کیا ایک سال کی عمر میں ہونے والا ریپ کسی کو یاد رہ سکتا ہے؟


آج کل پوری دنیا میں عورتوں کے ریپ کا مسئلہ ایک خاص اہمیت اختیار کر گیا ہےاور ہر طرف سے اس قسم کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ اور مذہبی ادارے بھی اس قسم کے سکینڈلوں کی زد میں ہیں۔ پہلے کیتھولک چرچ بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات پر اعتراضات کا نشانہ بنا۔ پاکستان میں بعض مدرسوں میں اس قسم کے واقعات خبروں کی زینت بنے ۔ اور کچھ دن پہلے “ہم سب” پر رانا تنویر صاحب کا کالم “جماعت احمدیہ کے قائد کے اہل خانہ پر ریپ کے الزامات” شائع ہوا اور ایسی ہی تحریر سماء کی سائٹ پر شائع ہوئی۔

اس میں یہ تفصیلات درج تھیں کہ نداء النصر نامی خاتون نے جماعت احمدیہ کے سربراہ کے بعض رشتہ داروں پر ریپ کے الزامات لگائے ہیں اور انگلستان کی پولیس ان الزامات کی تحقیق کر رہی ہے۔ ااس کا انکشاف اس طرح ہوا کہ ایک فون کال کی آڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر آئی ہے جو کہ نداء النصر اور جماعت احمدیہ کے سربراہ کے درمیان ہوئی تھی۔ اور اس میں نداء النصر نے اس قسم کے الزامات لگائے تھے۔ یہ ریکارڈنگ بہت سے یو ٹیوب چینلز پر نشر کی گئی۔

اس آڈیو کے منظر عام پر آنے اور صحافی رانا تنویر صاحب کی ان تحریروں کی اشاعت کے بعد سب سے پہلے جماعت احمدیہ کے سربراہ کے بھائی کی طرف سے یہ سٹیٹ منٹ سامنے آئی کہ یہ الزامات غلط ہیں اور رانا تنویر صاحب کی تحریروں میں کچھ غلط بیانی بھی شامل ہے اور وہ ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پہلے تو اس کے جواب میں رانا تنویر صاحب نے یہ ٹویٹ کیا کہ جماعت احمدیہ کو چاہیے کہ اپنے بھونکنے والے کتوں کو پٹا ڈالیں اور جو بیان جماعت احمدیہ کے سربراہ کے بھائی کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے کہ وہ ان کا لگتا بھی نہیں ہے اور حقائق کے منافی ہے۔ حقائق پر چیلنج کریں ۔ لیکن ابھی یہ ٹویٹ تازہ تھی کہ 2 جنوری کو ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے یہ ٹویٹ کیا

I am sorry for the mistakes in the story which r now fixed

ترجمہ: میں اس سٹوری میں ہونے والی غلطیوں پر معذرت کرتا ہوں اور یہ غلطیاں اب دور کر دی گئی ہیں ۔ اور سماء کی سٹوری اب ٹھیک کی جا رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ دو اور افراد نے جن پر الزامات لگائے گئَے تھے اس کی تردید کر دی اور اسے من گھڑت قرار دیا۔

بہر حال اب اس ویڈیو کو بہت سے یو ٹیوب چینلز نشر کر چکے ہیں ۔ ہمیں نداء النصر کے الزامات کو پرکھنےکے لئے ان کے اصل الفاظ کا جائزہ لینا ہوگا۔ اتنے دن گذرنے کے باوجود نداء النصر نے اس میں کسی ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ اس لئے یہی سمجھا جائے گا کہ جو الفاظ انہوں نے ادا کئے ، ان کا مطلب بھی وہی تھا۔

نداء النصر کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور وہ سوشل میڈیا پر اپنا موقف پیش بھی کر رہی ہیں۔ انہوں نے کچھ الزامات لگائے ہیں اورجب بھی کسی الزام کی صحت کو پرکھا جائے گا تو ان تین پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے گا۔

1۔ کیا یہ الزام لگانے والا صحیح ذہنی کیفیت میں ہے؟ کیا ان باتوں میں کوئی خلاف عقل اور نا ممکن بات تو نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو اس پر تحقیقات شروع بھی نہیں کی جا سکتیں۔

2۔ الزام لگانے والے نے ان الزامات کے کیا ثبوت مہیا کئے ہیں۔ کیونکہ ثبوت دینا الزام لگانے والے کا کام ہے۔

3۔ ان الزامات پر ہونے والی تحقیقات سے کیا نتائج بر آمد ہوئے؟

اس گفتگو کو پہلی بار سننے کے بعد ہی اس پر ایک دو نہیں بلکہ کئی سوالات پیدا ہو تے ہیں ۔ اس کالم میں ان بہت سے سوالات میں سے صرف ایک پر تبصرہ کیا جائے گا۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ تجزیہ سے پہلے نداء النصر کے اصل الفاظ درج کئے جائیں۔ انہوں نے فون پر بات کرتے ہوئے اپنے متعلق یہ دعویٰ کیا کہ وہ تو ایسا بچہ تھیں

“ایک سال کا بچہ کسی کے چنگل میں ہے ۔ آٹھ سال سے ریپ ہو رہا ہے۔ “

اس کے علاوہ ایک اور مرتبہ کہا

“ایک سال کا بچہ  Molest ہو رہا ہے۔ “

 یہ ظاہر ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ وہ جب ایک سال کی عمر کی تھیں اس وقت سے اب تک ان کو ریپ کیا جا رہا ہے۔ اور نہ صرف یہ بلکہ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ ایک سال کی عمر سے کسی کے چنگل میں تھیں اور ایک سال کی ہونے کے باوجود آٹھ سال کی مدت سے انہیں ریپ کیا جا رہا تھا۔ کیا یہ دعویٰ خلاف عقل نہیں کہ ایک سال کا بچہ آٹھ سال کی مدت سے ریپ ہو رہا تھا ۔ کوئی بھی کسی کے منہ سے یہ دعویٰ سنے گا کہ میں جب ایک سال کا تھا تو مجھے  ریپ ہوتے ہوئے آٹھ سال ہو چکے تھے تو وہ اسے پولیس یا عدالت میں جانے کی بجائے کسی ماہر نفسیات کو دکھانے کا مشورہ دے گا۔

شاید یہ اعتراض کیا جائے کہ کالم نگار ایک بات کو پکڑ کر بیٹھ گیا ہے۔ کوئی اور نکتہ بیان کرو ۔ تو میں دوسرے پہلو کی طرف آتا ہوں ۔ انہوں نے یہ الزام تو لگایا کہ جب وہ ایک سال کی تھیں تو اس وقت بھی انہیں ریپ کیا گیا تھا اور اس کو دہرایا بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک سال کی عمر میں ہونے والے واقعات سائنسی طور پر کسی شخص کو یاد رہ بھی سکتے ہیں؟ یا یہ ناممکن ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سائنسی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔

اکثر سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ساڑھےتین یا چار سال کی عمر کی کچھ جھلکیاں یاد رہ سکتی ہیں لیکن اس سے پہلے کے کوئی واقعات کسی کی یاداشت میں نہیں رہ سکتے۔ اگر بہت کھینچ تان کی جائے تو ایک تحقیق کے مطابق زیادہ سے زیادہ بعض لوگوں کی یاداشت میں شاید ڈھائی سال کی عمر کی ایک آدھ جھلک محفوظ رہ جائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ ایک سال کی عمر میں ہونے والا واقعہ کسی کو یاد رہ جائے۔ اس کو Infantile Amnesiaکہتے ہیں۔ نیچے ایک جدید ترین ریسرچ پیپر کا حوالہ درج کیا جا رہا پڑھنے والے استفادہ کر سکتے ہیں۔

http://Peterson C. What is your earliest memory? It depends. Memory. Published online May 6, 2021. DOI:10.1080/09658211.2021.1918174

 اس خاتون کا یہ دعویٰ ہے کہ انہیں ایک سال کی عمر میں ریپ کیا گیا تھا تو کس بنیاد پر ہے؟ انہیں تو یہ علم نہیں ہو سکتا ہے کہ ایک سال کی عمر میں ان کے ساتھ کیا ہوا تھا اور کیا نہیں ہوا تھا۔ یہ حقیقت تو ہر ایک جانتا ہے۔ اگر انہیں کسی اور نے چھتیس سال کی عمر میں یہ اطلاع دی ہے کہ تم ایک سال کی عمر میں ریپ ہوئی تھی تو پھر یہ گواہی وہ شخص دے۔ اس بارے میں نداء النصر کا دعویٰ قبول نہیں کیا جا سکتا۔

ان حقائق کی موجودگی میں ہم ان دو میں سے کوئی ایک نتیجہ نکال سکتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے واضح غلط بیانی کی ہے اور اس عمل کے دوران یہ غلطی ہو گئی ہے یا پھر وہ کسی نفسیاتی بیماری کی وجہ سے Delusions یعنی فریب (التباس) کا شکار ہیں ۔ اور یہ علامت کئی ذہنی بیماریوں میں پائی جاتی ہے۔ اور اس قسم کے فریب ایسے مریضوں کو مسلسل ہوتے ہیں۔

یہ کوئی افسانوی بات نہیں ہے بلکہ برطانیہ کی چار یونیورسٹیوں میں ہونے والی مشترکہ تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ چالیس فیصد کے قریب لوگ جو بہت شروع کی عمر کی یاداشتیں بیان کرتے ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ افسانوی ہوتی ہیں ۔ یہ لوگ تصویریں دیکھ کر یا کسی سے گفتگو کی بنا پر اپنی اس بہت پرانی یادداشت کا ایک خاکہ ذہن میں بسا لیتے ہیں۔ ایسے لوگ بعض مرتبہ دو سال کی عمر سے قبل کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں لیکن یہ سب فرضی ہوتے ہیں۔ اور وہ اس کو سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کا حوالہ بھی درج کیا جاتا ہے۔

https://www.psychologicalscience.org/news/releases/many-peoples-earliest-memories-may-be-fictional.

اس کالم میں اختصار سے صرف ایک پہلو کا ذکر کیا گیا ہے۔ ا س خاتون نے علم نفسیات کے بارے میں جو دعوے کئے ہیں وہ بھی درست نہیں ہیں۔ ان پر بعد میں تبصرہ کیا جائے گا۔ کسی الزام پر اس وقت تحقیق کی جاسکتی ہے جب وہ واضح طور پر غلط اور خلاف عقل نظر نہ آ رہا ہو ۔ الزام لگانے والے کو اظہار کا حق ہے لیکن اگر ہر الزام پر لوگوں کو قصوروار ٹھہرا یا جائے تو پھر اس کی زد سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اور جب بھی اس قسم کا الزام لگایا جائے تو جس پر ایسا الزام لگے اس کا حق ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے اور سننے والوں کا یہ حق ہے کہ وہ اس بیان کا حقائق کی روشنی میں اور سائنسی طور پر تجزیہ کریں۔ رانا تنویر صاحب نے جس طرح تجزیہ کرنے والوں کو ترنت بھونکنے والے کتے قرار دے دیا ہے، یہ انہیں زیب نہیں دیتا ۔ رائے کی جو آزادی رانا تنویر صاحب کو حاصل ہے، وہی آزادی انہیں بھی حاصل ہے جو ان کو غلط سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments