ہزاروں مرتبہ ریپ ہونے کا الزام اور کچھ حقائق


میں نےاپنے گذشتہ کالم میں رانا تنویر صاحب کی کچھ تحریروں کا ذکر کیا تھا جس کا عنوان تھا “جماعت احمدیہ کے قائد کے اہل خانہ پر ریپ کے الزامات”۔ اس کالم کا لب لباب یہ تھا ایک خاتون نداء النصر اور جماعت احمدیہ کے سربراہ کے درمیان فون پر گفتگو کی آڈیو سامنے آئی ہے اور اس میں بات کرتے ہوئے نداء النصر نے اپنے والد سمیت کچھ افراد پر یہ الزامات لگائے ہیں کہ انہوں نے ایک سال کی عمر سے اب تک جبکہ ان کی عمر 36 سال ہے ریپ کا نشانہ بنایا ہے۔ جن افراد یہ الزام لگایا گیا ہے انہوں نے اسے غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔

 فون پر اس گفتگو کی آڈیو میں ان سے سوال کیا گیا کہ جب ان کے والد انہیں جنسی طور پر ہراساں کر رہے تھے ہفتہ میں کئی مرتبہ ان کا ریپ ہو رہا تھا اور تو پھر اس کے باوجود وہ بار بارخود واپس اپنے والد کے گھر کیوں چلی جاتی تھیں ؟ اس پر ان کا جواب تھا

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں کسی Educatedآدمی سے بات کر رہی ہوں کہ کیا ۔ ایک سال کا بچہ کسی کے چنگل میں ہے۔آٹھ سال سے ریپ ہو رہا ہے ۔ہفتہ میں کئی مرتبہ ہو رہا ہے ۔ میں مائوف ہو چکی تھی ۔ میں اتنی مائوف تھی کہ میں نے کبھی اپنے لئے دعا تک نہیں کی تھی ہاں وہ پنجرہ ٹوٹا ہے یکم مارچ کو جب آخری مرتبہ اس آدمی نے میرے سے خوشی چھیننے کی کوشش کی ہے ۔ پھر میں پھٹی ہوں جیسے الٹی آتی ہے ۔

ان باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ انہیں پنتیس سال سے ہفتہ میں کئی مرتبہ ریپ کیا جاتا تھا لیکن چونکہ ان کا ذہن مائوف تھا اس لئے ان پنتیس سال میں وہ نہ اپنا دفاع کر سکتی تھیں اور نہ ہی کسی کو بتا سکیں کہ ان سے کیا سلوک کیا جا رہا ہے ۔ اور سب زیادہ انہوں نے اپنے والد پر یہ الزام لگایا ہے۔

یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ بہت سی خواتین جو کہ ریپ کا نشانہ بنتی ہیں وہ اس ظلم کو چھپاتی ہیں اور پولیس میں اس کی رپورٹ نہیں کرتیں ۔ امریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کے اعداد و شمار کے مطابق ریپ کے 15 سے 35 فیصد واقعات کی رپورٹ نہیں درج کرائی جاتی ۔اور جنسی تشدد پر قابو پانے کے ادارے NSRVCکے مطابق یہ شرح 63 فیصد تک ہو سکتی ہے۔اور اگر ریپ کرنے والا مجرم کوئی واقف کار ہے تو اس بات کا امکان کم ہوتا ہے کہ اس جرم کی رپورٹ کرائی جائے۔

چھپانے والی عورتیں مجرم سے خائف ہو کر مجبور ہونے کی حالت میں یا قانونی عمل اور عدالتی کارروائی سے خوف زدہ ہو نے کی وجہ سے یا شرمندگی یا بدنامی کے خوف کی وجہ سے ان واقعات کو چھپاتی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے ریپ کا الزامات میں سے ایک معقول شرح کے الزامات غلط اور جھوٹے ہوتے ہیں۔ NSRVC  کے مطابق ان الزامات میں سے 10 فیصد تک الزامات من گھڑت ہوتے ہیں ۔

اور ایک اور تحقیق کے مطابق 41 فیصد ریپ کے الزامات غلط اور من گھڑت ہوتے ہیں ۔ اور غلط الزام لگانے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ الزام لگانے والا کسی چیز کا بدلہ لینا چاہتا ہے ، یا ہمدردیاں اور توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے یا پھر جرم چھپانے کے لئے اس وقت میں کسی مقام سے اپنی عدم موجودگی ثابت کرنا چاہتا ہے۔

ان حقائق کی موجودگی میں جب اس قسم کا الزام سامنے آئے تو اس کو نہ سرسری طور بغیر وجہ کے غلط قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بغیر ثبوت کے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں حقائق کی روشنی میں نداء النصر کے لگائے گئے الزامات کا جائزہ لینا ہو گا۔نداء النصر کا موقف ہے کہ وہ اپنے والد کے ظالمانہ چنگل میں تھیں اور ان کے جنسی تشدد کی وجہ سے ان کا ذہن مائوف ہو چکا تھا ، وہ مجبور تھیں ، اس لئے وہ پنتیس سال تک اس سلسلہ میں کوئی قدم نہ اٹھا سکیں اور نہ ان کے چنگل اور تسلط سے آزاد ہو سکیں۔ہم حقائق جمع کرنے کے بعد نداء النصر اور ان کے والد کے حالات کا مختصر خاکہ پیش کرتے ہیں ۔ اور اس کی بنیاد پر پڑھنے والے اپنی رائے خود قائم کر سکتے ہیں۔

1۔ نداء النصر کے والدین کی شادی 1981 میں ہوئی اور ان کے والدین کی طلاق 2005 میں ہوئی۔ ندا کی والدہ نے خود درخواست دے کر ندا کے والد سے علیحدگی لی تھی۔ اس وقت یہ گھرانہ پاکستان میں مقیم تھا اور جس گھر میں مقیم تھا وہ ندا کی والدہ کی ملکیت تھا ۔ نہ صرف یہ بلکہ اس گھرانے کی تمام آمد ندا کی والدہ کی جائیداد سے ہو رہی تھی۔ ان کے والد کی اس وقت کوئی آمد یا خاطر خواہ جائیداد نہیں تھی۔علیحدگی کے بعد ندا کے والد کو گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ کچھ دیر پاکستان میں رہے اور پھر واپس انگلستان چلے گئے۔وہاں پر بھی ان کی کوئی باقاعدہ ملازمت نہیں تھی۔

2۔ جب یہ سوال اُٹھا کہ بچے کس کے ساتھ رہیں گے تو ان وجوہات کی بنا پر لوگوں کا خیال تھا کہ ندا ء النصر یہی فیصلہ کریں گی کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہیں۔ لیکن انہوں نے اور ان کے ایک بھائی نے یہ حیران کن فیصلہ کیا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ رہیں گے۔انہوں نے وہ جس گھر میں مقیم تھیں اسے اپنی مرضی سےاپنے والد کے ساتھ چھوڑ دیا اور جب ان کے والد پاکستان سے دوبارہ انگلستان منتقل ہوئے تو ان کے ساتھ ہی پاکستان سے انگلستان منتقل ہوئیں اور اپنے والد کے ساتھ ہی رہنے لگیں۔اس وقت ان کی عمر 21 سال تھی۔ اور وہ برطانوی شہری تھیں ۔ اور نہ انہوں نے ملازمت کر کے والد سے علیحدہ ہونے کی کوشش کی اور نہ ہی برطانوی قوانین سے فائدہ اُٹھا کر کونسل سے مفت میں اپنے لئے علیحدہ گھر لیا ۔باوجود اس کے کہ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک انہیں اپنے والد کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہوئے بیس سال ہو چکے تھے اور وہ اپنے والدہ کو مظلوم بھی کہتی ہیں ، انہوں نے والدین کی علیحدگی کے بعد اپنی والدہ کا ساتھ چھوڑا اور اپنی اپنی خوشی سے اپنے والد کے ساتھ مقیم ہو گئیں۔اور ان سے علیحدہ ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی۔جبکہ اس کے تمام مواقع ان کے پاس موجود تھے۔

3۔مارچ 2009 میں ان کی شادی شیخوپورہ کے ایک امیر اور با اثر زمیندار سے ہو گئی اور وہ اپنے سابق شوہر کے ساتھ رہنے لگ گئیں ۔ان کے اپنے بیان میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں کہ ان کے سابق شوہر کے گھر میں انہیں کسی تشدد یا ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ وہ یہاں پر محفوظ رہ سکتی تھیں۔ شادی کے ڈیڑھ سال کے بعد انہوں نے خود اپنے خاوند سے قانونی چارہ جوئی کر کے علیحدگی حاصل کی جبکہ ان کے خاوند علیحدگی پر آمادہ نہیں تھے۔ نداء النصر علیحدگی حاصل کر کے خود دوبارہ اپنے والد کے پاس انگلستان چلی گئیں اور ایک مرتبہ پھران کے ساتھ رہنے لگ گئیں ، جہاں پر ان کے مطابق انہیں ہفتہ میں کئی مرتبپ ریپ کیا جا رہا تھا۔

4۔ جن برسوں میں وہ اپنے والد کے ساتھ انگلستان میں مقیم تھیں وہ اپنی والدہ کے پاس پاکستان کئی ماہ کے لیے اکیلی آتی رہیں اور اکیلی امریکہ اور کینیڈا سیر کرنے کے لیے بھی گئیں ۔ اس دوران بھی انہوں نے ان مظالم کے چنگل سے نکلنے کی کوئی کوشش نہیں کی جبکہ اس کے مواقع ان کے پاس تھے۔

5۔ اس کے بعد 2016میں وہ انگلستان سے پاکستان منتقل ہوئیں اور اپنی والدہ کے ساتھ رہنے لگ گئیں ۔پھر انہوں پاکستان میں ایک کالج میں ملازمت اختیار کی ۔اب بھی انہوں نے ان مظالم کا کوئی ذکر نہیں کیا حالانکہ بقول ان کے اب تک ان کا ہزاروں مرتبہ ریپ ہو چکا تھا ۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد بھی وہ بار بار انگلستان اپنے والد کے پاس جاتی رہیں۔2019 میں انہوں نے کالج کی انتظامیہ کو ایک طویل رخصت کے لیے درخواست دی کیونکہ وہ کچھ عرصہ کے لیے پھر انگلستان جانا چاہتی تھیں جہاں ان کے والد مقیم تھے لیکن چونکہ قواعد اس کی اجازت نہیں دیتے تھے اس لیے انہیں ملازمت سے علیحدہ کر دیا گیا۔

6۔ اس کے بعد جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے کہ گذشتہ سال مارچ میں ان کا اپنے والد کے ساتھ شدید اختلاف ہوا اور وہ اس وقت پاکستان میں مقیم تھیں ۔ اس کے بعد انہوں نے ان باتوں کا اظہار شروع کیا ۔

اگر نداء النصر کے نزدیک یہ حقائق مکمل طور پر غلط ہیں تو وہ بے شک ان کی تردید کریں ۔ لیکن اس کیس میں ایسا نہیں ہے کہ کوئی مظلوم کسی کے چنگل میں ہے اور اسے باہر نکلنے کا راستہ ہی نہیں مل رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ نداء النصر نے ہر مرتبہ اپنے والد کے پاس رہنا خود اختیار کیا خواہ اس کے لیے انہیں اپنی والدہ کو چھوڑنا پڑے اور خود اپنے خاوند سے علیحدگی لے کر واپس اپنے والد کے پاس پاکستان سے انگلستان گئیں اور ملازمت سے علیحدہ کیے جانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ ایک مرتبہ پھر انگلستان اپنے والد سے ملنے جانا چاہتی تھیں۔اور اب ایک جھگڑے کے بعد انہوں نے یہ الزام لگایا کہ ان پنتیس سالوں میں وہ ہزاروں مرتبہ ریپ ہو رہی تھیں۔

 کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ان حقائق کے پاس انہیں یہی مشورہ دیا جا سکتا تھا وہ کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں اور پاکستان میں وہ ماہر نفسیات کے زیر علاج تھیں۔ اور یاد رہے وہ برطانوی شہری ہیں اور وہاں کے قوانین کے مطابق وہ کونسل سے اپنے لیے علیحدہ گھر لے سکتی تھیں ۔کیا یہ ایک مظلوم لڑکی کی داستان ہے جسے اپنے والد کے چنگل سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments