری جامعات ہر سال علمی بانجھ شدہ افراد کی بڑی کھیپ ملک کو مہیا کر رہی ہیں۔ قوموں کی ترقی نوجوانوں سے ہے اور ہمارے ملک کے نوجوان تنقید اور تحقیق کی بجائے تقلید کو باعث زینت سمجھتے ہیں، اس لیے کہ ان کی تعلیمی پرورش جس ماحول میں ہوئی ہے وہاں تقلیدی رواج عام ہے۔ وہاں طلباء سے تخلیق و تحقیق کی جگہ پیسے لے کر کمرہ جماعت سجانے کے عمل کو اپنی منفرد تخلیقی صلاحیت سمجھا جاتا ہے ۔

اس تعلیمی نظام کے ہوتے ہوئے ملکی ترقی، ہنوز دلی دور است۔ پس اگر ملک کے حالات کو بدلنا ہے تو ، اس نظام میں تبدیلی درکار ہے، علمی بانجھ پن کو ختم کرنا ہو گا، جامعات میں تعلقات کی بنا پر سند یافتہ اساتذہ کی جگہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، کردار یافتہ، اخلاق یافتہ، محققین اور ناقدین کو موقع دینا ہو گا۔ اساتذہ کی تعیناتی تعلقات، سفارش، پسند و ناپسند کی بجائے اہلیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ تاکہ جامعات میں جنسی ہراسانی، تشدد، بلیک میلنگ اور دھونس دھمکیوں کے واقعات کم ہوں۔ دوران تدریس اساتذہ کی گفتگو دلائل، تاریخی حقائق، تحقیق اور علمی استدلال سے مزین ہو نہ کہ دھمکیوں سے لبریز۔ تاکہ سوال اٹھانے والوں کی حوصلہ افزائی ہو، تخلیقی رجحان کے حامل طلباء کو آگے بڑھنے کا موقع ملے نہ کہ مالشی اور پالشی نظام میں منڈلاتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments