نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر ہر گوبند کھورانہ کون تھے؟


ہم سب نوبل انعام یافتہ عبدالسلام کے کام سے واقف ہیں۔ جنہیں ہم جب چاہتے ہیں ٹھکراتے تو پھر کبھی اپنی مرضی سے اپنا بھی لیتے ہیں کیونکہ ان کا خمیر پنجاب کے شہر جھنگ سے اٹھا۔ لیکن آج نو جنوری کو ہم ایک ایسے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ہرگوبند کھورانہ کی بات کریں گے کہ جن کی پیدائش کو آج ایک صدی گزر گئی ہے۔ اور جنہوں نے تقسیم سے قبل 1922ء میں ملتان کے گاؤں رائے پور میں آنکھ کھولی۔ اسی مٹی میں پروان چڑھے، پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیا اور پھر مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک چلے گیے۔

وہ وقت جب حیاتیاتی سائنس موروثی مادے ڈی این اے اور اس کے افعال کے علم میں شیرخواری کے درجہ پہ تھی ایک انہوں نے اس شعبہ میں اہم کام کر کے 1968 ء میں ڈاکٹر مارشل نیرن برگ کے ساتھ فزیالوجی یا میڈیسن کا نوبل انعام حاصل کیا۔

ڈاکٹر ہر گو بند نو جنوری 1922ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکمران نو آبادیاتی حکومت کے قائم کردہ زرعی محصولات کی وصولی کے نظام میں پٹواری کے عہدے پہ فائز تھے۔ ہرگوبند ایک شریر بچے تھے اور گاؤں کے میٹھے رسیلے گنے چراتے اور کھیلتے کودتے پروان چڑھے۔ اس وقت گاؤں میں کوئی اسکول نہ تھا مگر ان کے والد تعلیم کو اہمیت دیتے تھے لہٰذا اولاد کو ملتان کے دیانند اینگلو ویدک ہائی اسکول تک تعلیم دلائی۔ اس کے بعد ہرگوبند نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیا۔ وہ سال تھا 1945ء کا کہ جب انہیں کیڑے مارنے والی ادویات اور فنگی سائیڈ کا مطالعہ کرنے کے لیے انگلینڈ بھیجا گیا۔ جہاں انہیں لیورپول میں کیمسٹری پڑھنے کا موقع ملا۔

یہ اچھا ہی ہوا کہ انہوں نے انسانی تاریخ کی بدترین ہجرت کی خونریزی کے مناظر اور بربریت نہیں دیکھی کہ جس میں دس لاکھ قتل ہوئے اور کئی گنا زیادہ لوگ بے گھر و برباد ہوئے۔ یہ سب جو نہ ہندو تھے نہ سکھ اور نہ مسلمان بلکہ انسان تھے۔ ہرگوبند کے گھرانے نے بھی ملتان سے بھاگ کے دہلی میں پناہ لی۔

آج سائنس نے خاصی ترقی کرلی ہے لیکن 1950 ءمیں سائنس دان انسانی خلیہ کے موروثی مادہ یعنی سب سے اہم خزانے ڈی این اے کی کنجی کھولنے میں مصروف تھے۔ وہ کیا ہے اور جسم میں پروٹین کس طرح بنتی ہے۔ ہرگوبند نے 1960ء میں میڈیسن وسکونسن میں جنیاتی کوڈ کے مسئلے پہ کام کیا کہ کس طرح ڈی این اے اور آر این اے کی زبان خلیہ میں پروٹین میں تبدیلی کرتی ہے۔ ان کو اس کام پر 1968ء میں 45 سال کی عمر میں نوبل انعام ملا۔ جبکہ ان کا انتقال 2011 میں ہوا۔ ان کا سائنسی کام آج بھی مانا اور سراہا جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد پہ اگلی دریافتوں کی پیشرفت ہوئی۔

کہنا یہ تھا کہ جب انسانی ذہن کی زرخیز زمین نسل، مذہب، جغرافیائی حدود اور زبان و ثقافت میں تفریق کی بنیاد پہ زہر اگلنے لگتے لگتی ہے تو ہمیں یہ یاد نہیں رہتا کہ آج دنیا ایک عالمی گاؤں ہے۔ اس گاؤں میں میٹھے گنے چراتے، شفاف جھیلوں میں نہاتے ہنستے کھلکھلاتے بچے ایک ہی دھرتی ماں کے وجود کا حصہ ہیں۔ اصل انسانی ترقی کی معراج ایک دوسرے کو اپنانے اور محبت کرنے میں ہی ہے۔ نفرتوں اور تفرقوں میں ہرگز نہیں۔

(اس مضمون کی تیاری کے لیے ڈان اخبار کے مضمون سے مدد لی گئی جسے الوک کھورانہ نے لکھا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments