ونی کی مکروہ رسم۔ جبر کی داستان مسلسل


گزشتہ دنوں خبر تھی کہ دو نوعمر بچیوں کو جرگہ کے حکم پر لاڑکانہ میں ونی کر دیا گیا۔ جن کی عمریں بالترتیب چار سال اور دس سال ہیں، ان دونوں مظلوم بچیوں پر یہ قہر بھی ڈھایا گیا کہ وہ زندگی بھر اپنے والدین سے نہیں ملیں گی۔ یہ خبر اتنے غیر اہم اور غیر موثر انداز میں نشر کی گئیں گویا ونی ہونے والی بچیاں انسان ہی نہ تھیں۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے ڈر ڈر کر کم سے کم لوگوں سے اس اندوہناک خبر پر بات کی۔ جو ایک نہایت سنگین و سنجیدہ معاملے پر ہماری غیر سنجیدہ روش کو ظاہر کرتا ہے۔

برصغیر پاک و ہند کے قبائل میں صدیوں سے ایسی انسانیت سوز روایات چلی آ رہی ہیں جنہیں بہت ممکن ہے کہ وہ لوگ بھی اچھا نہ سمجھتے ہوں، جو اس پر عمل پیرا ہیں، اس کے باوجود یہ رسمیں آج بھی ہمارے معاشرے میں نہ صرف رائج ہیں بلکہ تواتر کے ساتھ اس فرسودہ رسم کی وجہ سے معصوم بچیوں کی زندگی برباد ہونے کی دکھ بھری خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔

ونی یا سوارہ ملک کے مختلف قبائل میں رائج ایک ایسی رسم ہے جس میں کم عمر لڑکیاں بطور ہرجانہ تاوان یا دیت مخالف قبیلے کے عمر رسیدہ لوگوں سے بیاہ دی جاتی ہیں، یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ غلام بنا کر حوالے کردی جاتی ہیں، تاکہ دونوں خاندانوں میں صلح ہو سکے، ونی یا سوارہ کی عمومی وجہ قتل کے نتیجہ میں ہونے والی صلح ہوتی ہے۔ جس کا شکار چار سال سے لے کر چودہ سال تک کی نوعمر لڑکیاں بنتی ہیں، ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ان لڑکیوں کی شادی کسی عمر رسیدہ شخص سے کی جا رہی ہوتی ہے، جیسے کہ ایک دس سال کی لڑکی کی شادی ایک چوراسی 84 سال کے بوڑھے شخص سے کرا دی گئی ہے۔

قدیم زمانے میں قبیلوں میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے جرگہ یا پنچایت ہوا کرتی تھیں جنہیں ہم دیسی عدالتی نظام سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ جو ہمارے ہاں قبائل میں آج بھی موجود ہیں اور پوری طرح رائج و متحرک بھی ہیں۔ ان جرگوں اور پنچائتوں کے اپنے قاعدے قانون اور رسم و رواج ہوتے ہیں۔ ونی یا سوارہ بھی ان ہی میں سے ایک رسم ہے جو دو خاندانوں یا قبیلوں کے درمیان صلح کے لئے استعمال کی جاتی ہے، اس جیسی اور بہت سی رسمیں ہیں جیسے کاروکاری، ستی اور امتحان بے گناہی وغیرہ وغیرہ۔

کہتے ہیں کہ جلال الدین اکبر نے اپنے دور حکومت میں مسلمانوں میں ونی اور ہندوؤں میں ستی کی رسم ختم کرانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ جب سے آج تک مختلف ادوار میں ادارے اور تنظیمیں مستقل کوششیں کر رہے ہیں کہ اس لعنت سے مظلوم بچیوں کی جان بچائی جا سکے مگر عدالتی احکامات اور حکومتی اقدامات کے باوجود اب تک اس ضمن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔

جس کی بنیادی وجہ دور دراز علاقوں میں بسنے والے لوگوں میں علم کی کمی، انصاف کے نظام کا ادراک اور تقاضوں کا پورا نہ ہونا بھی ہے۔ ساتھ ساتھ قبائلی نظام میں عورت کی قدر و منزلت اور تحریم و تکریم کا اس نہج پر نہ ہونا جس کی وہ مستحق ہے بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ ورنہ عصر حاضر میں بھلا جیتے جاگتے انسان کا سودا جانوروں کی طرح کیسے کیا جاسکتا ہے؟

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ تمام تر حکومتی اور عدلیہ کی کاوشوں کے باوجود اس ضمن میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے ہیں۔ اور پاکستان میں اب تک ماضی کی اس گھناؤنی روایت کو روکا نہیں جا سکا ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے ہاں بعض قبائل میں آج بھی عورت کی کوئی سماجی حیثیت اور خاندانی قدر و منزلت نہیں ہے، وہاں عورت کی حیثیت محض ایک تجارتی جنس سے زیادہ نہیں ہے۔ ان قبائل میں عورتیں بدترین استحصال کا شکار ہیں۔ جہاں ونی یا سوارہ جیسی ظالمانہ رسم کے ذریعے بچیوں کی کم عمری کی شادیاں قتل اور اغواء کے معاملات کو سلجھانے کے لئے بے دریغ کی جا رہی ہوتی ہیں۔

اس پورے قضیے کا افسوسناک ترین پہلو انسانیت کی بدترین تذلیل ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی بھی سراسر خلاف ورزی ہے۔ یعنی ایسی کم عمر مظلوم بچیوں کو دشمنوں کے حوالے کیا جانا جنہوں نے ابھی زندگی کی ابتداء بھی صحیح سے نہیں کی ہوتی، وہ پوری طرح مجبور و مظلوم اور بے یار و مددگار ہوتی ہیں کہ دشمن ان کے ساتھ جو سلوک چاہے روا رکھے۔ اپنے باپ یا بھائی کے گناہوں کی پاداش میں عمر بھر کی سزا بھگتنے کے لئے دشمنوں کے حوالے کی جا رہی ہوتی ہیں، اصل گناہگار کی زندگی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن وہ بے گناہ جو کسی اور کے گناہ کی بھینٹ چڑھ گئی ہوتی ہے۔

باقی ساری زندگی روز جیتی ہے اور روز مرتی ہے۔ یہاں تک کہ جانوروں سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ہمارے دیہات اور قبائل کے ماحول سے سب ہی واقف ہیں، جس معاشرے میں عورت کی کوئی سماجی حیثیت ہی نہ ہو تو پھر ایک دشمن کی بیٹی کو کتنا سکون اور زندگی کی آسائش ملتی ہوگی۔ جبکہ وہ انتہائی کم عمری میں غیروں کی غلامی میں دیدی گئی ہو۔ یہ ایک سراسر غیر انسانی گھناؤنا فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ماضی قریب کی مثالیں موجود ہیں جن میں کئی کئی درجن بچیاں ونی کی گئیں۔ اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت شہروں کے ساتھ ساتھ دیہاتوں اور قبائلی علاقوں میں رہنے والی عورتوں کی فلاح بہبود اور حقوق کی حفاظت کے لئے یقینی اقدامات کرے، ان عورتوں کو ان کے تمام جائز حقوق کی آگہی دی جائے بلکہ حقوق ادا بھی کیے جائیں انہیں بھی اپنی مرضی سے زندگی گزارنے شادی کرنے اور جیون ساتھی چننے کی آزادی ہونا چاہیے۔

انہیں بھی بہتر تعلیم و صحت کی سہولیات میسر ہونا چاہئیں، کوئی بھی ان کی مرضی کے بغیر ان کی شادی خاص کر کم عمری کی شادی کرنے کا مجاز نہ ہو۔ انہیں قانونی طور پر ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد سے مکمل تحفظ حاصل ہونا چاہیے، جس کا باقاعدہ قانون ہونا چاہیے۔

ہم بلامبالغہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان گھناؤنی روایات کو صرف اسی صورت میں کم کیا یا روکا جا سکتا ہے جب اس ضمن میں حکومت کی جانب سے واضح اقدامات اور سخت قانون سازی کی جائے اور قانون پر نہ صرف بلا تفریق عمل کیا جائے۔ بلکہ ان تمام لوگوں کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں جو اس فعل قبیحہ پر عمل پیرا ہیں، یا اس کے پھیلاؤ میں معاونت کرتے ہیں یا کسی بھی طرح سے اس عمل کی توثیق کرتے ہیں۔ اس حوالے میں عدلیہ اور مقننہ کا کردار سب سے اہم ہے، یہ دو ادارے اگر ایمانداری و تندہی سے مل کر کام کریں تو بلا مبالغہ معاشرے سے اس ناسور کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ عدلیہ اس حوالے سے قانون سازی کرے اور پولیس اس قانون کے نفاذ کو سختی سے یقینی بنائے تو بھی کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ اور یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ ان مظلوم بچیوں اور عورتوں کو ان کے جائز حقوق دیے جا سکیں گے جن کی وہ مستحق ہیں۔ اس طرح شاید ان مظلوموں کی زندگی کو کچھ راحت مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments