اسرائیل میں یہودیوں کی نقل مکانی: قسط نمبر 7


اب تک جو بات میں نے پچھلے صفحات میں کی ہے اس کا تعلق صہیونی تحریک سے تھا۔ اس تحریک کے آغاز سے قبل اور بعد میں کس طرح یہودی نقل مکانی کر کے اسرائیل میں آباد ہوئے، یہ بھی جاننے کے لائق ہے۔

اگر میں یہ کہوں کہ پچھلے دو ہزار سال سے یہودی کبھی بھی یروشلم کی محبت سے آزاد نہیں ہوئے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ البتہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انیسویں صدی میں جب روس سمیت مشرقی یورپ میں ان پر زندگی تنگ کر دی گئی تو انہوں نے یروشلم آنے کے لیے ایک تحریک کا آغاز کیا۔ اس کا نام انہوں نے عالیہ (Aliyah) رکھ، یہ عبرانی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب اسرائیل کی طرف نقل مکانی کرنا۔ یاد رہے کہ اسرائیل کی حکومت قانون کے مطابق ہر یہودی کو اسرائیل آنے پر رہائش اور اسرائیلی شہریت دینے کی پابند ہے۔

تاریخ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سولہویں صدی کے وسط میں پرتگال میں موجود سلطنت عثمانیہ کی حمایت سے پرتگالی یہودیوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی دور میں سلیمان اول نے یورپ کے ساتھ رابطہ کر کے یہودیوں کو قید سے نجات دلائی۔ آج سے پانچ سو سال پہلے وہ ایک عملی کوشش تھی کہ فلسطین میں یہودیوں کا ایک سیاسی مرکز قائم کیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی کئی تاریخی واقعات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے دل میں یہودیوں کے لیے ایک نرم گوشہ ضرور موجود تھا لیکن جب سلطنت عثمانیہ پر برا وقت آیا تو انہی یہودیوں نے انگریزوں کا ساتھ دے کر ان کی سلطنت ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

انیسویں صدی میں ایک اور اہم واقعہ بھی ہوا ہے جو بہت ہی منفرد تھا۔ انیسویں صدی کے آغاز اور وسط میں یہودیوں کے درمیان فلسطین واپس جانے کے خیال پر کئی کانفرنسز ہوئی تھیں۔ جن میں ایک کثیر تعداد میں یہودی عالم (ربی) بھی اکٹھے ہوتے تھے۔ ایسی ہی ایک کانفرنس 1845 میں فرینکفرٹ میں ہوتی ہے۔ اس کانفرنس میں شریک اصلاح پسند یہودیوں نے فلسطین واپس جانے کے خیال کو رد کر دیا۔ اس کے علاوہ 1869 میں فلاڈیلفیا میں ہونے والی کانفرنس میں بھی یہ فیصلہ کیا گیا کہ ”اب ہم خود کو ایک قوم نہیں، بلکہ ایک مذہبی طبقہ سمجھتے ہیں اس لیے ہمیں کسی بھی طرح یہودی ریاست بنانی چاہیے لیکن وہ سب بے سود رہا۔ اس تمام بحث سے میرا یہ خیال مزید پختہ ہو گیا کہ یہودیوں کی فلسطین واپسی ایک مذہبی جذبے کے تحت نہیں بلکہ ایک سیاسی ضرورت تھی۔ کچھ تاریخ دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صیہونیت کا پرچار کرنے والے سیکولر یہودی تھے۔

یہودیوں کا بڑے پیمانے پر فلسطین آنے کا آغاز 1882 میں ہوا۔ یہ بات صہیونی تحریک کے آغاز سے کئی سال پہلے کی ہے۔ اس بات سے میرے اس خیال کی تائید بھی ہوتی ہے کہ یہودیوں نے ایک طویل عرصہ دنیا سے اپنا کاروبار اور گھر چھوڑ کر ایک ویران اور کم ترقی یافتہ علاقے میں رہائش رکھنا زیادہ پسند کیا۔ آغاز میں اس کی وجہ مذہب ہی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس وقت تک یہودیوں نے اپنے لیے الگ وطن کی جدوجہد کی تحریک شروع نہیں کی تھی۔

اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے اب تک 30 لاکھ سے زائد یہودی اسرائیل آ کر آباد ہو چکے ہیں اور آج دنیا میں رہنے والا ہر دوسرا یہودی اسرائیل میں رہتا ہے۔

1890 کی دہائی میں، تھیوڈور ہرزل ہی وہ شخص تھا جسے صیہونیت کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس نے نقل مکانی اور یہودیوں کے لیے الگ وطن کی سستی سے چلتی ہوئی تحریک کو تیز کر دیا۔ اسی کی کوششوں سے باسیل میں پہلی صہیونی کانگریس کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر عالمی صہیونی تنظیم (ڈبلیو زیڈ او) کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی تنظیم کی کوششوں سے پہلی مرتبہ ایک منصوبے کے تحت فلسطین میں یہودیوں کی نقل مکانی کا کام تیز ہوا۔

تاریخ میں یہ بھی ملتا ہے کہ صہیونی تحریک کے آغاز میں یہودیوں نے یہ بھی سوچا کہ فلسطین سے باہر کسی مقام پر جیسے ( یوگنڈا یا ارجنٹائن ) میں یہودی ریاست قائم کی جائے۔ لیکن اس تجویز کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ البتہ فلسطین میں آبادکاری متعلق یہودیوں کو یکسو ہونے میں کافی وقت لگا۔ جنگ عظیم دوم میں انگریزوں کی حمایت، سلطنت عثمانیہ کا زوال، روس میں یہودیوں پر ظلم و ستم، پولینڈ میں ان کا قتل عام، ہٹلر کا ان کے ساتھ ناقابل بیاں سلوک اور عربوں کی در پردہ حمایت، اپنے علم اور ہنر کی بنیاد پر امریکی حکومت پر اثر و رسوخ، مالیاتی اداروں پر کنٹرول اور سب سے بڑھ کر میڈیا پر مکمل دسترس نے مل کر صیہونیت کی تحریک کو پروان چڑھایا۔ یہ ایک طویل داستان ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جو پڑھنے کے لائق ہے کہ کس طرح یہودیوں نے مغرب میں عیش و آرام کی زندگی کو ترک کر کے ایک ویرانے میں آنا پسند کیا۔

تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب تک فلسطین پر عثمانی حکومت کرتے رہے اس وقت تک یہودیوں کی فلسطین آمد کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ جنگ عظیم اول کے بعد جیسے ہی انگریزوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور ساتھ ہی ان کی مرضی سے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد نے فلسطین میں آنا شروع کر دیا تو عربوں میں ایک تشویش کی لہر پیدا ہوئی۔ عربوں نے انگریزوں کی مدد سے عثمانیوں سے اپنے عرب علاقے واپس لینے کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا خیال تھا کہ اس کے بعد ایک عرب ریاست قائم کریں گے ( یعنی ابتدائی اسلامی دور کی ایک عرب سلطنت) جو کہ عربوں کا ایک دیرینہ خواب تھا۔ کئی صدیوں سے ترک ان کے علاقے پر قابض تھے اور اب وہ یہ محسوس کر رہے تھے کہ موقع آ گیا ہے کہ وہ انگریزوں کی مدد سے ترکوں کو شکست دے سکیں۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ عرب انگریزوں کے ساتھی بن گئے اور ترک سلطنت کا خاتمہ ہو گیا لیکن ان کا وہ خواب ادھورا ہی رہ گیا۔

ہوا کچھ یوں کہ جب یہودی ایک کثیر تعداد میں آنا شروع ہوئے تو انہیں احساس ہوا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ کچھ تاریخ دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انگریزوں نے عربوں کی مدد اسی شرط پر کی تھی کہ وہ اسرائیل کی ریاست کے قیام میں انگریزوں کی مدد کریں گے۔ یہ بات کہاں تک سچ ہے معلوم نہیں۔ اگر سچ ہے تو اس کا خمیازہ عرب ہی بھگت رہے ہیں اور اگر سچ نہیں ہے تو تب بھی یہودی اپنے مقصد میں کامیاب ہی نظر آتے ہیں۔

ہمیں تاریخ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جب یہودیوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہونا شروع ہوا تو 1936 میں عربوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ یہی وہ موقع تھا جب یہودیوں نے اس بات کا احساس کیا کہ انہیں اسرائیل میں رہنے کے لیے اطاقت کی ضرورت ہے۔ اسی سوچ کے تحت اسرائیل میں ایک ملیشیا فورس قائم کی گئی۔ اس کا نام ”ہاگناہ“ یعنی دفاع تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دفاعی نقطہ نظر سے کئی اور گروپ بھی بنائے گئے۔ اس طرح پہلی مرتبہ ایک مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔

میں نے حال ہی میں CBN کی ایک رپورٹ دیکھی جو
Virtual Israel Tour Day 45: Making Aliyah

کے نام سے 3 مئی 2020 کو نشر کی گئی رپورٹ میں حال ہی میں امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک سے آنے والے لوگوں ( جن میں اکثریت جوان لوگوں کی تھی) سے ایک سوال کیا گیا کہ وہ اسرائیل کیوں آرہے ہیں جبکہ یہ علاقہ ایک جنگی میدان کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اکثر کا جواب تھا یہی تھا کہ وہ اسرائیل سے محبت کرتے ہیں اور ایک یہودی ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔ جہاں ہر طرف یہودی ہی ہوں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے سے آنے والے یہودیوں کو چند ماہ کے لیے ایک ہوسٹل میں رکھا جاتا ہے۔ جہاں ان کو اسرائیل میں رہنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ انہیں عبرانی زبان سکھائی جاتی ہے۔

اس رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نقل مکانی کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ یہ کب تک جاری رہے گا، معلوم نہیں ہے معلوم نہیں لیکن جس انداز سے یہودیوں نے فلسطین کی زمین پر قبضہ کرنا شروع کیا ہوا ہے اور جس میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان کی منزل کہیں آگے ہے۔ انھیں کون روکتا ہے اور کہاں روکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

اسرائیل کا قیام

اب تک کی بحث سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ اسرائیل کے قیام کا منصوبہ بڑی تیزی سے پایۂ تکمیل کی طرف گامزن تھا۔ اس میں کون کون سے مرحلے آئے، ان کا تذکرہ بے حد ضروری ہے۔

روس اور اسرائیل

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ روس میں بھی یہودیوں پر بے حد ظلم و ستم کیے گئے۔ 1941 میں جنگ عظیم دوم کے دوران جرمنی نے روس پر حملہ کیا۔ اس موقع پر اسٹالن نے یہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کام کے لیے اس نے یہودیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے۔ اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی اور ہزاروں یہودی جرمنی سے فرار ہو کر روس میں داخل ہو گئے۔ روس نے انہیں خوش آمدید بھی کہا اور ہر طرح کی آزادی بھی دی۔

یہودیوں نے بھی جنگ میں روس کا ساتھ دیا جس کے بدلے میں اسٹالن نے انہیں اسرائیل کے قیام کے میں مدد فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اسرائیل کے قیام کے لیے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی قرارداد کو روس کی حمایت بھی حاصل ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد روس نے عربوں کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اس کی وجہ سے عرب دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ اہل فلسطین، شام، عراق اور لیبیا کے ساتھ ساتھ کئی عرب ممالک بھی روس کے کیمپ میں چلے گئے۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ روس نے امریکہ کی مخالفت میں فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کی۔ روس نے یہ سب اس لیے بھی کیا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ عرب میں امریکہ اور برطانیہ کی بالادستی قائم ہو۔

اس سیریز کے دیگر حصےصہیونی تحریک: آغاز سے اب تک قسط 6بنی اسرائیل سے اسرائیل تک تین مذاہب کا مرکز: قسط نمبر 8

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments