سپریم کورٹ میں خاتون جج کی تقرری


جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے کثرت رائے سے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کی جج مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔ اب یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوگا۔ وہاں سے نام کی منظوری کے بعد جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ کی جج نامزد ہوجائیں گی۔ وہ اگست میں جسٹس مشیر عام کی ریٹائرمنٹ کے بعد عدالت عظمی کی جج کا عہدہ سنبھالیں گی۔ یہ تمام مراحل بخوبی طے ہوگئے تو 2030 میں ایک خاتون پاکستان کی پہلی چیف جسٹس بن سکیں گی۔

جسٹس عائشہ ملک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اس عہدہ پر فائز ہونے کی اہل خاتون ہیں۔ ان کی سپریم کورٹ میں تقرری سے پہلی بار کوئی خاتون ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جج مقرر ہوں گی۔ اس لحاظ سے یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ پاکستان اعلیٰ عہدوں پر خواتین کی تقرری کے حوالے سے بہت پیچھے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہائی کورٹس میں خال خال ہی خواتین جج دکھائی دیتی ہیں اور اب پہلی بار کوئی خاتون سپریم کورٹ کی جج بننے والی ہیں۔ تاہم جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کے حوالے سے سامنے آنے والا اختلاف اور تنازعہ مناسب نہیں ہے۔ بہتر ہوتا کہ ملک کے وکلا کی تنظیمیں اور چیف جسٹس کے درمیان اس معاملہ پر افہام و تفہیم پیدا ہوجاتی۔  شدید اختلاف کی فضا میں کسی خاتون کی پہلی بار پاکستان سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرری سے یہی تاثر پیدا ہوگا کہ پاکستانی سماج ابھی تک خواتین کو مساوی مواقع دینے اور عدالتوں میں توازن پیدا کرنے کے سوال پر تضادات کا شکار ہے۔ اس تاثر سے نہ صرف عالمی طور سے ملک کی شہرت داغدار ہوتی ہے بلکہ مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے والی خواتین کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔

پاکستان میں اس وقت شدت پسندی کا جو ماحول دکھائی دیتا ہے، اسے کم کرنے کے لئے خواتین اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں آبادی کے تناسب سے خواتین کو  نمائندگی  دے کر ہی معاشرے میں افہام و تفہیم، قبولیت اور متوازن رویوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔ دنیا خواتین کو مساوی حقوق دینے کے معاملہ میں بہت آگے بڑھ چکی ہے لیکن دعوؤں اور نعروں کے باوجود پاکستان میں خواتین کو ابھی تک اپنا جائز حق حاصل کرنے کے لئے بھی شدید جد و جہد کرنا پڑتی ہے۔ ملکی سیاست اس حوالے سے بنیادی مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ آئینی طور سے خواتیں کو خصوصی نشستوں پر ضرور منتخب کیا جاتا ہے لیکن انتخابی حلقوں کا ماحول ابھی تک اس قابل نہیں بنایا جا سکا کہ خواتین میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر مردوں کے مقابلے میں اتریں اور عوام سے براہ راست ووٹ لے کر اسمبلی کی رکن منتخب ہوں۔

یہ مثال دینے کی ضرورت یوں بھی پیش آتی ہے کہ پاکستانی خواتین نے کم تر مواقع کے باوجود ہر شعبہ میں اپنی صلاحیت اور کارکردگی کا لوہا منوایا ہے لیکن سماجی رویوں اور معاشرے میں خواتین کے کردار کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات کی فضا میں، متعدد اہم شعبوں میں انہیں متعدد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں پر اس حوالے سے خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے تاکہ کم از کم اسمبلیوں میں خواتین کو اپنے بل بوتے پر انتخاب میں حصہ لینے اور عوام کی نمائندگی کا موقع مل سکے۔ سیاسی شعبہ میں خواتین کی مساوی بنیادوں پر شراکت اور نمائندگی سے سماج کے باقی شعبوں میں زیادہ تیزی سے تبدیلی نوٹ کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ جب خواتین براہ راست انتخاب کے ذریعے اسمبلیوں میں پہنچیں گی تو وہ زیادہ طاقت ور طریقے سے اسمبلیوں کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کے ڈھانچوں میں بھی اپنی جگہ حاصل کرسکیں گی۔

اس کے ساتھ ہی البتہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک میں صنفی عدم مساوات کی موجودہ صورت حال میں خواتین کو کسی حد تک اسمبلیوں کی کارروائی کا شراکت دار بنانے کے لئے موجودہ کوٹہ سسٹم بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس آئینی تقاضے کے بغیر پاکستان کی اسمبلیوں میں خواتین کو  نمائندگی  ملنا محال تھا۔ تاہم یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کوٹہ سسٹم کوئی مثالی صورت حال نہیں ہے۔ اسے بہر حال عبوری انتظام کی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔ یہ کام سیاسی جماعتوں کی محنت اور کوشش سے ہی ممکن ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے خواتین کی  نمائندگی  کے آئینی تقاضے کی روح کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ پارٹیوں کے ڈھانچہ کو خواتین ورکرز کے لئے قابل قبول بنانے کا باقاعدہ کام کرنے کی بجائے پارٹیوں کے لیڈر اپنی عزیز، رشتہ دار اور پسندیدہ خواتین کو کوٹہ پر اسمبلیوں میں پہنچا کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ آئینی ضرورت پوری کرلی گئی ہے۔ حالانکہ یہ طریقہ متعارف کروانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ سیاسی ماحول کو ہر جنس، عقیدہ اور سوچ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے سازگار بنایا جا سکے۔ جس روز پاکستان میں خواتین یا اقلیتوں کو اپنے میرٹ پر منتخب ہونے کے حالات پیدا ہوجائیں گے تو کوٹہ سسٹم کی ضرورت بھی نہیں رہے گی اور وہ مقصد بھی بخوبی حاصل ہوسکے گا جس سے معاشرے کے تمام طبقات کو  نمائندگی  مل سکے۔ا سی طرح تعصب اور امتیازی سلوک جیسی علتوں سے نجات پائی جاسکے گی۔

جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کے حوالے سے یہ پس منظر بیان کرنے کی ضرورت یوں محسوس ہوتی ہے کہ ملک کی وکلا تنظیموں نے اس تقرر کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے اور ملکی بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے ملک بھر میں عدالتوں کا بائیکاٹ بھی کیاگیا تھا۔ وکلا تنظیموں کا کہنا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک سینارٹی کے اصول پر پورا نہیں اترتیں۔ اس لئے سپریم کورٹ کے لئے ان کی تقرری اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہے۔ اعلیٰ عدالتی پوزیشنز کے لئے سینارٹی کا اصول یقیناً اہم ہے اور اس پر عمل بھی ہونا چاہئے لیکن ایک خاتون کی تقرری کے حوالے سے وکلا کو معروضی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ تسلیم کرنے کی ضرورت تھی کہ اگر سینارٹی کو ہی اہلیت کی واحد بنیاد مانا جائے گا تو شاید کوئی خاتون جج آئندہ کئی دہائیوں تک سپریم کورٹ کی جج مقرر نہ ہوسکے۔ اس وقت ہائی کورٹس میں خاتون ججوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ ان حالات میں وہ کیوں کر عدالت عظمی کے جج کا عہدہ پانے کے لئے مقابلہ میں سامنے آسکتی ہیں؟

ملک کی بار کونسل اور ایسوسی ایشنز کو جسٹس عائشہ ملک کے معاملہ میں سینارٹی کی بحث سے پہلے یہ مطالبہ بھی کرنا چاہئے تھا کہ ملک کی تمام ہائی کورٹس میں نئی تقرریوں میں خواتین کو مساوی تعداد میں شامل کیا جائے۔ اس طریقہ کے تحت جب ہائی کورٹس میں خاتون ججوں کی اتنی تعداد ہوجائے گی کہ وہ سینارٹی کے اصول پر مردوں کے مقابل اتر سکیں پھر خواتین پر سینارٹی کا اصول لاگو کرنا درست اقدام ہو گا۔ تاہم اس سے پہلے عدالت عظمیٰ میں تقرری کے لئے کسی اہل اور قابل جج کو ترجیحی بنیاد پر مقرر کرنا ایک مناسب اور قابل قبول اقدام ہونا چاہئے۔ اس کی نظیر کے طور پر اسمبلیوں میں خواتین کے لئے کوٹہ سسٹم کی مثال دی جاسکتی ہے۔ کوئی سسٹم کسی بھی حالت میں کوئی مثالی حل نہیں ہوتا لیکن کسی طبقہ کی محرومی کو کم کرنے کے لئے اکثر اوقات اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم اس طریقہ کو متعارف کرنے کے بعد مساوی مواقع اور امکانات کے لئے حالات سازگار بنانا بنیادی اصول کے طور پر اختیار کرنا ضروری ہے۔

ایک طرف جسٹس عائشہ ملک کی مناسب سینارٹی نہ ہونے کی وجہ سے وکلا تنظیوں کا سخت گیر رویہ دیکھنے میں آیا تو دوسری طرف چیف جسٹس اور جوڈیشل کمیشن میں حکومتی نمائیندوں (وزیر قانون اور اٹارنی جنرل)  نے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی مناسب کوشش نہیں کی۔ بلکہ یہ مقصد حاصل کے لئے بالواسطہ ہتھکنڈے اختیار کئے گئے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے خود ہی جسٹس عائشہ ملک کا نام دوبارہ تجویز کرتے ہوئے اپنی ریٹائرمنٹ سے محض تین ہفتے قبل جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کر لیا۔ اس دوران کمیشن میں ایک ایسے ریٹائرڈ جج کو رکن کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا تھا جو جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کا حامی تھا۔ سپریم کورٹ میں کسی خاتون کو جگہ دینے کے لئے اس طرح کے بالواسطہ طریقوں کی بجائے کھلے ذہن سے مکالمہ کی ضرورت تھی تاکہ ایسا قدم اٹھاتے ہوئے عمومی اتفاق رائے موجود ہوتا اور تنازعہ و اختلاف کی صورت حال پیدا نہ ہوتی۔

اب جوڈیشل کمیشن کی سطح پر بھی سینارٹی کا اصول متعین کرنے کے لئے کمیٹی قائم کرنے کی بات ہو رہی ہے اور پنجاب ہائی کورٹ بار نے جونیئر ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ جب تک جوڈیشل کمیشن کے قواعد و ضوابط نہیں بنتے، اس وقت تک سینارٹی کے اصول کو مدنظر رکھ کر تعیناتی کی جائے۔ تاہم یہ بھی ضروری ہوگا کہ اس اصول پر رٹ کی سماعت کے دوران اور سینارٹی کا اصول طے کرنے والی کمیٹی کی کارروائی میں ہائی کورٹس میں جج بننے کے لئے خواتین کو مساوی مواقع دینے کا اصول بھی طے کیا جائے۔ بصورت دیگر ججوں کی ترقی کے لئے سینارٹی کے حوالے سے ہونے والی بحث کا ایک ہی منطقی نتیجہ ہوگا کہ خواتین پر مشتمل ملک کی نصف آبادی کو اعلیٰ عدالتی منصب تک پہنچنے سے محروم کیا جائے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ملک کے وکلا کی نمائندہ تنظیمیں ایسی کسی صورت حال کی حمایت نہیں کریں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2780 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments