کبھی یادیں، کبھی باتیں، کبھی پچھلی ملاقاتیں


شعبہ اردو جامعہ پشاور کی محبت نے عجیب گل کھلائے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے اچھے خاصے جوانوں کو ناسٹیلجک بنا ڈالا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو اختر انصاری بنے ہیں جنہوں نے ”یاد ماضی عذاب ہے یا رب“ کہہ کر حافظہ مزید پختہ کر دیا ہے۔ یوں بھی ادب کے طالبعلم ماضی پرست ہوتے ہیں کیونکہ مشرقی تہذیب کو محفوظ کرنے والے ادبا و شعرا کو پڑھ پڑھ کر ایسا ہونا فطری امر ہے۔ ان کو احساسات کی دنیا میں رہنے کی عادت ہوجاتی ہے اور دوسری طرف شعراء کے ہاں ”یاد ماضی“ کے حوالے پڑھ پڑھ کر حال میں بھی سرد آہیں بھرتے رہتے ہیں۔

شعبہ اردو کی قدیم عمارت بھی اس میں اہم کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ پورے جامعہ میں یہ الگ تھلگ اور انجنیئرنگ و اسلامیہ کالج کے ہاسٹلوں کے بیچ ایک خاندان جیسا ماحول مہیا کرتی ہے، جس میں خاطر غزنوی سے لے کر فراز تک اور میڈم وحیدہ غفور سے میڈم روبینہ شاہین تک کی روایات و واقعات کا ایک تسلسل تحریری تقریری اور یادوں کی صورت میں موجود ہے۔ ادب چونکہ احساسات کی دنیا روشن رکھتا ہے اس لیے اس کے در و دیوار کی اساطیری مہک چار سو پھیلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

اس قدیم عمارت کی اپنی ایک دنیا ہے اور یہاں آنے والے کو اپنی آغوش میں لے کرتب تک الوداع نہیں کہتی جب تک وہ اپنی یوٹوپیا آباد نہیں کرتا۔ یہاں کی روایات اتنی مضبوط اور پائیدار ہیں کہ جن کی چاپ زندگی بھر رہتی ہے۔ یہاں پڑھنے کی مثال ایک پرکشش اور رنگین خواب جیسی ہے جس کے پورا ہونے سے پہلے جاگنا پڑتا ہے بالکل ایسے ہی شعبہ اردو کے دو سال پل بھر میں گزر جاتے ہیں اور جب ہوش آتا ہے وقت رخصت ہوتا ہے۔

وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیرؔ
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے

انجمن طلباء قدیم ایک خوبصورت گلدستہ ہے جس میں رنگ برنگے پھولوں نے گل داودی کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس کی بنیاد اور اس کے نتیجے میں خوبصورت اور شاندار سالانہ پروگرام ”تجدید ملاقات“ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے یہ یقیناً شعبہ اردو کے اساتذہ اور اس انجمن کے صدر ڈاکٹر وارث خان کا کارنامہ ہے۔

جو کارنامہ کبھی کوئی مجھ سے ہو جائے
تو اپنی پیٹھ میں خود ہی تھپکنے لگتا ہوں

میں کبھی اس منظر سے غائب تو نہیں رہا کیونکہ شعبہ اردو سے متعلقہ گروپوں اور متعدد سینئرز، کلاس فیلوز اور جونیئرز سے رابطے میں رہتا ہوں۔ اساتذہ کرام سے گاہے بہ گاہے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اسکالرز کی عوامی دفاع میں شرکت کا موقع مل جاتا ہے لیکن اس سے پہلے اس سالانہ اکٹھ میں شرکت نصیب نہیں ہوئی۔ پچھلے سال ارادہ تھا لیکن کرونائی ماحول نے اس سالانہ تقریب کو بھی نگل لیا۔ اس سے پہلے کے پروگرام میں میڈم روبینہ کا ہزار روپے قرض بھی چڑھ چکا ہے۔

جب میں نے ان کو ادا کرنا چاہا تو مصنوعی غصے سے کہا کہ یہ رہنے دیں لیکن آئندہ وقت پر رجسٹریشن مع دوستوں کے کرنا۔ اس سال بروقت شعبہ اردو میں مع ڈاکٹر اسحاق وردگ، ڈاکٹر زبیر شاہ، ڈاکٹر رشید اور مستقبل کے ڈاکٹروں محمد اعجاز و محمد بشیر کے رجسٹریشن کرچکا تھا۔ ہم ساتھیوں میں یہ طے تھا کہ کافی شاپ میں جمع ہو کر ایک ساتھ شعبہ اردو میں داخل ہوں گے مگر یہ خواب اس لیے پورا نہ ہوسکا کہ ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں“ ۔ ڈاکٹر اسحاق وردگ کی زبانی معلوم ہوا کہ میری اس حرکت پر زبیر شاہ نے مجھے زبردست لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا۔ جس پر پروفیسر محمد بشیر نے خوش ہو کر انھیں کافی شاپ کا چھولے چاٹ کھلانے کا وعدہ کیا۔ میں نے جاتے ہی یوں معذرت کی :

عزیز آج بھی دفتر میں دیر سے پہنچا
کوئی نہ تھا جو اسے وقت پر جگا دیتا

میں ڈاکٹر رشید کی معیت میں اردو ڈیپارٹمنٹ پہنچا تو جدید پر قدیم کا رنگ غالب پایا۔ رفتہ رفتہ دوست پہنچ رہے تھے۔ ڈاکٹر سہیل، ڈاکٹر فرحانہ قاضی، ڈاکٹر انوار الحق مختلف انتظامات میں لگے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر سلمان علی کو کافی دنوں بعد رنگ و روغن میں پایا۔ معانقوں اور قہقہوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا تھا۔ مجھے شدید سر درد کا سامنا تھا اس لیے گولی لے کر گاڑی میں بیٹھ کر پروگرام کا انتظار کرنے لگا۔ جب لوگوں کو پنڈال کی طرف جاتے ہوئے پایا تو میں بھی آ کر ایک کونے میں کرسی پر بیٹھ گیا اب میری طبیعت سنبھل چکی تھی۔

پنڈال پر نظر دوڑائی تو اگلی نشستوں میں میڈم منور رؤف، ڈاکٹر نذیر تبسم، ڈاکٹر ناہید رحمن، ڈاکٹر تاج الدین تاجور، ڈاکٹر ایوب شاہ، ڈاکٹر سلمان علی، ڈاکٹر سہیل ملک خالد سہیل ملک، میڈم روبینہ، شرف النساء خٹک، ڈاکٹر انتل ضیاء، فریدہ عثمان، شہلا داؤد، آسیہ راج، ڈاکٹر نیلم، رانی، پروفیسر ظفر یاب، ظفر خٹک، ڈاکٹر وارث خان، طارق آفاق اور ڈاکٹر سید شیر براجمان نظر آئے۔ دائیں طرف نگاہ دوڑائی تو ڈاکٹر مشتاق احمد، ڈاکٹر سبحان اللہ، ڈاکٹر عرفان خٹک، ڈاکٹر انور علی، ڈاکٹر شفیق شنواری، ڈاکٹر وہاب اعجاز، ڈاکٹر اسرار، پروفیسر شانی خان، پروفیسر عبدالخالق، ہمدرد یوسفزئی، شعیب خٹک، ملک ابراہیم، محمد شفیق چترالی، سہیل باچا، سلطان زیب باچا، مسلم شاہ، راج محمد، میاں شمس، علی بزمی، سجید برکی، جان باچا، پروفیسر حمید اللہ، پروفیسر اورنگ زیب اور شاہ خالد، ڈاکٹر واجد علی شاہ، ظہور عالم، حسین جان، ساجد علی اور نثار دانش سمیت کئی جانے پہچانے چہرے پنڈال میں جگہ جگہ نظر آئے جو دور دراز علاقوں سے اس پروگرام میں ”تجدید وفا“ کرنے آئے تھے۔

بے شمار احباب ایسے تھے جن کے ساتھ میری شناسائی نہیں تھی۔ ان سب کے بیچ خود کو پا کر بڑی خوشی ہو رہی تھی۔ نظامت کے فرائض خوبصورت لب و لہجے کے مالک شاعر و صداکار پروفیسر اعجاز نے مع شاعر و ادیب گوہر نوید سنبھال لیے۔ جب پروفیسر اعجاز نے روایتی انداز میں ابتدا کی تو مجھے لگا کہ ایک بور پروگرام میں پھنس چکے ہیں کیونکہ اعجاز صاحب کے لہجے میں جھجک تھی اگلے لمحے دونوں میزبانوں کو دیکھ کر سر نذیر تبسم نے جملہ جڑ دیا ”بڑی غیر رومانی اور غیر شرعی جوڑی ہے“ ۔

پنڈال میں قہقہے گونج اٹھے اور پروفیسر محمد اعجاز پر سے مصنوعی خول بھک سے اڑ گیا۔ پھر کیا تھا ایک فطری پروگرام شروع ہو گیا برجستہ جملوں، برمحل اشعار، تحریف اور مزاح سبھی حربے استعمال میں لائے گئے، لفظوں سے کھیل نے وہ لطف پیدا کیا کہ تماشائی بات بات پر داد دینے لگے۔ میری کلاس فیلو نادیہ حسین نے نعت شریف کی سعادت حاصل کی۔ ڈاکٹر حسین محمود نے کلام اقبال فارسی سنایا اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ میرے سر کے اوپر گزر گیا۔

خالد سہیل ملک نے پروفیسر سحر یوسفزئی کا خاکہ ”زندہ رود“ جس انداز میں پیش کیا وہ قابل داد و تحسین ہے جس کے کئی جملوں پر زندہ اشعار کی طرح بے اختیار داد ملی۔ پروفیسر ظفر یاب نے میڈم روبینہ کی فرمائش پر گانا ”وادی عشق سے آیا ہے میرا شہزادہ“ سنا کر داد وصول کی۔ جدید طلباء میں سے منصور ساحل نے ترنم میں کلام فیض سنایا جبکہ محمد طفیل نے تحت الفظ ”حسن کوزہ“ سنا کر داد سمیٹی۔ اس کے بعد یادوں کے دریچے وا ہوئے جن پر دلچسپ اور انوکھے واقعات کا غلبہ رہا اس لیے قہقہے گونجتے رہے، جملے ہوتے رہے اور میں نے سفید ریشوں کے چہروں پر بچوں جیسی معصومیت پائی۔

محفل ایسی جمی کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں رہا۔ ڈاکٹر تاج الدین تاجور، جناب نبی شاہ، ڈاکٹر مشتاق، بانی صدر امان اللہ، صحافی طارق آفاق، ڈاکٹر وارث خان، ڈاکٹر انتل ضیاء، میڈم شرف النساء خٹک، ڈاکٹر رئیس مغل، ظہور جان، ظفر خٹک، ڈاکٹر ایوب شاہ، ڈاکٹر سبحان اللہ سمیت کئی احباب کو جاندار و شاندار ادبی جملوں اور رمز و ایمائیت کے پیرائے میں سنا اور ہر ایک کے پاس اپنے دور کے شاہکار قصے تھے جو نہ صرف دلچسپی سے سنے گئے بلکہ ماحول کو کشت زعفران بنا گئے۔

کبھی یادیں، کبھی باتیں، کبھی پچھلی ملاقاتیں
بہت کچھ یاد آتا ہے، ترے اک یاد آنے سے

شعبہ اردو تھا اس لیے مشاعرے کے بغیر کیسے رہا جاسکتا تھا اسی شعبے کی کوک سے کئی شعراء نے جنم لیا تھا۔ پروفیسر اعجاز نے حسب معمول ”میری زمانہ جاہلیت کی ایک نظم ہے“ سے ابتدا کی اور ایک ہی سانس میں نظم سنا گئے۔ اس کے بعد مشاعرہ جم گیا اور ڈاکٹر اسحاق وردگ نے کہا :

اب تو مجھے وجود پہ بھی دسترس نہیں
اک دور میں زمین کا توازن رہا ہوں میں
، ڈاکٹر عمر قیاز قائل نے جذباتی انداز میں شعبہ اردو سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرنے کے بعد کہا:
محبت عام کرنا چاہتا ہوں
یہی اک کام کرنا چاہتا ہوں
، ڈاکٹر سید زبیر شاہ نے مطلع پڑھا :
سہانے خواب لائیں گے پرندے ایک موسم کے
نئے قصے سنائیں گے پرندے ایک موسم کے

، ڈاکٹر سہیل احمد نے اپنی نظم ”یک طرفہ محبت“ سنائی۔ طارق آفاق نے غزل پیش کی اور آخر میں صدر محفل ڈاکٹر نذیر تبسم کو شعبہ اردو کی یادوں نے اپنی لپیٹ میں لیا تو ان کا لہجہ غنائی ہو گیا۔

روشنی کے سوداگروں نے ایک خواب دکھا کر ہم سے
جگنو، سورج، چاند، ستارہ سب کچھ چھین لیا ہے

جب انھوں نے اپنی مرحوم بیگم کا ذکر چھیڑا تو آبدیدہ ہو گئے اور ان کے جذبات تین مصرعوں میں یوں ڈھل گئے۔

اکیلے رہنے کی عادت نہیں تھی اس کو نذیرؔ
سو دفن کرتے اسے مجھ سے بھی رہا نہ گیا
میں اس کی قبر میں خود کو بھی چھوڑ آیا ہوں

سابقہ صدر شعبہ اردو اور ادیبہ میڈم منور رؤف نے پرانے طلباء و طالبات کے درمیان موجودگی پر خوشی کا اظہار کیا اور شعبہ اردو کی لائبریری کو سیرت النبی پر مشتمل کتاب ”امی نبی“ صدر شعبہ اردو ڈاکٹر سلمان علی کو عنایت کیں۔ اس کے بعد گروپ فوٹو ہوئے بلکہ اساتذہ، دوستوں، ادیبوں اور سینئر جونیئر کے درمیان فوٹو گرافی اور سیلفیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جن کو زیادہ بھوک لگی تھی وہ ”بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی“ کے مصداق موقع کو غنیمت جان کر کھانے پر ٹوٹ پڑے۔

میں شعبہ اردو کے لان میں کھڑا مشاہدہ کر رہا تھا سب کے چہروں پر ایسی خوشی تھی جو بچے کو اچانک من پسند کھلونا ملنے پر حاصل ہوتی ہے۔ جب کھانا کھا چکے تو دیکھا کہ سورج شعبہ اردو کو اپنی کرنوں سے محروم کرچکا ہے تبھی تو پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف محو پرواز تھے۔ شعبہ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر سہیل احمد، میڈم روبینہ اور ڈاکٹر فرحانہ قاضی صدر شعبہ اردو ڈاکٹر سلمان علی کی معیت میں گیٹ کے پاس سب کو الوداع کہہ رہے تھے یقیناً اس وقت ان کی کیفیت یہی ہوگی؛

چکور خوش ہے کہ بچوں کو آ گیا اڑنا
اداس بھی ہے کہ رت آ گئی بچھڑنے کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments