اِس کو بھی سکون نہیں


سوا دس بجے آنکھ کھلی۔ اٹھ کر بستر پہ ہی بیٹھ گیا۔ موسم سرما میں جو لوگ نیند سے بیدار ہونے کے بعد اچانک گرم بستر سے نکل کر گھر کے صحن میں چلے جاتے ہیں تو کچھ لوگوں کو فالج یا دل کے دورہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تھوڑی دیر بستر پہ ہی بیٹھا رہنا چاہیے۔ سوچنے لگ گیا کہ گزشتہ رات کیا پڑھا تھا؟ ہاں یاد آ گیا، طب یونانی کے موضوع پہ لکھی گئی تحریر پڑھی تھی کہ پرانے دور میں حکماء حضرات پھوڑے پھنسیوں، خارش اور خون کے زہریلا ہو جانے سے ہونے والے بخار کے علاج کے لیے خون صاف کرنے والی جڑی بوٹیوں سے بنی ہوئی ادویات تو استعمال کراتے تھے تاہم وہ ذیابیطس اور زہریلے مادوں کی وجہ سے خرابی کا شکار ہو جانے والے گردوں کے علاج کے لیے بھی خون صفا ادویات کا استعمال کراتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ خون میں بڑھ جانے والی شکر کو خون صاف کرنے والی جڑی بوٹیاں استعمال کرانے سے خون میں شکر کا توازن قائم ہو جاتا ہے ساتھ ہی اضافی شکر جسم سے باہر نکل جاتی ہے۔ اور تو اور وہ نزلہ، زکام اور کھانسی کے لیے بھی خون صفا ادویات دے دیتے تھے۔ خون صاف کرنے والی ادویات کی کڑواہٹ چونکہ معدہ پہ اثر انداز ہو کر معدہ کی خرابی کا سبب بن سکتی ہے تو وہ مشورہ دیتے تھے کہ خون صفا دوا لینے سے آدھ گھنٹہ پہلے ایک گلاس پانی میں اسپغول لے لیں تاکہ خون صفا دوا آپ کے معدہ پہ اثر انداز ہوئے بغیر براہ راست خون میں ہی چلی جائے۔ اچھا، یہ بھی لکھا تھا کہ حکماء کے تجربات کے مطابق شہد، کلونجی اور زیتون کے تیل کا شمار بھی خون صفا ادویات میں ہوتا ہے۔

ویسے ہومیوپیتھی میں پھولوں سے بنی دوا ”ایکنیشیا“ کو سب سے بڑی خون صفا دوا کا درجہ حاصل ہے جو خون کے زہریلا ہو جانے، پھوڑے پھنسیوں، دانے دار بخار، خسرہ، خون کا کینسر، سانپ، بچھو اور بھڑ کے لڑ جانے، زہریلی صنعتی و غیر صنعتی گیسوں اور زہریلی سموگ کے اثرات سے پیدا ہونے والے امراض کے علاج میں استعمال ہوتی ہے تاہم وہ مرد جو اس لیے بے اولاد ہوتے ہیں کہ ان کی لیب رپورٹ میں پس سیلز آ رہے ہوتے ہیں تو ایکنیشیا ان پس سیلز کا خاتمہ کر کے ان کے باپ بننے کا سبب بن جاتی ہے۔ (جدید میڈیکل ریسرچ کے مطابق مرد اور عورت کے بے اولاد ہونے میں ستر فیصد وجوہات مرد کے اندر ہوتی ہیں اس لیے انفرٹیلیٹی کلینکس عورت سے پہلے مرد کے لیب ٹیسٹ پہ زور دیتے ہیں۔)

آج 7 جنوری 2022 ہے۔ گزشتہ ساری رات بارش ہوتی رہی ہے ابھی دن میں بھی بارش ہو رہی ہے۔ اور پھر لائٹ چلی گئی۔ اب کیا کریں؟ واک کے لیے باہر نہیں جا سکتے۔ گیس آ نہیں رہی کہ ہیٹر جلا کر اس کے سامنے مفکر بن کر بیٹھے رہیں۔ اوہ، لائٹ واپس آ گئی۔ کمپیوٹر آن کر کے انٹرنیٹ کھولا۔ خبروں میں تھا کہ جنوبی کوریا میں صدارتی انتخابات میں گنج پن کا مسئلہ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ جنوبی کوریا میں ہر پانچ میں سے تقریباً تین افرد گنجے ہوتے ہیں۔ ان لاکھوں گنجوں نے تحریک چلائی تھی کہ حکومت ان کے سر پہ بال لگوانے کے اخراجات برداشت کرے۔ اہم صدارتی امیدوار نے اپنی الیکشن کمپین میں اعلان کر دیا کہ وہ ملک کے صدر منتخب ہو جانے کے بعد قانون بنا دیں گے کہ ہر گنجے کے سر پر حکومتی خرچہ پہ بال لگائے جائیں۔ اب کوریا کے میڈیا میں بحث چھڑ چکی ہے کہ کیا عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم سے اربوں روپے صرف گنجوں کو ”بال دار“ کرنے پہ خرچ کر دیے جائیں گے؟ اوہ، انٹرنیٹ بھی منقطع ہو گیا۔ اب کیا کریں؟ گیٹ کے اوپر سے باہر کھلے آسمان کی طرف نظر پڑی تو سڑک کے پاس لگے کھمبوں کے اوپر بجلی کی تار پہ ایک کوا بڑے اداس موڈ میں بیٹھا ہوا ہے۔ اچھا، آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وہ اداس ہے؟ ارے بھائی! اگر آپ کی روح نیچر کے ساتھ رابطے میں آ جائے تو خود بخود محسوس ہو جاتا ہے کہ کون کس ”موسم“ میں ہے؟

باہر نکل کر گیٹ کو بند کیا اور کہا ”میرے پیارے اللہ! میرے پیارے لوگ، میری ذات اور میرا گھر تیری پناہ میں ہیں“ ۔ سڑکوں پہ پانی کھڑا ہے۔ ایک گھر کے سامنے ایک موٹر سائیکل لوڈر رکا اور کھانے کی دیگیں اتاری گئیں۔ مہمان اور رشتہ دار اس گھر میں آ رہے ہیں۔ اس گھر کے مالک نے ان کے اعزاز میں دعوت کر رکھی ہو گی۔ میں نے سوچا، شدید سردی اور مسلسل بارش اور اس بندے کو رشتہ داروں کو بلا کر دعوتیں کرنے کی سوجھی گویا ”اس کو بھی سکون نہیں“ ۔

لوگوں نے اپنے گھروں کے گیٹ کے سامنے اونچے ریمپ بنوا رکھے ہیں جو سامنے گزرتی سڑک پہ ہی آ گرتے ہیں۔ سڑکیں پانی سے بھری ہوئی ہیں گویا دائیں بائیں جگہ ہی نہیں کہ آپ خود کو پانی سے بچا کر گزر جائیں۔ مارکیٹ اور دکانوں والا علاقہ آ گیا۔ اوہ، وہاں تو لوگوں کا رش لگا ہوا ہے۔ لوگ تندور سے روٹیاں لینے آئے ہوئے ہیں کہ گھر میں گیس ہی نہیں ہے۔ جنرل اسٹور سے دودھ کے پیکٹ اور چائے کی پتی لے رہے ہیں۔ سوچا، اتنی سردی، مسلسل بارش، ان لوگوں کو گھر میں بیٹھنا چاہیے تھا اور یہ ”شڑاپڑ شڑاپڑ“ بارش کے پانی سے گزر رہے ہیں۔ جو بندہ بھی میرے سامنے سے گزر رہا ہے تو میں اس کے بارے میں کہہ رہا ہوں کہ ”اس کو بھی سکون نہیں“ ۔ ایک بھکاری وہیل چئیر پہ بیٹھا اپنے ہاتھوں سے وہیل کو گھماتا سڑک پر سے گزر رہا ہے آس پاس گزرتی گاڑیاں اس پہ کھڑے پانی کے چھینٹے ڈالتی جا رہی ہیں۔ اوپر سے بارش ہو رہی ہے۔ ٹھیک ہے یہ بھیک مانگ کر دن کے دو چار ہزار روپے بنا لیتا ہو گا لیکن یہ موسم، یہ بارش، یہ سردی کچھ تو سوچتا۔ آج تو اپنے گھر بیٹھا رہتا۔ پھر سوچا ”اس کو بھی سکون نہیں ہے“۔
ایک چھپر ڈھابہ پہ پہنچ گیا ہوں۔ ڈھابہ والے کو کہا ”کوارٹر چکن کڑاہی ڈش بنا دو کالی مرچ والی“ ۔ وہ کہتا ہے صاحب! بارش دیکھو، موسم دیکھو۔ کیوں ہمیں تکلیف میں ڈالتے ہو۔ آج آپ کو کڑاہی گوشت نہیں ملے گا۔ میں نے کہا مجھے بھوک لگی ہوئی ہے اور روح کہہ رہی ہے آج کڑاہی گوشت کھانا ہے۔ وہ بولا کچھ کرتے ہیں۔ ریفریجریٹر سے گزشتہ رات کا یا پتہ نہیں دو دن پہلے کا پکا ہوا چکن قورمہ نکالا۔ گرم کیا اور تندور پہ روٹیاں لگا کے میرے سامنے لا کے رکھ دیا۔ میں نے صبر و شکر کے ساتھ کھا لیا۔ سامنے سڑک کی گرین بیلٹ کے ساتھ نیم کے درختوں کی قطار ہے۔ ان درختوں پہ بارش کے قطرے گر رہے ہیں۔ میں گرم گرم چائے کی چسکیاں لے رہا ہوں۔ درخت دھلے دھلے بہت پیارے لگ رہے ہیں۔ شاید اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کی تعطیلات ختم ہو چکی ہیں اور طلباء و طالبات واپس آ چکے ہیں۔ قریبی اسٹاپ پہ یونیورسٹی کی بس آ کے رکی ہے۔ طالبات مارکیٹ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ایک لڑکی نے نہ خود کو بارش سے بچانے کے لیے کچھ کیا نہ اس کو سردی کی پرواہ ہے۔ آج کے دن تو اس کو اپنے ہوسٹل میں رہنا چاہیے تھا پھر سوچا ”اس کو بھی سکون نہیں“ ۔

پارک پہنچ گیا ہوں۔ اتنا بڑا پارک اور بس میں ہوں اور میرے جیسے چند لوگ۔ درخت، پودے، پھول سب کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔ کچھ خواتین اپنے شوہروں اور بچوں کو سردی اور بارش میں گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتیں۔ بارش نہ بھی ہو تب بھی خوبصورت موسم کو بھی سردی کے نام پہ انجوائے نہیں کرنے دیتیں بس ان پہ حکم چلا رہی ہوتی ہیں۔ ”گھر سے باہر نہیں جانا باہر بہت سردی ہے“ ۔ میری بڑی بہنوں کی میرے لیے نصیحت ہوتی ہے کہ بارش اور شدید سردی میں گھر سے باہر نہ نکلوں۔ اگر ان کو پتہ چل جائے کہ اس وقت میں سردی میں پارک میں واک کر رہا ہوں تو انھوں نے کہنا ہے ”اس کو بھی سکون نہیں“ ۔

مرد ”بیچارا“ ساری زندگی عورت کے ہاتھوں مار کھاتا رہتا یا بے عزت ہوتا رہتا ہے۔ چھوٹا بچہ ہوتا ہے تو نہانا نہیں چاہتا تو ماں تھپڑ مار مار کر نہلاتی ہے۔ اب انسان کو اتنی آزادی تو ہونا چاہیے کہ وہ چاہے تو سال میں ایک بار نہائے اور چاہے تو دس سال بعد نہائے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ ویسے بھی انسان روزانہ غسل کرنے کی بجائے کبھی کبھار ہی نہائے تو فرانس اور یورپ کی طرح ملک میں پرفیوم کا کاروبار بہت چلے گا۔ نہ صرف ملک کے اندر اربوں روپے کا پرفیوم فروخت ہو گا بلکہ کھربوں روپے کا برآمد بھی ہو گا۔ اب آپ کی اپنی مرضی ہے کہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ایک ”محب وطن شہری“ کے طور پہ دو چار سال میں صرف ایک بار نہانے کا فیصلہ کرتے ہیں یا پھر صبح شام نہا نہا کر دریاؤں کا پانی ختم کرتے اور ملکی معیشت کو ”نقصان“ پہنچاتے ہیں۔ خیر۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ مرد عورت کے ہاتھوں مار کھاتا رہتا ہے تو جب تھوڑا سا بڑا ہوتا ہے تو بڑی بہن سے مار کھاتا ہے۔ اسکول پڑھنے جاتا ہے تو پڑھانے والی ٹیچر سے ڈنڈے کھاتا ہے۔ پھر شادی شدہ ہونے کے بعد بیوی کے ہاتھوں ایسے ”سلوک“ سے گزرتا رہتا ہے جس سے گزرنے کے بعد اسے قطب غوث نہ سہی لیکن چھوٹے موٹے ولی کا خطاب تو ملنا چاہیے۔ جب سے کرونا آیا ہے، سنا ہے گھر میں ہونے والی لڑائیوں میں کئی شوہروں کو اپنی بیویوں کے ہاتھوں بیلن اور جھاڑو والی مار بھی پڑی ہے یہ اور بات کہ باہر آ کر کوئی بھی بتاتا نہیں ہے۔ سب یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ”میرا اپنی بیوی پہ بڑا رعب ہے“ جبکہ اصل کہانی کچھ اور ہوتی ہے۔ خیر۔ (خواتین کو راقم کے اس مشاہدہ سے اختلاف ہے تو ان کا اختلاف ”برحق“ ہے۔ بھلا ساڈی کیا مجال)

سڑک پہ چھوٹے بچے موٹر سائیکل دوڑا رہے ہیں۔ جوشیلے نوجوان اپنی قیمتی کاریں بارش کے ٹھہرے پانی میں بڑی تیز رفتاری سے گزار رہے ہیں۔ پاس گزرتے پیدل چلنے والوں پہ پانی کے چھینٹے پڑ رہے ہیں۔ وہ ناگواری سے بڑ بڑا رہے ہیں اور گاڑیوں کے اندر بیٹھے نو دولتیے نوجوان قہقہے لگا رہے ہیں۔ اب اگر حکومت کو مشورہ دیا جائے کہ اگر چھوٹے بچے گاڑی یا موٹر سائیکل چلا رہے ہوں تو پولیس یہ گاڑی اور موٹر سائیکل اپنے قبضہ میں لے لے اور قانون یہ ہو کہ بچے کا والد یا والدہ جس سرکاری محکمہ یا پرائیویٹ ادارے میں کام کرتے ہوں ان کے خلاف ان کے محکمہ یا ادارے کے بڑے افسر کو پولیس شکایتی خط لکھے کہ یہ غافل والدین ہیں جو اپنے بچے کو ڈرائیونگ کی اجازت دے کر اور اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل اس کے حوالے کر کے اس کی زندگی خطرہ میں ڈالنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ محکمہ یا ادارے کا سربراہ وارننگ لیٹر جاری کرے اور اپنے ان ماتحتوں کی سالانہ اے سی آر میں بھی لکھے کہ یہ غفلت کے ارتکاب کرنے والے والدین ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون کے مطابق بچہ کے قبضہ سے لیے گئے موٹر سائیکل کے جرمانہ کا ٹکٹ اصل مالک کے نام کم از کم پچاس ہزار روپے کا جاری ہو اور گاڑی سستی ہے تو جرمانہ کا ٹکٹ ایک لاکھ روپے کا ہو اور اگر مہنگی والی ہے تو دو لاکھ روپے سے لے کر دس لاکھ روپے تک کا جرمانہ کا ٹکٹ ہو اور یہ ٹکٹ براہ راست پولیس کو ہی جاری کرنے کا اختیار ہو۔ اسی طرح شہر کے اندر اسپیڈ چیک کرنے والے کیمرے نصب ہوں جو تیز رفتاری سے گاڑی چلانے والوں کو بھاری جرمانہ کا ٹکٹ خود کار کمپیوٹر سسٹم کے ذریعے جاری کرا دیں۔ یورپ و امریکہ میں بھی تو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پہ دو ہزار ڈالر تک کا جرمانہ بھی عائد ہو جاتا ہے۔ جرمانہ کی چھوٹی رقم سے تو آپ ٹریفک کے نظام کو کبھی بھی درست نہیں کر سکتے۔ اوہ نہیں بھائی نہیں، ایسا نہیں کرنا۔ آپ نے اس تجویز کو عملاً نافذ کر دیا تو ان بچوں کے والدین نے جلوس نکال کے اور دھرنے دے کر چیخ چیخ کر میرے بارے میں کہنا ہے ”اس کو بھی سکون نہیں“ ۔

شام کا دھندلکا چھانا شروع ہو گیا ہے۔ بارش ابھی تک رکی نہیں۔ بارش میں ہی خراماں خراماں واپس اپنے گھر کی طرف جا رہا ہوں اور اپنی نظم ”لمحہ“ کو بھی گنگنا رہا ہوں۔

محبتیں بانٹ دو ساری
دل نواب ہوا چاہتا ہے
محفل نہیں تنہائی ہے
موسم عذاب ہوا چا ہتا ہے
پانا، پا کے کھو دینا
ملن خواب ہوا چا ہتا ہے
ہوتا ہے غم کا اثر
پتھر آب ہوا چاہتا ہے
بے چین کو چین واسطے
دل بے تاب ہوا چاہتا ہے
ڈھونڈنا وفا ایسے جیسے
سادہ پانی شراب ہوا چاہتا ہے
تھوڑا جی لو اکبر میاں
لمحہ سراب ہوا چاہتا ہے

گھر پہنچ گیا ہوں۔ بارش کے پانی میں بھیگا ہوا ہوں۔ نہا لینا چاہیے۔ کمپیوٹر آن کر کے یہ بلاگ لکھ رہا ہوں۔ اوہ، پھر لائٹ چلی گئی۔ لائٹ کے بارے میں بس یہ کہتا ہوں کہ ”اس کو بھی سکون نہیں“ ۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments