ایک بار آئین پاکستان کا تجربہ بھی کرلیں۔۔۔۔


ہم لوگ بھی عجیب و غریب الجھنوں اور تضادات کا شکار ہیں ۔یہ مقام حیرت نہیں تو اور کیا ہے کہ جس تاج برطانیہ کی کمپنی کے خلاف ہم نے جنگ آزادی لڑی وہ بنیادی طور پر مغل بادشاہت کی حفاظت کی جنگ تھی ۔ دلی کے تخت و تاج کی بقا کی جنگ تھی۔ برصغیر کے لیے تو مغل بھی اسی طرح مقامی نہیں تھے جس طرح انگریزدیار غیر سے آئے ہوئے اجنبی تھے ۔ایک بادشاہت کی حفاظت کے لیے دوسری بادشاہت کے خلاف جنگ کو جنگ آزادی کہنا کس طرح ٹھیک ہے اس پر ایک تاریخی علمی مباحثے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ ضرورت اس لیئے بھی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ایک عام ہندوستانی اس وقت کیا سوچ رہا تھا اور دلی کے تخت پر براجمان مغلوں اور پھر انگریزوں سے اس کو کیا فائدے اور نقصانات ہونے کا اندیشہ تھا۔اور یہ بھی دیکھا جائے کہ مغلوں کی سپاہ میں کون شامل تھے اور انگریزوں کی مدد کون سے ہندوستانی کررہے تھے اور کیوں کررہے تھے۔بہت ساری باتوں کی تحقیق ہوچکی اور بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا جانا ضروری ہے ۔

1799 میں ٹیپو سلطان کی شکست کے بعد آئندہ پچاس سال تک ہندوستان داخلی انتشار کا شکار رہا ۔ہر چھوٹے بڑے راجواڑے ، ریاست میں بغاوت ہوئی انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے بالترتیب سب بغاوتیں کچل دی گئیں اور باغیوں کو نشان عبرت بنا دیا گیا جب کچھ نہ بن سکا تو 1857 میں ایک بڑی اور فیصلہ کن جنگ لڑی گئی مگر اس کا نتیجہ بھی توقع کے عین مطابق نکلا اور عام ہندوستانی دلی کے تخت کو من پسند بادشاہ کے لیے محفوظ نا کرسکا اور اس بار دلی پر انگریز حاکم ہوئے ۔ہندوستانی مغل بادشاہ کی بجائے انگریز بادشاہت کا حصہ بن گئے ۔یعنی گڑھے سے نکلے اور کنویں میں جاگرے ۔

جنگ آزادی کے آئندہ نوئے سال یعنی 9 دہائیوں تک ایک نئی کشمکش شروع ہوئی اور وہ یہ کہ اب انگریزوں سے آزادی حاصل کی جائے ۔جو بالآخر مل گئی اور ہندوستان اور پاکستان کے نام سے دو ملک معرض وجود میں آ گئے ۔مگر سفر ختم نہیں ہوا اور پاکستان کے باشندوں کا سفر ابھی باقی تھا ۔یہ طے کرناباقی تھا کہ ملک کو کن فکری اور نظریاتی بنیادوں پر چلانا ہے ۔قائد جلدی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔اور قائد ملت کو رخصت کردیا گیا۔پھرتو گویا اقتدار کی رضیہ گلی محلے کے لچے لفنگوں کے ہاتھ لگ گئی ۔مسند اقتدار کے لیے وہ گھناونا کھیل کھیلا گیا کہ الامان الحفیظ۔ اس وقت تو حد ہی ہوگئی جب فالج زدہ شخص کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔

اس عجیب وغریب نظام سے جان چھڑائی گئی اور ملک میں صدارتی نظام رائج ہوا اور اسوقت اس کی تعریف و توصیف اسی طرح ہوئی جس طرح آج کل کچھ لوگوں کو صدارتی نظام کے مروڑ اٹھ رہے ہیں ۔دس سالہ صدارتی نظام حکومت اندر جشن منایا گیا۔سرکاری بیانیئے کے مطابق کامیاب صدر عوامی احتجاج پر کرسی صدارت چھوڑنے پرمجبورہو گئے اور اقتدار اس کے حوالے کیا جس کے دور حکومت میں جنرل رانی جیسے کردار سامنے آئے ۔نتیجہ ملک دولخت ہوگیا۔پھر سے پارلیمانی نظام حکومت رائج ہوا اور پہلی بار ملک کو آئین ملا جس میں نظام حکومت کا تعین کیا گیا۔مگر یہ حکومت بھی مذہبی کارڈ کھیل کر ختم کردی گئی ۔منتخب وزیراعظم کو پھانسی دے دی گئی اور ملک میں ایک بار پھر صدارتی نظام رائج کردیا گیا۔

کم وبیش دس سالہ اس دورکا خاتمہ خلاف توقع ہوا اور ایک بارپھر ملک میں عام انتخابات میں ایک خاتون وزیراعظم برسراقتدار آئیں۔یہ دھائی بھی کسی امتحان سے کم نہیں تھی کسی حکومت کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور بالآخر طیارے سے اترتے ہی کمانڈو نے میرے عزیز ہم وطنوں کہہ کر ایک ایسے دور حکومت کی ابتدا کی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔بالآخر یہ عہد زریں بھی ختم ہوا۔اقتدار ایک بار پھرسیاسی قوتوں کے پاس چلا گیا۔جیسے تیسے دس سال برداشت کیا گیا پھر وہ تجربہ کیا گیا جس پر آج ہرشخص سرپکڑے بیٹھا ہے۔کیا سوچا تھا اور کیا نتیجہ نکلا۔

جیسے جیسے نئے انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے ایک نئے صدارتی نظام کے تجربے کی بازگشت تیز ہوتی جارہی ہے ۔سیاسی ٹاک شوز پر سطحی سیاسی گفتگو سن کر ہر دوسرا شخص سیاسی تجزیہ نگار بنا ہوا ہے اور صدارتی نظام کے حق میں دلائل دے رہا ہے ۔اس بات سے قطع نظر کہ یہ عملی طورپر ممکن ہی نہیں ہے ۔کسی بھی طریقے سے آئین کی بنیادی اساس کو چھیڑنا ممکن نہیں تا وقتیکہ دستور ساز اسمبلی تشکیل دی جائے جو اس نظام کی تبدیلی کا مینڈیٹ لے کر نا آئے ۔لہذا سیاسی نیم خواندہ خاطر جمع رکھیں کہ صدارتی نظام ناتو صدارتی آرڈیننس سے آئے گا نا ہی کسی ایمرجنسی کے نفاز سے اور نا ہی یہ عدلیہ کے دائرہ اختیارکی بات ہے ۔

ویسے اب تک گورنر جنرل ، ون یونٹ ، ایک ایوانی پارلیمانی نظام ، مارشل لا، کنٹرولڈ جمہوری نظام ، دو ایوانی نظام ، اسلامی مارشل لا، نیم صدارتی نظام ، ہائیبرڈ جمہوری نظام کا تجربہ کیا جاچکا ہے ۔اور ان تمام تر تجربات کا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہی ہوا ہے ۔حالیہ پراجیکٹ کو جس دھوم دھڑکے سے لاگو کیا گا اس کے ثمرات سے عوام مستفید ہورہی ہے ۔اب ایک بار پھر صدارتی نظام کے تجربے کی بات ہورہی ہے ۔گو کہ یہ عملی طورپر ممکن نہیں مگر ایک رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے ۔کیوں نا اس بار کسی نئے تجربے کی بجائے 1973 کےآئین کو آزما لیا جائے اور ایک بار فری اینڈ فئیر انتخابات کروا کے اقتدار جیتنے والوں کے سپرد کردیا جائے ۔جہاں اتنے تجربات کرلیے تو وہاں ایک اور تجربہ کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔کیوں نا اس بار لوگوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دیں اور ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کے منتخب کردہ نمائندوں کوحکومت کرنے کا موقع دیا جائے ۔اگر یہ تجربہ کامیاب ہوگیا تو کیا ہی بات ہے اور اگر خدانخواستہ ناکام ہوا تو کم سے کم حالیہ تجربے سے تو بہتر ہی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments