بےنظیر بھٹو شہید: ایک عہدساز رہنما


محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کے جانشین اور لاڈلے فرزند بلاول بھٹو زرداری نے اپنی عظیم والدہ  کی برسی کے موقع پر پیر صاحب گولڑہ شریف کی اس شاندار نظم سے اپنا خطاب شروع کیا.
یہ تخت فاخرہ پر تاجدار بیٹھے ہیں.
کہ تیر وقت کی زد میں شکار بیٹھے ہیں.
قبائے صبر کئے تار تار بیٹھے ہیں.
یہ کس کی یاد میں سوگوار بیٹھے ہیں.
اجڑ گیا ہے یہ کس بدنصیب کا گلشن.
یہ کس کے سوگ میں لوگ اشکبار بیٹھے ہیں.
وہ آصفہ ہو, بلاول ہو یا کہ بختاور
نڈھال غم سے یہ گرد مزار بیٹھے ہیں.
تیرے جیالے تیری راہ میں بے نظیر اب بھی.
لیے ہوئے دل امیدوار بیٹھے ہیں.
بلاول بھٹو نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کاش 27 دسمبر ایک عام دن ہوتا. کاش اس دن نہ سوگ ہوتا اور نہ ماتم اور نہ ہی برسی منائی جاتی.  یہ ایک عام دن کی طرح آتا اور گزر جاتا. مگر بدقسمتی سے دسمبر کا یہ سرد دن چودہ سال پہلے پاکستانیوں کے لیے قیامت بن کر آیا اور ان کی محبوب قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کا چراغ گل کر کے چلا گیا. بی بی اور ان کے جانثار جیالوں کا سرخ بہتا ہوا خون 27 دسمبر کی شام کو امر بنا کر رخصت ہوا.
‏جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے.
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں.
بینظیر بھٹو پر 18 اکتوبر کو پاکستان واپسی کے دن کارساز کے مقام پر خوفناک حملہ کیا گیا تھا. وہ خود تو محفوظ رہیں مگر ڈیڑھ سو کے قریب جیالے شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے۔ دہشت گردی کے اس بڑے واقعے کے بعد لیاقت باغ میں محترمہ کے لیے فول پروف سیکورٹی انتظامات نہ کر کے سنگین غفلت کا مظاہرہ کیا گیا. جلسے کے اختتام پر ان کی گاڑی کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا. گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی بی بی شہید کو اٹھنے اور اپنا سر گاڑی کے سن روف سے باہر نکالنے سے منع نہیں کیا. محترمہ کا خون آج بھی انصاف کا طلب گار ہے. مگر شاید عدالت کے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہے.
 دختر پاکستان کا دور سیاست بڑا کٹھن اور دکھوں کی نہ ختم ہونے والی داستان پر مبنی ہے. اس حوصلہ مند خاتون نے اپنے عظیم والد, جوان بھائیوں کی ناگہانی اموات کو ہمت اور جرآت کے ساتھ برداشت کیا اور ظلم کے خلاف سینہ تان کر کھڑی رہیں. پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھٹو خاندان کی طرف سے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا کارنامہ معمولی واقعہ نہیں ہے. یہ قربانی رہتی دنیا تک یاد رکھنے کے قابل ہے.
شہید بی بی کی سیاسی اور سماجی خدمات پر کافی کچھ لکھا جاتا ہے. ان کی سالگرہ اور برسی کے موقع پر مصنفین اپنی سوچ اور بساط کے مطابق جمہوریت , قانون اور انصاف کی سربلندی کے لیے ان کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں. مگر میں سمجھتا ہوں. اس کرشمہ ساز راہنماء کے کارنامے اور قربانیوں کو تحریر کرنے کے لیے الفاظ کا ذخیرہ تو بے بہا ہے مگر قلم کی سیاہی اور کاغذ ناکافی.  ہم بحثیت پاکستانی محترمہ شہید کو خراج تحسین پیش کرتے وقت رسمی جملوں کا استعمال کرتے ہیں. کالم اور بلاگ  بھی لکھے جاتے ہیں. جب کہ بعض شہروں میں مقامی سطح پر تقاریب بھی منعقد کی جاتی ہیں. لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا بھٹو خاندان اور بالخصوص محترمہ بےنظیر بھٹو کی لازوال قربانیاں اس سے زیادہ خراج تحسین کی مستحق نہیں ہیں. کیا 27 دسمبر کا دن قومی سوگ کے طور پر نہیں منایا جانا چاہئے.
بینظیر بھٹو شہید کا اٹھا ہوا ہر قدم اور ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ پاکستان کے عوام اور جمہورت کی سربلندی کے لیے وقف تھا. 1988 اور 1993 کے عام انتخابات میں ان کا مقابلہ کسی جمہوری سیاسی پارٹی سے نہیں بلکہ طاقتور قوتوں, ان کے مہروں اور ملک کے صدر سے تھا. جنہوں نے عوام کی واحد نمائندہ لیڈر کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے ہر ناجائز حربہ استعمال کیا. مگر وہ محترمہ کو جھکا نہ سکے.
سب سے پہلے ان کے عظیم والد کو راستے سے ہٹایا گیا اس کے بعد ان کے اپنے راستے میں کانٹے بچھائے گئے. ان کے دور اقتدار میں شاہنواز بھٹو کو ایک مشکوک پولیس مقابلے میں شہید کردیا گیا. شاہنواز بھٹو کی وفات کے دوسرے یا تیسرے دن پارٹی کے غدار فاروق لغاری نے محترمہ کی حکومت کے خلاف ایک ریفرنس سپریم کورٹ میں فائل کردیا. اس سنگدل شخص نے چند دن انتظار کرنا بھی مناسب نہ سمجھا کیوں کہ محترمہ عالم غم میں تھیں. دوسری طرف مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو پے درپے صدمات برداشت نہ کرسکیں اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گہیں. ان پے در پے سانحات کے باوجود بھی بےنظیر بھٹو پر عزم رہیں. وہ عزم اور حوصلے کے ساتھ جابر قوتوں کے راستے میں دیوار بن کر کھڑی رہیں. ان کا احتساب بھی ایسا کیا گیا کہ آج قانون اور انصاف کے ساتھ ساتھ احتساب کرنے والے بھی شرمسار ہیں. محترمہ کا شوہر ہونا سیاست کے مہا گرو آصف علی زرداری کے لیے وبال جان بن گیا. انہیں زندگی کے کئی قیمتی سال زندان میں گزارنا پڑے. پیپلزپارٹی کے ایک اور غدار جام صادق کے دور میں زرداری صاحب بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنے. ان کی زبان تک کاٹ دی گئی.
اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد بی بی شہید کی بڑے منظم انداز میں کردار کشی کی گئی. سابق آمر ضیا کی برسی کے موقع پر ایک بدبخت شخص نے محترمہ کے خلاف بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے انتہائی غلیظ الفاظ منہ سے نکالے. جن کو کوئی مہذب  اور خاندانی آدمی منہ پر لانے کا  تصور بھی نہیں کرسکتا. آمر کے بیٹوں کو اپنے والد کی برسی پر اس بدتہذیبی پر کچھ تو ندامت محسوس ہونی چاہئے تھی. جب شہید بی بی قومی اسمبلی ہال میں داخل ہوتیں. تو ان پر گندے فقرے کسے جاتے.
مگر وہ تحمل اور برداشت کے ساتھ غلاظت پر مبنی یہ مہم برداشت کرتی رہیں. انہوں نے اپنے منہ سے کبھی کوئی ایسا لفظ نہیں نکالا جو بدتہذیبی کے زمرے میں آتا ہو. وہ ایک تعلیم یافتہ اور شائستہ خاتون تھیں. وہ بھٹو شہید کی بیٹی جو تھیں. انہوں نے بیگم نصرت بھٹو جیسی مہذب خاتون کی گود سے تہذیب سیکھی. محترمہ اپنے عظیم المرتبت خاندان کی اعلی روایات  کی امین بن کر سیاست کے میدان میں اتریں اور اپنا لوہا منوایا. ان کی بین القوامی شہرت اور خداداد قائدانہ صلاحیتوں سے خوفزدہ چھوٹی سوچ کے بونے لوگوں نے ان کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر ان کو جھکایا نہ جاسکا.
غداری کا سرٹیفیکیٹ پہلی دفعہ محترمہ شہید کے حصے میں آیا. میزائل ٹیکنالوجی کی خالق کو ملک دشمن ثابت کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا. انہوں نے غلام اسحاق, حمیدگل, اسلام بیگ, لغاری, شریف خاندان, چوہدری برادران اور پرویز مشرف جیسے گھاگ افراد کا تن تنہا مقابلہ کیا اور ان کو ناکوں چنے چبوائے. کاش یہ لوگ سیاست میں رول آف گیم کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بی بی شہید کا مقابلہ کرتے تو کتنا احسن اقدام ہوتا. مگر وہ بزدل پشت پر وار کرنے والوں میں سے تھے.
 بینظیر شہید چاہتیں تو عیش و آرام کی زندگی بسر کرسکتی تھیں. مگر انہوں نے عوام کی خدمت کا بیڑا  اٹھا رکھا تھا. محترمہ نے مزدوروں, کسانوں, طلباء اور غریب طبقات کو جائز حقوق دلانے کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا. وہ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے زخموں پر مرہم رکھنے ان کی دیلیز پر جانے میں خوشی محسوس کرتیں. غرور اور تکبر سے ناآشنا دختر مشرق فرش پر بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنا کرتیں. وہ واقعی غریبوں کی رہنماء تھیں. محترمہ کا ہاتھ تمام عمر پسے ہوئے طبقے کی نبض پر رہا.
ملک کو فرنٹ سے لیڈ کرنے والے راہنماء تیار ہونے میں کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں. اور زندہ قومیں قابل اور معاملہ فہم لیڈر کی قدر کرتی ہیں. بدقسمتی سے مگر ہمارے وطن میں بھٹو اور بےنظیر شہید جیسی مدبر شخصیات کو راستے سے ہٹانے کے لیے تمام دستیاب ریاستی اور غیر ریاستی وسائل استعمال کیے جاتے رہے.
آج جب ملک تاریخ کے بدترین سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار ہے. محترمہ کے بدترین مخالف بھی ان کی کمی محسوس کر رہے ہیں. اگر وہ حیات یوتیں تو اہنے تدبر اور قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر وطن عزیز کو اس بحران سے نکال سکتی تھیں.
بےنظیر بھٹو شہید نے پارٹی کی اساس شرافت کی سیاست پر رکھی تھی. جس پر پارٹی کی قیادت آج بھی کاربند ہے . یہی تہذیب اور شائستگی کا تقاضہ بھی ہے. اگر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں شرافت کی سیاست کو اپنا شعار بنالیں تو بہت مناسب ہوگا. سیاستدان کب تک ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہیں گے. کب تک ایک دوسرے کی کردار کشی کی جائے گی. اس آپس کی لڑائی نے غیر جمہوری قوتوں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کردیا ہے. جو جمہوریت کے لیے نیک فال نہیں ہے.
14 اگست کو پاکستان میں آزادی کا دن بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے. اس دن کی مناسبت سے ملی نغمے بھی گائے جاتے ہیں. ایک ملی نغمے کے بول کچھ یوں ہیں.
ہم زندہ قوم ہیں. پائیندہ قوم ہیں”
 سوال یہاں یہ ہے کہ واقعی ہم ایک زندہ قوم ہیں. یہ میں نہیں پوچھ رہا. محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا لاشہ پوچھ رہا ہے. پاکستان کے غریب اور بے سہارا لوگ پوچھ رہے ہیں. جھنڈیاں لگانے اور ترانے گانے سے قومیں کبھی زندہ کہلانے کا حق نہیں رکھتیں. من حیث القوم سب کو اپنے حصے کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دینا پڑتی ہیں. آئین اور پارلیمنٹ کی سپریمیسی کو قبول کرنا پڑتا ہے. انصاف کا ترازو برابر رکھنا پڑتا ہے. تب ہی ہم زندہ قوم کہلانے کے حقدار ہوسکتے ہیں.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments