کیا ماں باپ کا کوئی لاڈلا بچہ ہوتا ہے؟ وہ راز جسے والدین سینے میں چھپائے رکھتے ہیں


فیورٹ بچہ
کیا آپ کےگھر میں کبھی یہ بحث ہوئی کہ ماں باپ کا لاڈلا بچہ کون ہے؟ یا پھر یہ سوال اٹھا ہو کہ کس بچے کو زیادہ توجہ دی جاتی ہے؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جو کسی نہ کسی شکل میں تقریباً ہر اس گھر میں موجود ہوتا ہے جہاں بچوں کی تعداد ایک سے زیادہ ہو۔ کس کو زیادہ پیار ملتا ہے؟ کون ماں کی آنکھوں کا تارہ ہے؟ باپ کس کی ضد پوری کرتا ہے اور غصہ کس کے حصے میں آتا ہے؟

اسی سے جڑا ایک اور سوال بھی ہے۔ کیا گھر کا بڑا بچہ لاڈلا ہوتا ہے یا چھوٹا؟ فارسی کی ایک کہاوت ہے کہ سگ باش، برادرِ خورد مباش۔ یعنی کتا بن جا لیکن چھوٹا بھائی مت بن۔ اس کہاوت کی وجہ تسمیہ غالباً چھوٹوں کی یہ شکایت ہو گی کہ ہر کوئی انہی پر حکم چلاتا ہے۔ لیکن بڑوں کی اپنی شکایات ہیں اور منجھلوں کے اپنے مسائل۔

عام تاثر یہ ہے کہ بڑے سب کچھ منوا لیتے ہیں لیکن ان پر ذمہ داری بھی زیادہ ہوتی ہے۔ چھوٹوں کے حصے میں پیار زیادہ آتا ہے تو انھیں اس کا حساب بھی اسی طرح فرمانبرداری کر کے چکانا پڑتا ہے۔ جب کہ منجھلے سمجھتے ہیں کہ وہ خاندان کا ایسا پسہ ہوا طبقہ ہیں جن کو نہ تو وہ توجہ ملتی ہے جو پہلے بچے کے نصیب میں آتی ہے اور نہ ہی وہ پیار جو چھوٹوں کو بن مانگے ہی وصول ہو جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس رجحان کے پیچھے چھپی کوئی سائنسی وجوہات بھی ہیں؟ کیا ماں باپ اپنے بچوں میں فرق کرتے ہیں؟ اس کا سادہ جواب ہاں میں ہے۔ لیکن اس کی وجوہات کیا ہیں، یہ ایک دلچسپ معاملہ ہے۔

والدین

کیا والدین بچوں میں فرق کرتے ہیں؟

اس سوال کا درست اور سچا جواب دینا ہر کسی کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ بچوں کی ناراضگی کا خوف ایک طرف، والدین اکثر یہ ماننے سے انکار ہی کر دیتے ہیں کہ وہ کسی ایک کو دوسرے سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

لیکن ایسا ہوتا ہے۔ سارہ (فرضی نام) کے دو بچے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں دوسرے بچے کی پیدائش پر ہی محسوس ہو گیا تھا کہ وہ ہی ان کو زیادہ پیارا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے دونوں سے ہی پیار ہے لیکن چھوٹے میں کچھ ایسی بات ہے جو بڑے میں نہیں۔

اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ سارہ کے خیال میں پہلے بچے کی پیدائش پر ہی اس کی صحت کی خرابی کے باعث اسے ان سے لے لیا گیا تھا اور 24 گھنٹوں تک وہ اسے دیکھ ہی نہیں پائی تھیں۔ ’شاید یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ماں کے دل میں بچے کے لیے جذبات پنپتے ہیں جو دوسرے بچے کی پیدائش پر ممکن ہوا۔’

اب جب ان کے بچے بڑے ہو چکے ہیں تو کیا صورت حال ہے؟ سارہ کہتی ہیں کہ اگر میں اپنے چھوٹے بیٹے کو رات کے دو بجے بھی فون کروں تو وہ جہاں ہو دوڑا چلا آتا ہے۔ ’وہ شائستہ، دوستانہ، ملنسار طبیعت کا ایسا شخص ہے جو کسی بھی وقت کسی کی بھی مدد کے لیے تیار ہوتا ہے۔ لیکن بڑے بیٹے سے تو ملنے کے لیے بھی اس سے وقت مانگنا پڑتا ہے۔’

سارہ کے مطابق کئی سال وہ اس تذبذب کا شکار رہیں کہ بچوں میں فرق کرنا درست ہے بھی یا نہیں؟ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’اب میں اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتی۔ یہ مشکل تھا لیکن مجھے کوئی احساس جرم نہیں۔ موقع ملے تو میں اس پر ایک کتاب لکھ سکتی ہوں کہ میں ایک بچے کو دوسرے سے زیادہ پیار کیوں کرتی ہوں۔’

سارہ کا معاملہ ذرا منفرد اس لیے ہے کیوں کہ زیادہ تر والدین اس موضوع پر بات نہیں کرتے حالانکہ ڈھکے چھپے طریقے سے وہ بچوں میں فرق ضرور کرتے ہیں۔ اور یہ بات اب تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ زیادہ تر والدین کا کوئی نہ کوئی فیورٹ بچہ ضرور ہوتا ہے۔

والدین خصوصاً مائیں کیوں ایک اولاد سے زیادہ پیار کرتی ہیں؟

اس بات کے کئی شواہد ہیں کہ اگر بچوں میں سے کسی کو یہ لگے کہ وہ پسندیدہ نہیں تو اس کے اثرات بچے کی شخصیت پر پڑتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بچوں میں لڑائی کی وجہ بھی بنتی ہے۔ اس لیے یہ حیران کن نہیں کہ اکثر والدین کوشش کرتے ہیں کہ بچوں پر یہ ظاہر نہ ہو کہ ان کو کون زیادہ پیارا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جہاں والدین بچوں میں فرق کرتے ہیں وہیں بچوں کو اس بات کا علم نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ والدین کس طرح سے بچوں میں فرق کے احساس کا خیال رکھتے ہیں؟

ماریہ ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سب والدین نہیں، لیکن زیادہ تر کا کوئی نہ کوئی فیورٹ بچہ ہوتا ہے۔ ’تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مائیں خاص طور پر ایسے بچوں کو زیادہ پیار کرتی ہیں جس کی اقدار ان سے ملتی ہوں اور جو خاندان کو اپنے کام اور اپنی خواہشات پر فوقیت دے۔’

وجوہات جو بھی ہوں، کئی تحقیقات ایسی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ والدین مانیں یا نہ مانیں، ان کا کوئی نہ کوئی فیورٹ بچہ ضرور ہوتا ہے۔ ایک ایسی ہی تحقیق میں برطانیہ میں 74 فیصد ماوں اور 70 فیصد باپوں نے ایک اولاد کی طرف زیادہ رجحان دکھایا۔

لیکن والدین اس کا اقرار نہیں کرتے۔ ایک اور تحقیق میں جب والدین سے یہی سوال کیا گیا تو صرف 10 فیصد نے اقرار کیا کہ ہاں ان کا ایک بچہ فیورٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کے لیے یہ ایک ایسا خاندانی راز ہے جسے وہ سینے میں چھپائے رکھنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

بچوں کی پرورش کا مغربی طریقہ کتنا عجیب ہے

’کیا ماں کا حق نہیں تھا کہ بیٹا اس کا سہارا بنتا؟‘

اچھے والدین بننے کے لیے یہ پانچ باتیں یاد رکھیں

والدین جنھیں بچوں کے ہونے پر پچھتاوا

چھوٹے بچے والدین کے فیورٹ

ایسے کیسز میں جہاں والدین نے بچوں میں تفریق کا اقرار کیا، یہ پتہ چلا کہ اس کا تعلق بچوں کی پیدائش کی ترتیب سے بھی ہے۔ ایک سروے کے مطابق زیادہ تر والدین نے سب سے چھوٹے بچے کو پسندیدہ ترین قرار دیا۔

دو اولادوں والے تقریباً 62 فیصد نے اقرار کیا کہ ان کا سب سے چھوٹا بچہ انھیں سب سے پیارا ہے۔ ایسے والدین جن کے تین یا زیادہ بچے تھے، ان میں سے 43 فیصد نے بھی سب سے آخر میں پیدا ہونے والے کو سب سے لاڈلا قرار دیا۔ جب کہ ایک تہائی نے درمیانے اور صرف 19 فیصد نے بڑے کو فیورٹ مانا۔

ڈاکٹر وجیتی سنھ نیو یارک کے ماوئنٹ سینائی ہسپتال میں کلینیکل سائیکالوجسٹ ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بچوں میں فرق کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ شروع میں ماں باپ نا تجربہ کار ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کی بھی تربیت ہوتی ہے کہ بچے کا خیال کیسے رکھنا ہے، کیسے اس میں اچھی عادات منتقل کی جا سکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ والدین زیادہ تر ایسے بچے کو زیادہ پیار کرتے ہوں جس میں انھیں اپنی مشابہت نظر آتی ہو یا جو ان کے خیال میں بطور والدین ان کی کامیابی کا ثبوت ہو۔ ’سب سے چھوٹے بچے وہ ہوتے ہیں جن کی پیدائش کے وقت تک والدین کو تجربہ بھی مل چکا ہوتا ہے اور وہ زیادہ پر اعتماد بھی ہوتے ہیں۔’

کیا بچوں میں فرق کرنا نقصان دہ ہے؟

بچوں

زیادہ تر ایسے والدین جنھیں اپنا ایک بچہ زیادہ پیارا ہوتا ہے ایک احساس جرم میں مبتلا رہتے ہیں۔ انھیں یہ خیال تنگ کرتا رہتا ہے کہ کہیں ان کے جذبات کی وجہ سے بچے کی خود اعتمادی اور اس کی شخصیت کو نقصان نہ ہو۔

ڈاکٹر وجیتی کہتی ہے کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ ایسے بچے جنھیں یہ محسوس ہو کہ انھیں زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی وہ احساس کمتری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ’ان میں یہ خیال مضبوط ہو سکتا ہے کہ وہ تو پیار کرنے کے لائق نہیں ہیں یا ان میں کوئی ایسی بات ہی نھیں کہ دوسرے ان سے پیار کریں۔’

’اس خیال سے خوف اور عدم تحفظ جنم لے سکتا ہے جس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ ایسے بچے اپنے ارد گرد موجود لوگوں سے زیادہ ہی گھلنے ملنے کی کوشش کریں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا بچہ ایک خول میں چلا جائے۔’

مثبت بات یہ ہے کہ ان خدشات کے باوجود شواہد اور تحقیق کے مطابق جب تک والدین کا بچوں سے برتاو میں فرق بہت واضح نہ ہو، زیادہ تر بچوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ماں باپ کے لیے وہ کم پسندیدہ ہیں۔

بلکہ زیادہ تر بچوں کو تو کبھی یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے والدین کس کو زیادہ ترجیح اور پیار دے رہے ہیں۔ ایک ایسی ہی تحقیق میں جب یہ سوال کیا گیا کہ والدین کا فیورٹ کون ہے تو پانچ میں سے چار کے تناسب سے جواب ملا کہ وہ نہیں بلکہ دوسرا ہے۔ ایسی ہی ایک تحقیق میں 60 فیصد بچوں نے خاندان میں فیورٹ کا غلط اندازہ لگایا۔

وہ راز جسے والدین کامیابی سے چھپائے رکھتے ہیں

ماریہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر بچے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ سب سے بڑا یا پھر سب سے چھوٹا ہی والدین کا فیورٹ ہے یا پھر وہ بچہ جو سب سے کامیاب ہے اور ماں باپ کو زیادہ تنگ نہیں کرتا۔

دوسری طرف والدین کے لیے وجوہات بلکل مختلف ہوتی ہیں۔ جیسا کہ کون سے بچہ ہے جسے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے یا کون سا بچہ ان سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔

تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ ماں باپ کو کون زیادہ پسند ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ صرف خاندان اور گھر میں ہونے والی ہلکی پھلکی نوک جھوک کا حصہ ہے؟ ماریہ کہتی ہیں کہ ان کے اپنے بچے بھی ہر وقت یہ مذاق کرتے رہتے ہیں کہ کون زیادہ فیورٹ ہے۔

ماریہ کہتی ہیں کہ ایسا ممکن ہے کہ کسی دن مجھے کسی ایک بچے پر زیادہ پیار آئے جس کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔ لیکن اہم بات جسے یاد رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ فیورٹ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ والدین باقی بچوں سے کم پیار کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments