بیگم شریف الدین پیرزادہ کا قتل


صدر ایوب خان کے بھتیجے کا قتل“ کے عنوان سے ہم سب میں شائع ہونے والے اپنے مضمون کے ابتدائیہ میں اس امر کی وضاحت کر دی گئی تھی کہ یہ واقعہ ”کیا کیا نہ دیکھا“ کے نام سے شائع ہونے والی صحافی منیر احمد منیر کی کتاب سے لیا گیا تھا۔ یہ کتاب پولیس سروس آف پاکستان کے اجلی شہرت رکھنے والے افسر حاجی حبیب الرحمن نے ایک طویل انٹرویو پر مبنی ہے جو انہوں نے منیر احمد منیر کو دیا تھا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے اے ایس پی سے لے کر آئی جی سندھ/ پنجاب کے ادوار تک پیش آنے والے مختلف واقعات بیان کیے تھے۔ آج میں جس واقعے کا ذکر کر رہا ہوں اس کا تعلق ان کی سروس کے ابتدائی سالوں سے ہے۔

یہ واقعہ اس وقت کے دارالحکومت کراچی میں شریف الدین پیرزادہ کے گھر میں پیش آیا تھا۔ اس وقت آپ ایک معروف وکیل تھے۔ بعد کی زندگی میں آپ بہت اہم حیثیتوں میں مختلف حکومتوں سے وابستہ رہے۔ ان میں دو دفعہ اٹارنی جنرل اور دو مرتبہ وفاقی وزیر ہونا بھی شامل تھا۔

آپ پاکستان کے نویں وزیر خارجہ تھے اور آپ نے ذوالفقار علی بھٹو کی جگہ لی تھی۔ آپ تقریباً ایک سال تک وزیر خارجہ رہے۔ اس کے بعد آپ پہلی مرتبہ 1968 تا 1971 اور دوسری مرتبہ 1977 تا 1984 اٹارنی جنرل رہے۔ آپ 1985 تا 1988 او آئی سی کے سیکریٹری جنرل بھی رہے۔ ایسا بڑا اعزاز کسی پاکستانی کو نہ پہلے کبھی حاصل رہا اور نہ کبھی بعد میں۔ علاوہ ازیں آپ نے بے شمار بین الاقوامی اداروں / کانفرنسوں میں پاکستانی وفود کے سربراہ کی حیثیت سے شرکت بھی کرتے رہے۔

صدر ضیا الحق کے وہ بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ارشاد احمد خان نے اپنی کتاب ”ارشاد نامہ“ میں لکھا ہے کہ صدر ضیا الحق ان کی آئینی اور قانونی معاملات پہ گرفت کے بہت قائل تھے اور انہیں استاد کہہ کر پکارتے تھے۔ تمام جج ان سے ڈرتے تھے کہ نامعلوم کب کوئی نیا پی سی او لے آئیں۔ جنرل پرویز مشرف نے انہیں اپنا مشیر خاص مقر ر کیا تھا اور ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے مساوی تھا۔ اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت میں انہیں نشان امتیاز جیسے بڑے قومی اعزاز سے نوازا گیا تھا۔

حاجی حبیب الرحمن بیان کرتے ہیں کہ جب وہ کراچی میں ایس پی ایسٹ تھے ایک دن انہیں ایس ایچ او فیروز آباد کا فون آیا۔ اس نے بتایا کہ کے ڈی اے کے علاقہ میں شریف الدین صاحب کی بیگم کا ان کی رہائش گاہ پر قتل ہو گیا ہے۔ میں جلدی سے موقع پر پہنچا۔ مقتولہ کی نعش ان کے بیڈ روم میں پڑی تھی۔ کمرے میں ایک ڈبل بیڈ تھا جس پہ حسب معمول میاں بیوی سوئے تھے۔ پیرزادہ صاحب کے سفید کرتے پر خون کے نشانات تھے۔ دو سامنے کی طرف اور ایک ذرا ہٹ کے۔

مقتولہ پہ چاقو سے کئی وار کیے گئے تھے۔ پیرزادہ صاحب نے ایف آئی آر میں لکھوایا کہ میری بیوی سرہانے کے نیچے گھر کی چابیاں اور پرس رکھ کے سوتی تھی۔ ایک آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ جب چابیاں اور پرس نکالنے لگا تو میری بیوی کی آنکھ کھل گئی۔ بیوی نے مزاحمت کی تو اس نے چاقو سے پے درپے وار کرنے شروع کر دیے۔ اس دوران میں بھی جاگ گیا۔ بیوی کو بچانے کی کوشش میں مجھ پر بھی وار ہوئے اور مجھے زخم آئے۔

مقدمہ درج ہو گیا۔ چو نکہ کیس عام نوعیت کا نہیں تھا اس لیے میں نے اس کی تفتیش خود کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب میڈیکل رپورٹ آئی تو اس میں پیرزادہ صاحب کے زخم معمولی نوعیت کے بتائے گئے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ کہیں خود لگائے گئے زخم تو نہیں۔ ڈاکٹر نے جواب دیا ہو سکتا ہے۔ اس رائے، موقع کے شواہد اور کچھ اور معلومات کی بنیاد پر میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ پیرزادہ صاحب ہی قاتل ہیں۔ لیکن ان کے سماجی مرتبے کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ سامنے لانا ایسا آسان نہیں تھا۔

میں آئی جی نوابزادہ فرید خان کے علم میں یہ نتیجہ لایا۔ آپ کا تعلق اس وقت کے ضلع ہزارہ کی ایک چھوٹی سی ریاست پھلڑا سے تھا جو اب ضلع مانسہرہ کا حصہ ہے۔ صدر ایوب خان انہیں بڑی عزت دیتے تھے۔ انہوں نے پوری فائل پڑھی، مجھ سے اتفاق کیا اور مجھے Go ahead دے دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ

Its is goinq to be a big news۔

دوسری طرف جب پیرزادہ صاحب کو اس نتیجے کی سن گن ملی تو انہوں نے اپنا ہنر دکھایا۔ ایس ایچ او کو بلا کے کہا کہ قاتل ٹریس ہو گیا ہے۔ وہ میرا خانساماں تھا۔ اس کی آئے دن کی لاپرواہیوں کی وجہ سے اسے بیگم صاحبہ نے بے عزت کر کے نکال دیا تھا جس کا بدلہ لینے کو اس نے یہ جرم کیا۔ انہوں نے خود ہی اس خانساماں کو ایس ایچ او کے حوالے کیا۔ اس نے ایس ایچ او کے روبرو اقبال جرم بھی کر لیا۔

بعد میں اس سے مزید پوچھ گچھ ہوئی۔ اس سے جب یہ سوال کیا گیا کی اسے تو گھر سے نکال دیا گیا تھا پھر وہ اندر کیسے آیا۔ اس نے کہا میرے پاس گھر کی ڈپلیکیٹ چابی ہوا کرتی تھی جو میں ساتھ لے گیا تھا۔ لگتا تھا کہ اسے جو پٹی پڑھائی گئی تھی اس پہ مکمل طور پر عمل پیرا تھا۔ اسے جب عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ مکر گیا اور بیان دیا کہ قتل اس نے نہیں کیا تھا۔ چنانچہ نتیجہ تفتیش اور پولیس کی بے بسی بس اپنا سا منہ لے کے رہ گئے۔

اس کہانی میں چشم کشا موڑ اس وقت آیا جب بیگم کے قتل کے چند ہفتوں بعد پیرزادہ صاحب نے دوسری شادی کر لی، اپنی سالی سے۔

صدر ایوب خان کے بھتیجے کا قتل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments