کمالیہ نکیل کیس: ہاں میں نے نکیل ڈالنے کا حکم دیا تھا


1974 ء کی بات ہے، میں ان دنوں پنجاب کے ضلع جھنگ میں انسپکٹر سی آئی اے تعینات تھا۔ پنجاب کے جو تین علاقے ان دنوں جرائم میں سر فہرست تھے، ان میں سے ایک ضلع جھنگ بھی تھا۔ دوسرے دو علاقے ضلع گجرات کی تحصیل پھالیہ اور ملک وال تھے۔ جہاں قتل اور مویشیوں کی چوری کی وارداتیں بہت عام تھیں۔ ضلع جھنگ میں ایسی ہی وارداتوں کے قلع قمع کے لیے مجھے انسپکٹر کریمنل انوسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے ) جھنگ لگایا گیا تھا۔

*جھنگ سے کمالیہ تبادلہ:

ایک دن معمول کے گشت پر میں چنیوٹ میں تھا، جب ایس ایس پی جھنگ کی جانب سے مجھے وائرلیس پر پیغام موصول ہوا کہ آئی جی پنجاب راؤ عبدالرشید کی جانب سے میرا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ مجھے پیغام میں کہا گیا کہ میں فوری طور پر بطور سب ڈویژنل پولیس افسر کمالیہ پہنچوں اور وہاں جا کر چارج سنبھال لوں۔ ساتھ یہ ہدایت بھی کی گئی کہ وہاں پہنچ کر آئی جی کو ذاتی طور پر اپنی آمد کی اطلاع کروں۔ کیونکہ وہ مجھ سے کوئی ضروری بات کرنی چاہتے ہیں۔

کمالیہ میں ان دنوں ایک خاص واقعہ کی وجہ سے وسیع پیمانے پر ہنگامے ہو رہے تھے۔ تقریباً آدھا شہر اور اس کی املاک جلا دی گئی تھیں۔ کمالیہ ان دنوں ضلع فیصل آباد کی سب تحصیل تھی۔ جبکہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ٹوبہ ٹیک سنگھ تھا۔ چیچہ وطنی ٹوبہ ٹیک سنگھ روڈ پر واقع کمالیہ دریائے راوی کے کنارے پر آباد برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک اہم قصبہ تھا۔ جہاں پر کھرل، راجپوت، آرائیں اور گوجر بڑی تعداد میں آباد تھے۔

کمالیہ انگریزوں کے خلاف مزاحمتی تحریکوں میں بھی بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ کمالیہ ساندل بار کی اس پٹی میں واقع تھا، جہاں پر احمد خاں کھرل، دلا بھٹی اور بھگت سنگھ جیسے آزادی کے متوالوں نے انگریزوں کے خلاف بڑی دلیری کے ساتھ مزاحمت کی۔

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے زیادہ تر مہاجرین، جو لائلپور، کمالیہ، پیر محل، سمندری، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور چیچہ وطنی سمیت دیگر ملحقہ علاقوں میں آ کر آباد ہوئے، ان مہاجرین کی اکثریت زیادہ تر مشرقی پنجاب کے اضلاع جالندھر، امرتسر، ہوشیار پور اور لدھیانہ سے آئی تھی۔

کمالیہ شہر آج سے 45 سال قبل بھٹو دور میں پیش آئے ”نکیل کیس“ واقعہ کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ جس کا تفصیلی ذکر اس مضمون میں آگے آئے گا۔ اس کے علاوہ کسی زمانے میں اور شاید اب بھی کمالیہ کے مشہور زمانہ کھدر کا ملک بھر میں خاص شہرہ رہا ہے۔

بطور انسپکٹر سی آئی اے، جھنگ سے کمالیہ تبدیل ہو کر آنے والے یہ سب ڈویژنل پولیس افسر ، انسپکٹر راجہ انار خاں تھے۔ جو راجہ گل انار خاں کے نام سے بھی مشہور ہوئے۔ وہ کمالیہ نکیل کیس کا ایک اہم اور مرکزی کردار تھے۔ دوران پولیس سروس ( 1960 تا 1999 ) راجہ انار خاں سپیشل برانچ کے مرکز شاہی قلعہ لاہور کے 1967 سے 1973 ء تک انچارج بھی رہے۔

شیخ مجیب الرحمن جن دنوں ( 1969۔ 1970 ) ، پاکستان کی میانوالی اور فیصل آباد جیلوں میں اپنے خلاف غداری کیس کا سامنا کر رہے تھے۔ اس دوران راجہ انار خاں سپیشل برانچ کی جانب سے بطور انسپکٹر، تاہم جیل سیل میں ایک مشقتی کا روپ دھار ”راجے خاں“ کے فرضی نام سے نو ماہ تک شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ رہے،

جیل سیل راجہ انار خاں کی ذمے داریوں میں شیخ مجیب الرحمن کی سیکورٹی کے علاوہ انہیں دن کے وقت سیل سے باہر نکالنا اور شام میں بند کرنا بھی شامل تھا۔ مشقتی کے دیگر فرائض کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر وہ اپنے اعلیٰ حکام کو شیخ مجیب الرحمن کے متعلق ڈائری بھی لکھ کر بھیجتے تھے۔ انہوں نے مشقتی کی ڈیوٹی اتنی عمدگی سے نبھائی کہ آخر وقت تک شیخ مجیب الرحمن کو ”راجے خاں“ کی اصلیت کا علم نہیں ہو سکا۔

(پڑھیے۔ پہلا حصہ راجہ انار خاں کی یادداشتیں )

گزشتہ دنوں راولپنڈی میں مقیم پاکستان کی تاریخ کے اہم کردار، 87 سالہ راجہ انار خاں سے راقم الحروف کو بالمشافہ ملاقات کا موقع میسر آیا۔ ہم نے موقع غنیمت جان کر ان سے اور بہت سی باتوں کے علاوہ 45 سال پرانے ”کمالیہ نکیل کیس“ ( 1977 ) میں ان کے کردار کے حوالے سے بھی تفصیلی گفتگو کی۔

*کمالیہ میں جب کھرل فیملی کی کوٹھیوں کو آگ لگائی گئی:

راجہ انار خاں نے کمالیہ نکیل کیس میں اپنے کردار اور دیگر حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ ”جب وہ سپیشل اسائنمنٹ پر کمالیہ پہنچے، تو ہنگاموں کی وجہ سے آدھا شہر جل چکا تھا۔ روز ہنگامے ہوتے اور جلوس نکلتے۔ اس کا موجب بنا اصل واقعہ یہ تھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے چند لڑکیاں اساتذہ کی تربیت کے ادارے گورنمنٹ نارمل سکول کمالیہ میں پڑھنے کے لیے روزانہ آیا کرتی تھیں۔ بس سے اتر کر جس راستے سے ہوتی ہوئی وہ سکول پہنچتی تھیں، وہیں پر رہائش پذیر کھرل فیملی کے ایک لڑکے سے ایک طالبہ کا تعلق بن گیا۔

ایک دن موقع پا کر کھرل فیملی کے لڑکے نے اپنی بیٹھک کے پاس سے گزرتی ہوئی اس لڑکی کا بازو پکڑ کر اسے اندر کھنچ لیا۔ اسی اثناء میں گلی میں کسی نے اسے (کھرل لڑکے ) کو یہ حرکت کرتے دیکھ لیا۔ دیکھنے والے نے فوری طور پر نارمل سکول پہنچ کر اس کی پرنسپل کو اس واقعہ سے متعلق آگاہ کر دیا۔

سکول کی پرنسپل نے ہنگامی طور پر شہر کے چند معززین کو اس واقعے سے آگاہ کر دیا۔ ان کے ذریعے سے ہوتی ہوئی یہ خبر آناً فاناً سارے شہر میں پھیل گئی۔ لوگ جوق در جوق اکٹھے ہو گئے۔ اشتعال میں آ کر بعض افراد نے کھرل فیملی کی کوٹھیوں کو آگ لگانی شروع کر دی۔ پیپلز پارٹی کی رہنما بیلم حسین کی فیملی کا سینما بھی جلا دیا گیا۔ کمالیہ بسوں کے اڈے اور بازار میں متعدد دکانیں اور دیگر نجی املاک جلا دی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان ہنگاموں کی وجہ سے تقریباً آدھا کمالیہ جل چکا تھا۔

Haveli mian bashir ahmad shamsi

*جب پولیس نے خواتین کو پناہ دینے سے انکار کر دیا:

اسی دوران تاہم میرے کمالیہ تعینات ہونے سے پہلے ایک واقعہ یہ بھی سننے میں آیا کہ جب کمالیہ میں کھرل فیملی کی کوٹھیاں جلائی جا رہی تھیں، تو کھرل فیملی کی چند خواتین جلتی ہوئی ایک کوٹھی سے ننگے پاؤں افراتفری کے عالم میں مدد کے لیے قریبی واقع پولیس کے ایس ڈی پی او، انسپکٹر خلیل الرحمٰن کی رہائش گاہ پر پہنچیں تو انہوں نے مشتعل مجمعے کے خوف سے ان کی مدد کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ انہیں پناہ کے لیے اندر آنے کی اجازت بھی نہ دی۔

انہی حالات میں جب شہر ہنگاموں کی زد میں تھا، میں نے کمالیہ پہنچ کر ایس ڈی پی او کا چارج سنبھال لیا۔ میں تھانہ کمالیہ پہنچا۔ جہاں ان دنوں رحمت اللہ نیازی ایس ایچ او تعینات تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ آئی جی پنجاب کا دو دفعہ میرے لیے فون آ چکا ہے۔ تھانے سے لاہور کے لیے کال بک کرائی گئی۔

*آئی جی راؤ رشید نے کہا امن کے لیے جو کچھ درکار ہے، مجھے بتاؤ:

آئی جی پنجاب راؤ رشید سے فون ملا تو انہوں نے مجھے کہا ”انار خاں! تمہیں خصوصی طور کمالیہ بھیجا گیا ہے۔ گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر نے بھی امن و امان کی ایک میٹنگ کے دوران تمہارے نام کی منظوری دی ہے۔ اب شہر میں امن و امان فوری طور پر بحال کر اؤ، اس مقصد کے لیے جو بھی وسائل تمہیں درکار ہیں، وہ مجھے بتاؤ، وہ تمہیں مہیا ہوں گے“ ۔

میں نے آئی جی صاحب کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ کمالیہ میں سواری کا بڑا مسئلہ ہے، تھانے والوں کے پاس بہت پرانی جیپ ہے جو اکثر خراب رہتی ہے۔ اس پر انہوں نے فوراً کہا کہ ”کل ہی لاہور سے ایک گاڑی کمالیہ کے لیے روانہ کر دی جائے گی“ ۔

میاں بشیر احمد شمسی

پھر وہی ہوا، اگلے روز لاہور سے نئی زیرو میٹر ٹیوٹا جیپ کمالیہ پہنچ گئی۔ شہر میں امن و امان بحال کروانے کے لیے ہم نے پہلے ہی کوششیں شروع کر دیں تھیں۔ مجھے اس بات کا بعد میں پتہ چلا کہ کمالیہ کے لیے میرا نام کیسے تجویز ہوا تھا۔ میرے باس رہے ایک سابق ڈی آئی جی ملک بشیر (ملک بشیر بکریوں کا دودھ پینے کی وجہ سے محکمے میں ”بشیر بکریاں والا“ کے نام سے بھی مشہور تھے ) ان دنوں ڈی آئی جی سپیشل برانچ کی حیثیت سے اس میٹنگ میں شریک تھے۔ جہاں میرے نام کا فیصلہ ہوا۔

*مصطفیٰ کھر نے کمالیہ کے لیے میرا نام اوکے کیا:

ڈی آئی جی ملک بشیر کے بقول گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر کی زیر قیادت گورنر ہاؤس لاہور میں ہوئی امن و امان کی اس اعلیٰ سطحی میٹنگ میں آئی جی راؤ رشید کی طرف سے پیش کیے گئے چھ سات ناموں میں تمہارا نام بھی شامل تھا۔ میں نے میٹنگ میں سب کے سامنے کہا تھا کہ ”راجہ انار خاں کو کمالیہ بھیج دو ، سارا مسئلہ ٹھیک کر دے گا۔ میں اس کے سابقہ کاموں کی وجہ سے اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ جب باری باری سب نام پکارے گئے تو تبادلۂ خیال کے بعد گورنر غلام مصطفیٰ کھر نے تمہارا نام اوکے کر دیا“ ۔

*جھنگ میں منشیات فروشوں سے ٹکر:

مجھے یاد آیا کہ جن دنوں میں جھنگ میں انسپکٹر سی آئی اے تھا تو انہی دنوں جھنگ کے دو نواحی دیہات میں منشیات کا دھندا عروج پر تھا۔ جو ان دیہات میں تیار بھی ہوتی تھیں۔ اور بعد ازاں دیگر علاقوں میں سپلائی بھی کی جاتی تھیں۔ ایس ایس پی جھنگ نے مجھے خصوصی ٹاسک دیا کہ ان منشیات کا مستقل بنیادوں پر قلع قمع کرنا ہے۔

میں نے اپنے ذرائع سے ساری معلومات حاصل کیں کہ کون کون سے گھروں میں منشیات (افیون، چرس) تیار ہوتی ہیں۔ انہیں پہلے وارننگ دی گئی کہ رضاکارانہ طور پر یہ دھندا چھوڑ دیں۔ جب وہ باز نہ آئے تو ایک دن ہم نے پولیس کی بھاری نفری بلوا کر دیہات کا محاصرہ کر لیا کہ کوئی فرار ہو کر باہر نہ نکل سکے۔

پہلے وارننگ دی گئی کہ جو خود باہر آ جائے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ جب کوئی بھی باہر نہ آیا، تو ہم نے منشیات کے طور پر مارک کیے گئے گھروں سے گرفتاریاں کر کے گھروں کو آگ لگانی شروع کر دی۔ گھروں کو آگ لگنے کی وجہ سے شدید بھگدڑ مچ گئی۔ چند گھروں کے سوا باقی سارے لوگ اس دھندے میں ملوث پائے گئے۔ اس طرح دونوں دیہات کے ایسے تمام گھر منشیات سمیت جلا دیے، جہاں منشیات تیار کی جاتی تھیں۔ وہاں سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد ہوئیں۔ گرفتار شدگان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔

ہوا یوں کہ ان منشیات فروشوں کے بعض رشتہ دار اور حامی ایک ٹرک اور ٹریکٹر ٹرالی پر سوار ہو کر گورنر ہاؤس لاہور پہنچے۔ اور ہماری طرف سے کیے گئے اس ایکشن کے خلاف مظاہرہ اور دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ گورنر غلام مصطفیٰ کھر نے ان کے ایک دو بندوں سے ملاقات کی۔ ان میں سے ہر ایک انار خاں، انار خاں کا نام لے رہا تھا۔

Rao abdur rasheed

اسی دوران گورنر غلام مصطفیٰ کھر نے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کیں۔ تو انہیں بھی منشیات والی اصل کہانی معلوم ہو گئی۔ انہوں نے پولیس کو حکم دیا کہ ان کو فی الفور گورنر ہاؤس کے آگے سے ہٹایا جائے۔ جب وہ شرافت سے نہ اٹھے تو پولیس نے انہیں ڈنڈے مار کر وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس واقعہ کی وجہ سے بھی شاید میرا نام گورنر کے ذہن میں رہ گیا تھا۔

راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ کمالیہ میں ہم نے شہر کی اہم سیاسی، سماجی، مذہبی اور کاروباری شخصیات سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ ان کا اعتماد بحال کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آہستہ آہستہ حالات معمول پر آ گئے۔ اور اس کے بعد 1977 تک مزید کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہیں آیا۔

* 1977 میں ہوئی دھاندلی کے خلاف پی این اے کے مظاہرے :

1977 ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے وسیع پیمانے پر ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف ملک بھر میں تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ اور اور اس مقصد کے لیے مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ کمالیہ میں ان دنوں جماعت اسلامی کے شمسی برادران، خصوصاً میاں بشیر احمد شمسی اور تحریک استقلال کے ڈاکٹر نصیر کافی فعال تھے۔ وہ کمالیہ، پیر محل اور ارد گرد کے دیہات سے لوگوں کو بلوا کر مظاہرے کرواتے تھے۔

Talib hussain

*جب طالب حسین کو نکیل ڈالی گئی:

راجہ انار خاں نے بتایا کہ ”21 مارچ سنہ 1977 کا دن تھا۔ اس دن سپہ پہر کے وقت کمالیہ میں نکیل ڈالے جانے کا واقعہ پیش آیا، اس دن میں ریزیڈنٹ مجسٹریٹ چوہدری صدیق، (اب مرحوم) اور چند پولیس اہلکاروں کے ہمراہ گورنمنٹ نارمل سکول کمالیہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ باہر شور کی آوازیں سن کر ہم باہر آ گئے۔

مین بازار میں ہم نے دیکھا کہ چند مظاہرین قریبی گلی سے، اپنے گلوں میں قرآن پاک لٹکائے ہوئے نکلے۔ انہوں نے نعرے بازی کرتے ہوئے مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ ہم ان کے قریب پہنچے تو میں نے دیکھا کہ ایس ایچ او رحمت اللہ نیازی سمیت پولیس اہلکار مظاہرین کو ڈنڈے مار رہے تھے۔ اس کے جواب میں بعض مظاہرین نے قریبی چھت پر چڑھ کر پولیس والوں کو پتھر اور اینٹیں مارنی شروع کر دیں۔ ایک پولیس اہلکار کا سر اینٹ لگنے سے بری طرح سے کھل گیا۔

میں نے پولیس اہلکاروں کو منع کیا کہ مظاہرین پر تشدد نہ کیا جائے۔ بلکہ پولیس سے ایک مظاہرہ کرنے والے شخص کو چھڑاتے ہوئے سوٹی لگنے سے میری گھڑی کا شیشہ بھی ٹوٹ گیا۔ اس موقع پر ماحول کافی ٹنس تھا۔ سر پھٹنے والے پولیس اہلکار کی حالت بہت نازک تھی۔ جسے فوری طور پر ہم نے فیصل آباد ہسپتال منتقل کرایا۔ اسی اثناء میں حوالدار رشید دیگر پولیس اہلکاروں کی مدد سے ایک توانا اور گھٹے ہوئے جسم کے شخص کو پکڑ کر میرے پاس لایا اور کہا کہ

”اے جے۔ وڈا بدمعاش“ ۔

میں نے اس لائے گئے شخص سے پوچھا کہ ”کیا تم شرپسند مظاہرین میں سے ہو؟ بدمعاش ہو کیا؟“ ۔ شاید خوف کی وجہ سے وہ خاموش رہا۔ اس پر میں نے حوالدار رشید سے کہا کہ

”پاؤ او اینو نتھ“ ۔ (اس کو نکیل ڈالو)

عینی شاہد میاں ظفر اقبال

پولیس میں اس وقت ”نتھ پا دیو“ ۔ محاورے کے الفاظ کا مطلب، سبھی پولیس ملازمین کو پتہ تھا۔ حوالدار رشید نے اپنی وردی پر لگا اپنے نام کا بیج اتارا، اور دیگر پولیس ملازمین کی مدد سے بیج کے پیچھے لگے بسکوئے سے، پکڑ کر لائے گئے شخص کی ناک کے اگلے حصے کی ( مرکنی) ہڈی کے آگے گوشت میں سوراخ کر کے بسکوئے کی پن کو بند کر دیا۔

پھر پولیس اہلکار اس کی ناک کے ساتھ لٹکے بسکوئے میں دھاگہ ڈال کر اسے بازار میں سے گزارتے ہوئے تھانے کی جانب لے کر چلنے لگے۔ اس منظر کو دیکھنے والے تماشائی اور مظاہرین بھی پولیس والوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔

*طالب حسین کو پولیس کے نرغے سے میں نے فرار کرایا:

راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے تھوڑی دیر بعد انہیں احساس ہوا کہ اس سلوک کے ساتھ بھرے بازار میں اس انداز سے اسے لے کر جانا مناسب نہیں ہے۔ میں پیچھے سے بھاگتے ہوئے آگے گیا اور پولیس والوں کو کہا کہ اسے چھوڑ دو ۔ پولیس والوں نے اسے چھوڑا، تو میں نے دیکھا کہ مزاحمت کی وجہ سے دھاگہ پن سے علیحدہ ہو چکا تھا۔ میں اسے اپنے ساتھ ایک طرف لے گیا۔ اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ اس نے اپنی ناک کے گرد لپٹے بسکوئے کو بھی اتار دیا تھا۔ اس میں لگا دھاگہ پہلے ہی ٹوٹ چکا تھا۔

گلی میں لے جا کر میں نے اسے کہا کہ ”وہ جہاں جانا چاہتا ہے۔ یہاں سے فوراً بھاگ جائے“ ۔ پہلے تو وہ میری بات سن کر سخت حیران ہوا۔ پھر اس نے گلی کے ایک طرف تیزی سے دوڑ لگا دی اور کچھ ہی دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

راجہ انار خاں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ انہیں بعد میں اس بات کا علم ہوا کہ نکیل ڈالے جانے والے شخص کا نام طالب حسین تھا۔ اور اس کا تعلق پیر محل کے قریب ایک گاؤں چک نمبر 719 /جی بی سے تھا۔ مظاہرے میں شرکت کے لیے اسے تحریک استقلال کے ڈاکٹر نصیر لائے تھے ”۔

Talib hussain

*بے گناہ طالب حسین کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی تھی:

راجہ انار خاں نے بتایا کہ ”اس بات کا علم بھی انہیں بعد میں ہوا کہ طالب حسین بے گناہ تھا۔ میرا پولیس ملازم حوالدار عبدالرشید ملک، جھنگ کے علاقے باغ کا رہائشی تھا۔ اس نے طالب حسین کے متعلق میرے ساتھ غلط بیانی کی کہ وہ کوئی بڑا بدمعاش یا شر پسند ہے۔ مجھ سے بھی غیر ارادی طور پر جلد بازی میں یہ غلطی ہوئی کہ بغیر کسی تحقیق یا تفتیش کے طالب حسین کے ساتھ یہ بہیمانہ سلوک ہونے دیا۔ اس بات مجھے ہمیشہ قلق رہا کہ بے گناہ طالب حسین کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی تھی“۔

*عادی ملزمان کو نتھ ڈالنے کی پریکٹس پولیس میں عام تھی:

اس سوال کہ نتھ ڈالنے کا فارمولا انہوں نے کہاں سے سیکھا؟ کے جواب میں راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ ”جب 1960 ء میں وہ گجرات کے تھانہ صدر میں آ کر اے ایس آئی لگے، تو وہاں پر چوہدری اسلم جوڑا نام کے ایک ایس ایچ او تعینات تھے۔ جو اکثر عادی ملزمان کے لیے نتھ ڈالنے کا حربہ استعمال کرتے تھے۔ خصوصاً یہ فارمولا ایسے پیشہ ور مویشی چوروں، رسہ گیروں اور ڈکیتوں کے ساتھ آزمایا جاتا تھا، جو پولیس کی دیگر سزاؤں کو سہنے کے باوجود اپنے جرائم قبول نہیں کرتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات تو ایسے پیشہ ور عادی ملزمان کو ٹولیوں کی صورت میں اکٹھے نتھ ڈال دی جاتی تھی۔ شدید تکلیف کے باعث ان میں سے اکثر ملزمان اپنے جرائم کا اقرار کر لیتے تھے“ ۔

*مارشل لاء کے بعد پیپلز پارٹی رہنماؤں کے خلاف جھوٹے مقدمے :

ملک میں اسی سال جولائی 1977 ء میں جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ختم کر کے مارشل لاء لگا دیا۔ جس کا ملک کی دیگر جماعتوں کے علاوہ جماعت اسلامی اور تحریک استقلال نے بھی خیر مقدم کیا۔ ملک بھر میں پیپلز پارٹی اب زیر عتاب تھی۔ جبکہ مارشل لاء لگنے کی وجہ سے چھوٹی جماعتیں شیر ہو چکی تھیں۔ اور وہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنوانے میں پیش پیش تھیں۔

Captain (R) Naseer

کمالیہ میں بھی ان دنوں پیپلز پارٹی کے زیر عتاب آنے کے بعد جماعت اسلامی اور تحریک استقلال کافی فعال تھیں۔ جماعت اسلامی کے مقامی شمسی برادران (بشیر احمد شمسی، اب مرحوم) اور تحریک استقلال کے ڈاکٹر نصیر اور چوہدری حبیب الرحمن ایڈووکیٹ (اب مرحوم) نے مارشل لاء حکام کی آشیرباد سے اپنے ایک حامی شخص کو نتھ (نکیل) ڈالنے والے واقعہ کو بنیاد بنا کر پیپلز پارٹی کے چار مقامی رہنماؤں، جن میں ایک سابق ایم این اے رائے حفیظ اللہ خاں اور ایم پی اے جاوید کھرل بھی شامل تھے، سمیت گیارہ افراد کے خلاف مقدمات درج کروا دیے۔ ان مقدمات کا مدعی نکیل ڈالے جانے والے شخص طالب حسین کو بنایا گیا تھا۔

*جب ہم پر مقدمہ بنا:

راجہ انار خاں نے بتایا کہ ”کمالیہ میں تقریباً چار سال گزارنے کے بعد وہ فیصل آباد تبدیل ہو گئے۔ نکیل کیس واقعہ کے بعد 1978 ء میں وہ اس وقت فیصل آباد میں ہی تھے، جب انہیں معلوم ہوا کہ نکیل کیس میں پیپلز پارٹی کے چار رہنماؤں کے علاوہ جن پولیس ملازمین کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ان میں مرکزی ملزم انہیں انسپکٹر (راجہ انار خاں ) کو نامزد کیا گیا ہے۔

دیگر ملزمان میں علاقہ مجسٹریٹ چوہدری صدیق، ایس ایچ او رحمت اللہ نیازی، ایک اے ایس آئی، ہیڈ کانسٹیبل رشید و دیگر ملازمین سمیت کل گیارہ افراد شامل تھے۔ یعنی ایک مجسٹریٹ سمیت سات پولیس کی طرف سے اور چار پیپلز پارٹی کے رہنما پرچے میں نامزد کیے گئے۔

1978 ء میں مارشل لاء دور میں ہمارے خلاف مقدمات کے اندراج کی یہ ساری کارروائی مجھ سے کمالیہ میں چارج لینے والے ایس ڈی پی او انسپکٹر احمد خاں چدھڑ  نے اپنی نگرانی میں کروائی تھی۔ پیپلز پارٹی کے چار مقامی رہنماؤں کو پرچے میں بے گناہ ڈالنے کا فیصلہ کہاں ہوا تھا، اس کا علم ہمیں نہیں ہے۔ ایک پولیس افسر اپنے طور پر تو اتنا بڑا کام نہیں کر سکتا تھا۔ یقیناً کہیں سے اسے کہا گیا ہو گا۔

*میری گواہی پر پیپلز پارٹی کے چاروں رہنما بری ہو گئے :

راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ ”ان کے خلاف مقدمہ کے علاوہ ایک استغاثہ بھی دائر کیا گیا تھا۔ جس کا سامنا انہوں نے سیشن کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ آف پاکستان تک کیا۔ جب سیشن کورٹ میں مقدمہ شروع ہوا تو میں نے پہلی ہی پیشی پر بیان دے دیا کہ پیپلز پارٹی کے ایم این اے رائے حفیظ اللہ خاں اور ایم پی اے جاوید کھرل سمیت چاروں سیاسی ملزمان تو سرے سے ہی بے گناہ ہیں۔ انہیں ناجائز طور پر محض سیاسی بنیادوں پر اس مقدمے میں ملوث کیا گیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کے یہ چاروں رہنما ابتدائی سماعتوں میں ہی مقدمے سے ڈسچارج ہو گئے۔

مجھ سمیت، مجسٹریٹ چوہدری صدیق، ایس ایچ او رحمت اللہ نیازی، ایک اے ایس آئی، حوالدار عبدالرشید ملک اور دو دیگر پولیس ملازمین سمیت سات افراد کے خلاف مقدمہ چلتا رہا۔ سول کورٹ سے سیشن کورٹ پھر ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ، اس استغاثہ کا کیس کا فیصلہ آنے میں سولہ سال لگ گئے۔ اس کیس میں طالب حسین کے وکیل چوہدری حبیب الرحمن چند سال پہلے وفات پا چکے ہیں ”۔

*ایس ایچ او نیازی فیصلہ آنے سے پہلے انتقال کر گئے :

راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ ”اس کیس میں شامل ایس ایچ او کمالیہ رحمت اللہ نیازی ان دنوں لاہور میں ڈی ایس پی نولکھا تعینات تھے جب ایک دن لاہور سے میانوالی جاتے ہوئے ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہو گئے۔ میانوالی کے قریب ان کی کار مخالف سمت سے آنے والے ایک ٹرک سے بری طرح ٹکرا گئی۔ جس کے نتیجے میں رحمت اللہ نیازی کار کے اندر بری طرح سے پچک گئے۔ حادثہ اس قدر شدید تھا کہ رحمت اللہ نیازی کی نعش شناخت کے قابل نہیں رہی تھی۔ یوں اس مقدمے کے منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی رحمت اللہ نیازی اگلے جہان سدھار گئے“ ۔

*سپریم کورٹ کا فیصلہ میرے خلاف آیا:

ہمارے خلاف بنے استغاثہ کے سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ سے فیصلے تو ایک لحاظ سے ہمارے حق میں آئے۔ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے مجھ سمیت مجسٹریٹ صدیق اور دیگر پولیس اہلکاروں کو جرمانے کی سزا دی تھی۔ اور ساتھ ( Till rising of the court) ”عدالت سے برخاستگی تک“ کی سزا سنائی تھی۔ البتہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے باقیوں کی بجائے مجھے چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ جبکہ دیگر پولیس اہلکاروں کو محض جرمانے کی سزا ہوئی۔

*کوٹ لکھپت جیل یاترا:

چھ ماہ سزا میں سے کم و بیش تین ہفتے میں نے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں سزا کاٹی۔ اس کے بعد ہماری طرف کچھ لوگ صلح کے لیے درمیان میں آئے۔ اور صلح کی کوششوں کے نتیجے میں مدعی طالب حسین نے بغیر کوئی ڈیمانڈ کیے فی سبیل اللہ مجھے معاف کر دیا۔ طالب حسین نے ہوم سکریٹری کے رو برو پیش ہو کر میری سزا کے خلاف صلح کی درخواست دائر کی۔ جس پر عمل درآمد کے نتیجے میں میری بقیہ پانچ ماہ کچھ دن کی سزا معاف ہو گئی۔

اس سوال کہ آپ کو کبھی اپنے نکیل ڈالنے کے عمل پر پچھتاوا ہوا؟ کے جواب میں راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ ”پولیس ڈیپارٹمنٹ میں سروس کے دوران بڑے اچھے اچھے پولیس آفیسرز سے بھی غیر ارادی طور پر ججمنٹ اور اندازے کی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ مجھ سے بھی اپنے ایک پولیس اہلکار کی غلط بیانی کی وجہ سے ایک سنگین غلطی سرزد ہوئی۔ جس کا مجھے پچھتاوا رہا کہ ایک بے گناہ شخص کو میری وجہ سے ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وقتی حالات و واقعات سے قطع نظر یہ واقعہ ہونے کا باعث میں بنا، بحیثیت انچارج ذمہ داری بھی میری ہی بنتی تھی۔ میں نے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ سولہ سال اپنے خلاف بنے اس مقدمے کا سامنا کیا۔ دیگر بہت ساری تکالیف بھی اٹھائیں۔ اور آخر میں سزا بھی کاٹی“ ۔

*کیا آپ نے طالب حسین سے معافی مانگی تھی؟

راجہ انار خاں نے اس سوال پر کہ کیا انہوں نے طالب حسین سے اپنے اس عمل کی معذرت کی تھی؟ کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ”اس واقعہ کے بعد دو تین دفعہ طالب حسین سے ان کا سامنا ہوا تھا۔ بعد ازاں جب میں فیصل آباد میں ڈی ایس پی تھا تو طالب حسین ایک رات میرے گھر پر بھی ٹھہرا تھا۔ کھل کر ساری باتیں ہوئی تھیں۔ میں نے اس سے اس واقعہ پر غیر مشروط معافی مانگی تھی۔ جب میری سزا کے خلاف اس نے صلح اور معافی قبول کر لی تو اسی وجہ سے میری بقیہ سزا معاف ہوئی۔

ایک بار فیصل آباد سے ہم اکٹھے لاہور بھی آئے۔ میں نے ان مواقع پر طالب حسین سے متعدد بار اس واقعہ کی کھل کر معذرت کی، تو وہ کہنے لگتا کہ ”اسے پتہ ہے کہ حوالدار رشید نے اس کے متعلق آپ سے جھوٹ بولا تھا۔ تاہم جو کچھ ہوا وہ غلط فہمی کی وجہ سے ہوا تھا۔ آپ کے متعلق میرے دل میں کوئی ملال یا گلہ شکوہ نہیں ہے، جو کچھ ہو چکا، وہ واپس نہیں آ سکتا۔ میں کھلے دل سے آپ کو معاف کرتا ہوں“ ۔

راجہ انار خاں نے بتایا کہ ”طالب حسین کے ساتھ صلح کے بعد دوبارہ کبھی رابطہ نہیں ہوا۔ دوران سروس میں نے اپنی سروس کے کم و بیش بیس سال کا عرصہ فیصل آباد میں ہی گزارا۔ فیصل آباد میں، میں مختلف اوقات میں انسپکٹر سپیشل برانچ، ڈی ایس پی سٹی، ڈی ایس پی صدر، ڈی ایس پی ٹریفک اور ڈی ایس پی سپیشل برانچ تعینات رہا۔

تھانہ کمالیہ سٹی

فیصل آباد میں تعیناتی کے دوران شہر کی پرائم لوکیشن پر چار کنال کا ایک سرکاری پلاٹ خالی پڑا ہوا تھا۔ اور شہر کے کئی بڑے جگادریوں کی نظریں اس کو ہڑپ کرنے پر لگی ہوئی تھیں۔ فیصل آباد میں اس خالی پلاٹ پر اسپیشل برانچ کے آفس کی تعمیر کے لیے میری کوششوں کا بڑا عمل دخل رہا۔

مذکورہ پلاٹ کی سرکاری اداروں، محکمہ مال، ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی اور آئی جی آفس سے لے کر بورڈ آف ریونیو سے منظوری تک، بلڈنگ کی تعمیر کے لیے اپنی نگرانی میں نقشے بنوانے سے لے کر بلڈنگ کی تکمیل تک، ہر مرحلے میں، میں اس کے ساتھ منسلک رہا۔

آج وہاں پر سپیشل برانچ کی شاندار عمارت کھڑی ہے۔ اب فیصل آباد میں سپیشل برانچ کا انچارج ایک ایس پی رینک کا افسر ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے زمانے میں پہلے انسپکٹر بعد ازاں ڈی ایس پی سپیشل برانچ کا انچارج لگتا تھا۔

بلکہ سابق آئی جی پنجاب سردار محمد چوہدری مرحوم سے فیصل آباد میں انسپکٹر سپیشل برانچ سے ڈی ایس پی انچارج کی پوسٹ منظور کروانے میں میری کاوشیں شامل تھیں۔ ماموں کانجن سمیت فیصل آباد کے بہت سے علاقوں میں تھانوں میں پرانی عمارتوں کی جگہ نئی عمارتیں بنوانے میں انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔

” کمالیہ نکیل کیس“ کی وجہ سے ان کی ترقی بھی متاثر ہوئی۔ اسی وجہ سے وہ ڈی ایس پی اور بعد ازاں ایس پی بھی کافی لیٹ پرموٹ ہوئے۔ اگر یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا تو انہوں نے یقیناً ڈی آئی جی بن کر ریٹائر ہونا تھا ”۔

اس مضمون کی تیاری کے دوران جب میں نے طالب حسین کا موقف جاننے کے لیے پیر محل میں مقیم نیوز ویب سائٹ ”اپنا پیر محل“ کے چیف ایڈیٹر اور متحرک صحافی میاں اسد حفیظ سے رابطہ قائم کیا۔ تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ”کمالیہ نکیل کیس کے مرکزی کردار طالب حسین کا تو 15 فروری 2015 ء میں ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال ہو چکا ہے۔ ان کی عمر 61 برس تھی“ ۔

تاہم میاں اسد نے مجھے مزید معلومات کے لیے مرحوم طالب حسین کے بیٹے اصغر کا نمبر فراہم کیا۔ طالب حسین کے بیٹے حاجی اصغر گوپرا سے بات ہوئی، تو سب سے پہلے ان کے والد کی وفات پر اظہار تعزیت کی، اور انصاف کے حصول کے لیے ان کے والد کی شاندار جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔

مرحوم طالب حسین کے بیٹے اصغر کا کہنا تھا کہ ”ان کی والدہ کے بقول“ جب ان کے والد کے ساتھ نکیل ڈالنے کا واقعہ پیش آیا تو ان کی عمر تقریباً اکیس بائیس سال کے قریب تھی۔ اور ان کی شادی کو ہوئے ابھی چھ ماہ ہوئے تھے۔ ایک چھوٹی زمیندار فیملی سے تعلق رکھنے والے ان کے والد کبڈی اور فٹ بال کے بڑے اچھے کھلاڑی تھے۔ ان کے والد پر پولیس نے تشدد بھی کیا تھا۔ پولیس کے نرغے سے نکیل تڑوا کر وہ جان بچانے کے لیے اندھا دھند دوڑتے رہے۔

کمالیہ کے مضافات میں انہوں نے ایک نالہ عبور کیا۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ ایک قبرستان سے گزر رہے تھے جب اچانک وہ قبرستان سے ملحقہ ایک گہری کھائی میں جا گرے۔ وہ باہر نکلنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ جس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ بھوکے پیاسے رات انہوں نے اسی کھائی میں گزاری۔ اگلے دن قریب سے گزرتی ہوئی کچھ خواتین نے کسی کے کراہنے کی آوازیں سنیں، انہوں نے کھائی کے اندر جھانک کر دیکھا، تو کسی شخص کو کھائی میں موجود پا کر شور مچا دیا۔

اسی اثناء میں شور کی آوازیں سن کر کچھ مرد وہاں آ گئے، جنھوں نے کھائی سے ان کے والد کو باہر نکالا۔ خوف، نقاہت اور بھوک پیاس کی وجہ سے وہ بری حالت میں تھے۔ میرے والد نے لوگوں سے کہا کہ انہیں فوری طور پر کیپٹن ڈاکٹر نصیر کے پاس پہنچا دیا جائے۔ بالآخر وہ ڈاکٹر نصیر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ”۔

اصغر کا مزید کہنا تھا کہ ”ان کے والد اس واقعہ کی وجہ زیادہ تر چپ چپ رہتے تھے۔ انہیں یاد ہے جب وہ بڑے ہوئے تو ان کے والد ماضی کے اپنے ساتھ پیش آئے اس واقعہ کے متعلق پوچھنے کے باوجود بھی کچھ نہیں بتاتے تھے۔ ہجوم کے سامنے اپنے ساتھ ہوئی اس شرمناک تذلیل کو وہ کبھی نہیں بھول پائے۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ان کے والد طالب حسین رقبہ لے کر ضلع مظفر گڑھ منتقل ہو گئے تھے۔ جہاں پر وہ کاشت کاری کرتے رہے“ ۔

اصغر نے بتایا کہ ”ان کے والد کے اقبال نام ایک بڑے قریبی دوست، جنھوں نے مقدمہ میں ان کے والد کا بہت ساتھ دیا، ہر پیشی پر وہ والد صاحب کے ساتھ عدالتوں میں جاتے رہے۔ ان کا بھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے“ ۔

راجہ انار خاں کے ساتھ صلح کے حوالے سے اصغر نے بتایا کہ ”ان کے گاؤں کی باجوہ نام کی نمبردار فیملی نے ان کے والد کو راجہ انار خاں کے ساتھ صلح پر آمادہ کیا تھا۔ کیونکہ باجوہ فیملی کے راجہ انار خاں کے ساتھ بھی بڑے اچھے تعلقات تھے۔ انہی کی وجہ سے صلح کے بعد راجہ انار خاں کی سزا معاف ہوئی تھی“ ۔

کمالیہ نکیل کیس واقعہ سے جڑے ایک اور کردار تحریک استقلال کے سابق رہنما 79 سالہ کیپٹن (ریٹائرڈ) ڈاکٹر نصیر بھی ہیں۔ جن کی قوت سماعت گزشتہ کئی سال بالکل کام نہیں کرتی۔ وہ پیر محل میں اپنا کلینک چلاتے ہیں۔ وہاں آئے مریضوں کی کیفیت ان کا سٹاف لکھ کر ان کے سامنے رکھتا ہے۔ جسے پڑھ کر وہ نسخہ یا دوائی تجویز کرتے ہیں۔

ڈاکٹر نصیر کا موقف جاننے کے لیے ان کے اسسٹنٹ جواد کے فون نمبر پر رابطہ کیا گیا۔ اور واٹس ایپ پر سوالات بھی بھیجے گئے۔ جواد کے بقول سوالات پڑھنے کے بعد ڈاکٹر نصیر نے جو اباً یہی لکھا کہ نکیل کیس کے حوالے سے ”انہیں کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا تھا“ ۔

اس واقعہ کے محرک اور سیشن کورٹ سے سپریم کورٹ تک مقدمات کی سماعتوں میں انتہائی متحرک رہے میاں بشیر احمد شمسی 2018 میں وفات پا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے صاحبزادے میاں ارشاد سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ”1977 میں پیش آئے اس واقعہ کے وقت وہ بہت چھوٹے تھے۔ تاہم ان کے والد اس واقعہ کے متعلق بتایا کرتے تھے کہ“ طالب حسین کو نکیل ڈالنے کے علاوہ مظاہرہ میں شامل جماعت اسلامی کے رہنماؤں سمیت دیگر کئی لوگوں کی شلواریں اتار کر انہیں کمالیہ کے بازار میں چلنے پر مجبور کیا گیا تھا ”۔

میاں بشیر احمد شمسی مرحوم کے بیٹے میاں ارشاد نے مجھے اپنے ایک قریبی عزیز، صحافی اور کالم نگار میاں محمد اشرف کمالوی کا نمبر دیا، جو ان کے خیال میں اس واقعہ سے متعلق بہتر معلومات دے سکتے ہیں۔

میاں اشرف کمالوی سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ”وہ مرحوم میاں بشیر احمد شمسی کے بھانجے ہیں۔ کمالیہ نکیل کیس کے وقت ان کی عمر کوئی چودہ پندرہ سال تھی۔ وہ اس واقعہ کے چشم دید تو نہیں، البتہ وہ وقوعہ کے وقت ملحقہ گلی میں موجود تھے۔ اور خوف کے باعث مظاہرے میں شریک نہیں ہوئے تھے“ ۔

میاں اشرف کا کہنا تھا کہ ”ان کے بڑے بھائی میاں ارشد (صابن والے ) اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں۔ جبکہ ان کے دوسرے ماموں اور میاں بشیر احمد شمسی مرحوم کے چھوٹے بھائی میاں نذیر احمد حیات ہیں۔ اور وہ اس واقعہ سے متعلق کافی معلومات رکھتے ہیں، تاہم وہ اس واقعہ کے عینی شاہد نہیں ہیں۔

اس واقعہ کے ایک اور متاثرہ شخص مولانا عبدالرحمن (اب مرحوم) بھی تھے۔ جو ابتدائی طور میاں بشیر احمد شمسی کی حویلی سے ان کی قیادت میں، اپنے گلوں میں قرآن پاک لٹکا کر باہر آنے والے چھ افراد میں شامل تھے۔ پولیس نے حویلی کے باہر اور اندر موجود افراد پر تشدد کیا تھا ”۔

میاں اشرف کے بقول ”کمالیہ نکیل کیس واقعہ کے دن ان کے بھائی میاں ارشد کے ساتھ بھی پولیس نے تشدد کے علاوہ نازیبا سلوک کیا تھا۔ پولیس کی جانب سے شلواریں اتار کر بازار میں گزارے جانے والے افراد میں ان کے بھائی بھی شامل تھے۔ جنھیں برہنہ کر کے لہولہان حالت میں صدر بازار کمالیہ سے گزرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

اس دن کے واقعہ کے علاوہ کسی اور موقع پر ایک مظاہرے کے دوران ایس ایچ او کمالیہ رحمت اللہ نیازی نے میاں نزیر احمد پر بھی قومی اتحاد کا سرگرم کارکن ہونے کے ناتے بڑا تشدد کیا تھا۔ ماضی میں اس سلسلہ میں دیے گئے کسی انٹرویو کے تلخ تجربہ کے باعث 86 سالہ میاں نذیر احمد اور 66 سالہ میاں محمد ارشد نے اس سلسلے میں اپنا موقف دینے سے معذرت کی ”۔

میاں اشرف کا مزید کہنا تھا کہ ”کمالیہ میں بعد ازاں ایک اور مظاہرے کے دوران انہوں نے راجہ انار خاں (انار گل) کو بڑے قریب سے ایک مظاہرے کے دوران شرکاء پر گرجتے برستے دیکھا تھا۔ وہ انتہائی سخت گیر پولیس افسر مشہور تھے۔

کینیڈا میں مقیم میاں ظفر اقبال اس واقعہ کے نہ صرف عینی شاہد ہیں بلکہ ان کا اپنا بازو بھی کمالیہ میں ہوئے اس مظاہرے میں ٹوٹ گیا تھا:

کمالیہ نکیل کیس واقعہ کے ایک عینی شاہد کینیڈا کے شہر کیلگری میں مقیم 77 سالہ میاں ظفر اقبال بھی ہیں۔ جن کا تعلق پیر محل کے قریب واقع چک نمبر 12 سے ہے۔ 45 سال قبل ہوئے اس واقعہ کے حوالے سے انہوں نے اپنی یادداشتیں شیئر کرتے ہوئے راقم الحروف کو بتایا کہ ”1977 ء میں ان کی ہمدردیاں جماعت اسلامی کے ساتھ تھیں اور وہ پی این اے کی مقامی قیادت کی طرف سے بلائے گئے اس احتجاجی مظاہرے میں شریک تھے۔

پولیس والوں نے ان کی آنکھوں کے سامنے طالب حسین کو نکیل ڈالی تھی۔ اور ان سمیت دیگر شرکاء پر بے پناہ تشدد بھی کیا گیا تھا۔ اسی وحشیانہ تشدد کی وجہ سے ان کے اپنے ایک بازو پر پولیس کا ڈنڈا پڑا جس سے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔

میاں ظفر اقبال نے مزید بتایا کہ شمی برادران اور ڈاکٹر نصیر کو تو نہیں، البتہ مظاہرے میں شریک کچھ دیگر لوگوں کو برہنہ کر کے انہیں بازار میں گھمایا گیا تھا۔ ڈاکٹر نصیر اور شمسی برادران بھی اس مظاہرے میں شریک تھے۔ شرکاء کی تعداد ایک سو سے دو سو کے درمیان تھی۔

میاں ظفر نے بتایا کہ ”پولیس نے خود ہی طالب حسین سے کہا تھا کہ یہاں سے بھاگ جاؤ اور وہ بھاگ گیا تھا“ ۔ انہوں ایک سوال کے جواب اس بات کی تصدیق کی کہ ”مظاہرے میں شریک چند افراد نے چھتوں پر چڑھ کر پولیس کو اینٹیں اور پتھر مارے تھے۔ لیکن ان کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ انہوں اس موقع پر موجود دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ انسپکٹر راجہ انار خاں کو بھی دیکھا تھا۔ وہ بڑے سخت گیر پولیس افسر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے کمالیہ اور ارد گرد کے علاقوں کے زیادہ تر لوگ ان کے نام سے واقف تھے“ ۔

Talib Hussain

*نکیل ضرور ڈالی گئی تھی، برہنہ کیے جانے کے الزامات جھوٹے ہیں :

راجہ انار خاں کہتے ہیں کہ ”نکیل ڈالنے کی بات تو ٹھیک تھی۔ تاہم ان پر یہ الزام کہ اسی دن کمالیہ میں شمسی برادران اور ڈاکٹر نصیر کو یا دیگر افراد کو برہنہ کر کے بازار میں گھمایا گیا تھا، یہ الزام سراسر لغو، بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔

جماعت اسلامی کے شمسی برادران (ایک بھائی بشیر احمد شمسی 2018 میں وفات پا چکے ہیں۔ وہ 1977 ء میں واقعہ کے وقت کمالیہ میں جماعت اسلامی کے مقامی امیر تھے ) اور ڈاکٹر نصیر نے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے اس واقعہ کو خوب استعمال کیا۔ اور برہنہ کر کے گھمانے والے اپنے جھوٹے الزامات ثابت کرنے کے لیے جھوٹے گواہ بھی عدالتوں میں بگھتائے گئے۔

87 سالہ راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ ”وہ اب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں انہیں جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آج سے 45 سال پہلے نکیل ڈالنے کی جو غلطی ہم سے ہوئی تھی، وہ میں مان رہا ہوں۔ اس کی سزا بھی ہم نے بھگت لی۔

ہمارے مسلسل برہنہ کیے جانے کے سوال کے جواب میں راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ ”ان کا ضمیر مطمئن ہے۔ وہ اپنی ذات کی حد تک خدا کو حاضر ناصر جان کر کہہ سکتے ہیں کہ کمالیہ میں اپنی تعیناتی کے دوران وہ کسی کو برہنہ کر کے بازار میں گھمائے جانے میں کبھی ملوث نہیں رہے۔ نہ انہوں نے ایسا کرنے کا کبھی اپنے کسی اہلکار کو حکم دیا اور نہ ہی ایسا عمل ہوتے دیکھا“ ۔

تاہم اپنے ماتحتوں کے حوالے سے راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ ”ایس ایچ او رحمت اللہ نیازی، ہیڈ کانسٹیبل عبدالرشید ملک یا دیگر کسی کی وہ قسم نہیں دے سکتے۔ ان میں سے اگر کسی نے اپنے طور پر ایسا فعل کیا ہو تو وہ کم از کم ان کے علم میں نہیں ہے۔

رحمت اللہ نیازی کے متعلق ان کے علم میں آیا تھا کہ وہ اپنی پرموشن کے لالچ میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں، خصوصاً مقامی ایم پی اے جاوید کھرل کی خوشنودی میں بعض اوقات اپنے اختیارات سے بھی تجاوز کر جاتا تھا۔ اور حوالدار رشید بھی اس کے ایسے کاموں میں اس کا شریک کار ہوتا تھا۔ خصوصاً یہ دونوں نکیل کیس والے واقعہ کے دن بھی جماعت اسلامی کے کارکنوں پر بے جا تشدد میں پیش پیش تھے ”۔

آج سے 45 سال قبل ( 1977 ) میں پیش آئے ”نکیل کیس“ واقعہ سے جڑے بہت سے کردار آج اس دینا میں نہیں ہیں۔ جن میں سر فہرست طالب حسین، جماعت اسلامی کے میاں بشیر احمد شمسی، سابق ایس ایچ او کمالیہ رحمت اللہ نیازی، مجسٹریٹ چوہدری محمد صدیق، چوہدری حبیب الرحمن ایڈووکیٹ اور مولانا عبید الرحمن و دیگر شامل ہیں۔ ہیڈ کانسٹیبل عبدالرشید ملک کے متعلق راجہ انار خاں نے بتایا کہ ”وہ ترقی کرتے کرتے انسپکٹر کے عہدے تک پہنچا۔ تاہم بعد ازاں کسی سے لین دین کے معاملے پر پولیس ڈیپارٹمنٹ نے اسے قبل از وقت جبری طور پر فارغ کر دیا تھا۔ مزید اس کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ہے“ ۔

*طالب حسین ایک جیدار آدمی تھا:

یہ معلوم ہونے کے بعد کہ کمالیہ نکیل کیس کے مرکزی کردار اور مظلوم طالب حسین اب اس دینا میں نہیں ہیں۔ جب میں نے راجہ انار خاں کو اس کے متعلق بتایا کہ ”طالب حسین اب اس دینا میں نہیں ہے، اس کا 2015 میں انتقال ہو چکا ہے، تو وہ اس کی موت کی خبر سن کر کافی آزردہ ہوئے، اور سرد آہ بھرتے ہوئے کہنے لگے کہ“ اللہ اسے غریق رحمت کرے! طالب حسین ایک جیدار آدمی تھا۔ اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے باوجود بھی اس کا حسن سلوک ہمارے ساتھ بہت شاندار رہا ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments