عفرا بخاری اور سنگ سیاہ کے افسانے


دسمبر کی چھٹیوں سے غالباً ایک یا دو دن پہلے زمیندار کالج گجرات کی پارکنگ میں میری ملاقات احمد عطا سے ہوئی۔ احمد عطا نے ایک کتاب مجھے دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے دوست عامر فراز کی والدہ کا افسانوی مجموعہ ”سنگ سیاہ“ ہے۔ سرورق پر کتاب کے نام کے نیچے بنی تین تصویروں کو میں نے بغور دیکھتے ہوئے کہا کتاب کے نام کی مناسبت سے ٹائٹل پر سیاہ پس منظر میں بنے یہ تین نسائی چہرے بڑے با معانی ہیں۔ کتاب کی چھپائی، سیٹنگ اور حسن ترتیب کی نفاست سے خوش ہوتے ہوئے میں نے احمد عطا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ چھٹیوں میں نہ صرف یہ افسانے پڑھے جائیں گے بلکہ کوشش کروں گا کہ کتاب پر اپنی بساط کے مطابق کچھ لکھوں۔

بات آئی گئی ہو گئی۔ دو تین دن پہلے کتاب پر میری نظر پڑی اور میں نے ایسے ہی ورق گردانی کرتے ہوئے، بیٹھے بیٹھے پہلے تین افسانے پڑھ لیے۔ اچانک خیال آیا کہ میں نے احمد سے وعدہ کیا تھا کہ ان افسانوں پر کچھ لکھوں گا۔ اسی سوچ کے ساتھ میں نے کتاب پر ہی نکات نوٹ کرنا شروع کر دیے۔ مورخہ 3 جنوری 2022 کو جب میں نے کتاب پر مضمون لکھنا شروع کیا اور ابھی ایک دو پیرا گراف ہی لکھے ہوں گے کہ فیس بک پر حماد نیازی کی ایک پوسٹ پڑھی کہ عفرا بخاری انتقال کر گئی ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

میں کافی دیر عماد نیازی کی پوسٹ پر لگی عفرا بخاری کی تصویر کو دیکھتا رہا۔ پتا نہیں مجھے کیوں لگنے لگا جیسے ”سنگ سیاہ“ کے پہلے افسانے ”بے چہرہ لوگ“ کی سفید بالوں والی متوحش اور خوف زدہ ماں ہم سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہی ہے۔

” گاڑی آہستہ چلانا۔ گانے مت لگانا۔ موبائل فون بند رکھنا۔ شہر کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ گھر کے لوگوں کو ہی دیکھو۔ کتنا بھرا بھرا گھر تھا۔ آہستہ آہستہ کتنے کم رہ گئے ہیں ہم۔ یہ بھی کسی نہ کسی دن غائب ہو جائیں گے۔ “ ( بے چہرہ لوگ )

” سنگ سیاہ“ کے افسانوں کے ذریعے میں پہلی دفعہ عفرا بخاری سے متعارف ہوا ہوں۔ لیکن ان افسانوں کو پڑھ کر مجھے لگ رہا ہے۔ جس طرح میرے جیسے، بہت سے بے خبر لوگ جو عفرا بخاری کو ان کی حیات میں نہیں پہچان سکے۔ وہ کم از کم ان کے افسانوں میں موجود اس عورت کو ضرور پہچان لیں گے جو عفرا کی قائم مقام ہے۔

فیس بک کی مختلف پوسٹوں پر لگی ہوئیں عفرا بخاری کی تصاویر سے مجھے یوں لگ رہا تھا۔ جیسے ”سنگ سیاہ“ کے سبھی نسائی کرداروں کا دکھ اور کرب ان کی آنکھوں میں رواں ہیں۔ کبھی وہ مجھے زینب کی ماں لگتیں، کبھی اکی بھائی کی بہن، چھنو کی معصومیت بھی ان کی آنکھوں سے عیاں تھی اور روزن افسانے میں، گھر کے کونے میں پڑی دادی کا عکس بھی ان کے چہرے کی جھریوں میں دیکھا جا سکتا تھا۔ اسی طرح افسانہ ”آزمائش“ کی خالہ کے آخری سفر کا بیانیہ ”خالہ کیسی شاندار اور پر وقار تھیں۔

سفید براق لباس میں وہ سچ مچ بے پر کا فرشتہ لگتی تھیں۔ ایک طرف خالہ کی خالی چار پائی پڑی تھی۔ خالہ کو غسل کے لیے باہر لے جایا جا چکا تھا۔ غسل خانے کے سامنے سفید چادر کا پردہ تنا تھا۔ موت کے اندھیرے غار میں اترنا کس قدر روح فرسا ہے۔ قبر کی گہری دبیز تاریکی۔ زندگی موت کی دہلیز پر سرنگوں تھی۔ “ سردست اس مقام پر شاید میر کا یہی شعر ہمیں حوصلہ دے۔

موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

بہرکیف ہم آگے بڑھتے ہیں۔ عفرا بخاری کے اس نئے افسانوی مجموعے میں شامل اس ”کتاب میں“ کے عنوان سے موجود پہلی تحریر سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ”سنگ سیاہ“ (عکس پبلیکیشنز لاہور) کی اشاعت 2021 سے بہت پہلے انھوں نے افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز 1959 میں ”لیل و نہار“ سے کیا۔ مذکورہ افسانوی مخزن سے پہلے ان کے چار افسانوی مجموعے (فاصلے 1965، نجات 1998، ریت میں پاؤں 2003 اور آنکھ اور اندھیرا 2009 ) اشاعت پذیر ہوچکے تھے۔ ان کے حالیہ مجموعے میں دس افسانے شامل ہیں۔ 160 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے فلیپ پر ریاض احمد، ڈاکٹر سہیل احمد خان، خلیق احمد خلیق، آصف فرخی اور محمد سلیم الرحمن کی آرا درج ہیں۔

عفرا کے افسانے روایتی افسانے کے برعکس محض واقعات کے بہاؤ سے نہیں ابھرتے بلکہ اس احساس سے منصۂ شہود پر آتے ہیں جو خارجی دنیا کی ہمہ ہمی میں دھیرے دھیرے تخلیق کے پیراہن میں اترتا ہے۔ زندگی کے نئے طرز احساس میں رچے بسے ان افسانوں میں شہر کی تیز رفتار اور بدلی ہوئی زندگی سے خوف زدہ نسائی کردار بھی ہیں اور خواہشات کے ملبے تلے دبی وہ خواتین بھی ہیں جو کسی خواب کی تلاش میں بے سمت تاریکی کو روشنی سمجھ کر سر راہ گری پڑی ہیں۔

”نامحرم“ میں شادی شدہ جوڑے کی داخلی کشاکش سے ابھرنے والی بے کیف زندگی اور چھنو کے لا ابالی بچپن میں مضمر کم سنی کی وہ بالغ نظری بھی ہے جو مار کھا کر بھی اپنا مطلب پورا کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ عفرا گرد و پیش کے ماحول اور اشیا کے بیان سے اپنے کرداروں کی ذہنی الجھنوں کو افسانہ بناتی ہیں۔ واقعاتی تجسس کے بغیر وہ اپنے افسانوں کے کرداروں کی داخلی کشاکش سے کہانی کے بہاؤ کو ایک ایسے انجام تک لے جاتی ہیں جہاں زندگی کی کئی اور کہانیاں افسانہ بننے کے لیے بے تاب ہوتی ہیں۔

یہ وہ مقام ہے جہاں افسانہ واقعاتی تحیر سے نکل کر احساسات کی لامتناہی دنیا کو چھونے لگتا ہے۔ زندہ کہانیاں واقعات کے دلچسپ بیان تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ زندگی کے متنوع رنگوں سے جنم لینے والی ایسی کیفیات ہوتی ہیں جو نظم کے پیراہن میں اتر جائیں تو نظم بن جائیں اور نظم کے لباس سے نکل کر افسانوی وجود میں ڈھل جائیں تو افسانہ کہلائیں۔ عفرا کے افسانے بڑے سادہ اور عام فہم اسلوب میں اسی آہنگ کی تلاش میں نظر آتے۔

عفرا بخاری کا یہ افسانوی مجموعہ گھر آنگن کے روایتی جھگڑوں کا عکاس نہیں بلکہ وہ شہری ثقافت کے تناظر میں خواتین کے مختلف کرداروں سے زندگی کی نئی صورت حال سے جنم لینے والی ان نسائی کیفیات کی تصویریں پیش کرتا ہے جو موجودہ دور میں ہمارے خطے کی خواتین کے داخلی کرب کا باعث بن رہی ہیں۔ عفرا بڑی کامیابی کے ساتھ تیزی سے بدلتی ہوئی زندگی کے زیر اثر عورت کے اندر رونما ہونے والی دنیا کی تصویریں، تخلیقی پیرائے میں اجاگر کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ ان کے اس افسانوی مجموعے کا مرکز وہ عورت ہے جو گھر کے اندر اور باہر کی گہما گہمی میں دھیرے دھیرے تنہا ہوتی جا رہی ہے۔

”اگلے سال شاید سب کچھ یوں نہ ہو۔ زینب ہارن دے اور گیٹ پر کوئی موجود نہ ہو۔ وہ تپتی دوپہر یا رات کے اندھیرے میں تنہا اکیلی خود ہی گیٹ کھولے۔ “ ( بے چہرہ لوگ)

اس کے علاوہ عفرا نہ صرف اپنے اس افسانوی مجموعے میں بڑی مہارت سے شہری زندگی سے منسلک مختلف پہلوؤں، جگہوں اور اشیا مثلاً میڈیا، مہنگائی۔ گاڑیاں، موبائل، سڑکیں، ہسپتال، محلے، ٹریفک، آفس وغیرہ کو اپنے افسانوں کے کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں کو ابھارنے کے لیے استعمال کرتی ہیں بلکہ بین السطور یہ بھی بتاتی جاتی ہیں کہ ہمارے ہاں شہری زندگی کس رفتار سے خاندانی اور اجتماعی رونقوں اور غموں سے دور ہو کر فرد کی تنہائی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ شوکت کے اس شعر کی باز گشت عفرا کے کئی افسانوں میں سنائی دیتی ہے۔

شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا

آخر میں بس اتنا کہنا ہے۔ مصنف محض ایک شخص نہیں ہوتا بلکہ وہ معاشرتی، ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے اپنی تخلیقات میں، اپنے عہد کے تمام اشخاص کی مجموعی نفسیات کا عکس ہوتا ہے۔ اس لیے وہ کبھی مرتا نہیں۔ عفرا بخاری بلاشبہ اپنے افسانوں اور کرداروں کے ساتھ ہمیشہ ہمارے درمیان موجود رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments