تین جلیل القدر دانشور: حسن نثار، آفتاب اقبال اور ارشاد بھٹی


بچپن کے دنوں میں ہمارے گاؤں میں ایک سرکاری مڈل سکول ہوا کرتا تھا۔ اس کے ایک استاد ”اللہ بخش“ (مرحوم) بڑی دلچسپ شخصیت ہوا کرتے تھے۔ بھلے وقتوں میں شاید انہوں نے ایک دو ایم اے بھی کھڑکا رکھے تھے۔ ”استادی“ کے ساتھ ساتھ وہ کچھ لوکل اخباروں میں کسی بڑے شخص کی وفات کی خبر، کسی قومی سانحے پہ اظہار افسوس یا کسی ہومیوپیتھک سے مسئلے پہ کوئی مضمون نما چیز بھی لکھ دیتے، پھر کبھی طبیعت جوش مارتی تو ساغر صدیقی کی لفظیات استعمال کرتے ہوئے کچھ غزلیات بھی لکھ لیتے، اس کے علاوہ وہ گاؤں کے چوہدری صاحبان، نمبرداروں اور بیرون ملک مقیم گاؤں کے ہر شخص کی شان میں ایک آدھ غزل لکھ کر ہمیشہ کھیسے میں رکھتے تاکہ بوقت ضرورت حاجت روائی کے کام آئے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ وہ اپنے جلو میں ہمیشہ ان پڑھ اور جاہل دوست جمع کیے رکھتے جو ان کی “داد رسی” (داد رسانی ہی سمجھیے) کے فرائض انجام دیتے۔ ان کی ان ”گراں قدر“ ادبی خدمات (یہاں گراں سے سرائیکی لفظ گراں بھی مراد لیا جا سکتا ہے ) اور خدا داد صلاحیتوں کو بنیاد بنا کر مرحوم جب بھی کبھی اپنا نام لکھتے تو اس کے ساتھ ”ماہر تعلیم، برصغیر پاک و ہند کے معروف ترین شاعر، عظیم صحافی، مفکر قوم، جلیل القدر دانشور لکھنا نہ بھولتے۔

ہمارے بچپن کا زمانہ تھا تو ہمارے ذہنوں میں یہ شبیہ بن گئی کہ مڈل سکول استاد کا ماہر تعلیم ہوتا ہے، اخبارات میں وفات اور سانحات کی خبریں دینے والا صحافی ہوتا ہے، بے وزن اور بے سر و پا تک بندی کرنا والا شاعر ہوتا ہے اور کسی متبادل یا مقابل کے بغیر محض چند جہلا کے سامنے الٹی سیدھی تعبیریں کرنے والا دانش ور ہوتا ہے، فکر معاش کے لیے غزلیں گھڑنے والا مفکر ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ! پھر ہم تھوڑے بڑے ہوئے۔ تعلیم اور روزگار کی غرض سے گاؤں سے باہر نکلے۔ لاہور اور ملتان جیسے شہروں میں کئی سال رہائش پذیر رہے۔ کالجز اور یونیورسٹیز کا منہ دیکھا اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے واقفیت ہوئی تو ہمیں سمجھ آیا کہ ہم نے ماہر تعلیم، صحافی، دانشور اور شاعر کا مفہوم ہی غلط سیکھا تھا۔ ہم نے ہر کنویں کے مینڈک کو افلاطون سمجھ رکھا تھا! اس کے بعد ہم کبھی گاؤں آتے اور استاد اللہ بخش پر نظر پڑتی تو ہماری ہنسی چھوٹ جاتی یا کبھی ملاقات ہوتی تو ہم ان کے اقوال زریں سے اختلاف بھی کر جاتے۔ ظاہر ہے مرحوم اس بات کا برا مناتے اور مرتے دم تک ہم سے خفا رہے۔ خیر حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔

اب آپ اس ساری صورت حال کو سامنے رکھیے اور ایک نظر ڈالیے اپنے مین سٹریم میڈیا پہ۔ آپ کو لگے گا کہ آپ کا سارا مین سٹریم میڈیا ہمارے گاؤں جیسا ہی ہے یہاں جگہ جگہ ایسے ہی چغد ماہر تعلیم، تجزیہ کار، صحافی اور دانشور بنا کر پیش کیے جاتے ہیں۔ جو لایعنی، حقائق سے عاری، منطق سے بیگانہ، دلیل سے فارغ اور اوٹ پٹانگ قسم کے تجزیے کرتے ہیں اور دانستہ اس قوم کی فکری نس بندی پہ مامور ہیں۔ ان چینلز پہ جو کچھ جینوئن دانشور ہوا کرتے تھے اب وہ میڈیا کے لیے راندۂ درگاہ قرار دیے جا چکے ہیں۔ جو کوئی ایک آدھ بچا ہے وہ روزی روٹی بند ہونے کے خوف سے ہومیوپیتھک دانشوری پہ اتر آیا ہے۔ باقی بچتے ہیں ہمارے دفاعی تجزیہ کار، حسن نثار، ارشاد بھٹی اور آفتاب اقبال جیسے ”دانش گرد“ ۔ جو بزعم خود بین الاقوامی شاعر، ماہرین تعلیم، کائناتی حجم کے دانشور، آفاقی نوعیت کے تجزیہ کار وغیرہ یعنی عقل کل ہیں۔

آپ کبھی ان کے پروگراموں کی ترتیب ملاحظہ فرمائیں۔ حسن نثار کا پروگرام ”میرے مطابق“، آفتاب اقبال کا ”خبردار“ اور ارشاد بھٹی صاحب کا ”خبرناک“ ان کا پیٹرن وہی ہے جو ہمارے گاؤں کے مرحوم استاد جی کا ہوا کرتا تھا یہ ایک ایسی محفل ترتیب دیتے ہیں۔ جس میں ان کے علاوہ باقی سب بھانڈ، مسخرے اور مراثی ٹائپ بیٹھے ہوں جن کے سامنے یہ ہاتھ ٹیڑھا اور منہ ٹیڑھا کر کے حکمت بگھارتے ہوئے جیسی چاہیں بے وقوفی اور جہالت پہ مبنی بات کر دیں وہ حاضرین بیچارے اسے افلاطون ہی سمجھتے رہیں۔ یہ عام طور پر کسی اوپن پینل پہ بات کرنے نہیں آتے جہاں کوئی حقیقی دانشور بیٹھا ہو۔ جہاں ان سے کی جعلی صحافت اور جعلی دانشوری کی قلعی کھلنے کا خدشہ ہو۔ اور وقت کا جبر ہے کہ یہ بھانڈ اور مراثی اس وقت ہماری پوری قوم کی فکری تربیت پہ مامور ہیں۔ یہ ہمیں ملکی و غیر سیاست کے اسرار و رموز سکھاتے ہیں۔ یہ ہند سندھ کے سارے مسائل چٹکی بجاتے حل کر دیتے ہیں۔

دیکھیے! حقیقی دانشور ہمیشہ اختلاف رائے کو قبول کرتا ہے اور اس کا منطقی جواب دیتا یے جبکہ ان دانش گردوں کے سامنے کبھی کوئی اختلافی بات کر دے تو ان کی ساری اخلاقیات اور دانشوری کھل کے سامنے آ جاتی ہے۔ اور ہاں ان کا ایک بڑا دلچسپ طریقہ واردات یہ ہے کہ اپنے حاضرین کو متاثر کرنے کے لیے اکثر مختلف کتابوں اور بڑے بڑے لیڈروں کے اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ حاضرین کو لگے کہ یہ بہت پڑھے لکھے اور منطقی سوچ کے مالک ہیں۔ لیکن کبھی غور کریں تو پتا چلتا ہے یہ ہر قول اور ہر بات اس کے سیاق و سباق سے ہٹ کر اپنے مذموم ایجنڈے کے مطابق ڈھال کر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہر روز شام کو پاکستانی سیاستدانوں کا موازنہ دنیا کے بڑے لیڈروں سے کرتے ہیں۔ کبھی نواز شریف کو نیلسن منڈیلا کے سامنے بونا بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو کبھی بے نظیر کو گولڈا مائر کے سامنے، کبھی زرداری صاحب کو موزے تنگ کے قدموں کی خاک بتایا جاتا ہے تو کبھی مولانا فضل کو چی گویرا کے سامنے رکھ کر پست قامت ثابت کرتے ہیں!

اس ضمن میں عرض ہے کہ یہ تقابلی جائزے سرے سے بنتے ہی نہیں ہیں۔ آپ تاریخ کے چند ناموں کو دنیا کے باقی سات ارب دنیا کے کسی بھی شخص سے موازنہ کیسے کر سکتے ہیں؟ چلیں اس طرز کے موازنے کو معیار بناتے ہیں تو حسن نثار، آفتاب اقبال اور ارشاد بھٹی جیسے لوگوں کی دانشوری کی افلاطون، ارسطو، نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید، یوال نوح ہراری یا ہماری ہمسائی ارون دھتی رائے کے سامنے کیا حیثیت ہے؟ تو حضور نواز شریف کا موازنہ نیلسن منڈیلا سے کرنا ہے یا زرداری صاحب کا موازنہ موزے تنگ سے کرنا ہے تو اپنا موازنہ بھی نوم چومسکی سے کر کے دیکھیے، ایلون ٹافلر سے کیجیے تاکہ آپ کی حیثیت اور مقام کا تعین کیا جا سکے! حاصل کلام ہے کہ اس قوم کو جہالت سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا خطرہ جعلی دانشوری سے ہے اور یہ مت سمجھیے کہ یہ حادثاتی طور پہ ہو رہا ہے یہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ ایک ابلاغی جنگ ہے جو ہماری سرحدوں کے اندر لڑی جا رہی ہے۔ جس کا مقصد یوتھیائی دانش کو فروغ دینا اور مستحکم بنانا ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیں اور ہمارے بچوں کو ان دانش گردوں کے قہر سے محفوظ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments