جہاں برف گرتی ہے


پہاڑوں پر برف باری شروع ہوتی ہے تو ملک کے کئی علاقوں سے بے شمار لوگ اپنی بیوی بچوں کو لے کر برف باری کا نظارہ کرنے کے لئے گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ ان کے محفوظ سفر کے لئے اسلامی تعلیم سے سرشار افراد کی دعائیں اور نیک دل حکمرانوں کی اشیر باد ان کے ساتھ ہوتی ہے اور ہماری دانست میں عوام کی خدمت کے لئے کروڑوں اربوں کی مالیت پر قائم بے شمار ادارے ان کے لئے فرش راہ ہوتے ہیں محکمہ سنو کلیئر نگ پنجاب، پولیس، ٹریفک پولیس، محکمہ ہائی وے، انتظامیہ اور سب سے بڑھ کر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی موجود ہے جو قدرتی آفات اور انسانی ناکامیوں سے پیدا کردہ آفات سونامی، سائیکلون، طوفان باد باراں، گلیشئر، برف باری کے طوفان اور صنعتی حادثات سے نمٹنے کے لئے ید طوفیٰ رکھتی ہے۔

بظاہر عوام کے تحفظ کے لئے اس قدر مکمل انتظام تھا مگر دکھ کی بات یہ ہے ان سب کے باوجود بے آسرا شہری کس طرح تاریک راہوں میں مارے گئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا یہ سب کچھ کس کی غفلت کا نتیجہ تھا؟ کیا حکمرانوں کے وژن میں کوئی سقم تھا یا مختلف محکموں نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کی یا اس طرح کے خراب موسم میں لوگوں کا گھر سے نکلنا ٹھیک نہیں تھا۔ اگر نکل بھی پڑے تھے تو جب موت کا دن، وقت اور طریق کار مقرر ہے تو پھر کوئی کیا کر سکتا ہے پھر کس کی غفلت اور کس کا قصور؟

ہمیں یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک انسان اس صفحہ ہستی پر موجود ہے سختیوں کے باوجود زندگی کی خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہونے کی آگ اس کے اندر سلگتی رہے گی اور وہ ان کے لئے ہمہ وقت تیار اور سینہ سپر رہتا ہے وہ اردگرد کی تمام مشکلات قدرتی آفات اور زندگی کی انہونیوں سے نمٹتا اپنے لیے خوشی کے لمحات تلاش کرنے کی تگ و دو میں رہتا ہے وہ زندگی کے شیریں رس کا ایک ایک گھونٹ ایک ایک جرعہ کشید کر کے اپنے وجود میں انڈیلنا چاہتا ہے اسی لیے جب گرمی پڑتی ہے تو سورج کی حدت سے تپتے میدانوں کو خیر باد کہہ کر وہ پہاڑوں کا رخ اختیار کرتا ہے جہاں رم جھم بارشیں ہوتی ہیں آسمان پر بادل تیرتے پھرتے ہیں جو کبھی گھنگھور گھٹاؤں میں بدل جاتے ہیں کبھی زمین پر اتر کر انسان کے وجود کے گرد پھیل جاتے ہیں۔

کبھی دور پہاڑیوں پر پھیلی نیلاہٹ اس کا راستہ روک لیتی ہیں کبھی حد نگاہ تک پھیلے چیڑ اور چناروں کا سلسلہ اس کی روح میں گھر کرتا ہے اور جب برف باری کا زمانہ آتا ہے تو ژالہ باری سے خوفزدہ انسان برفباری میں گرتے کومل گالوں کا نظارہ کرنے گھر سے نکل پڑتا ہے۔ فطرت کے مظاہر کا نظارہ کرنا اس کی فطرت میں ہے۔ وہ زمانہ لد گیا جب راستے اور شاہراہیں نہیں تھیں رسل و رسائل کے وسائل میسر نہ تھے سفر ایک پر آشوب استعارہ تھا۔

دنیا سے محبت کرنے والوں نے انسانوں کے لئے اس قدر آسانیاں اور سہولتیں پیدا کر دی ہیں کہ ادھر انسان کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے ادھر گاڑی نکالی اور منزل کی طرف کشاں کشاں چل پڑا۔ کہتے ہیں کہ اس قدر خراب موسم میں وہ گھروں سے کیوں نکل پڑے کیا یہ انہونی بات تھی پاکستان میں پہلی دفعہ برف پڑی تھی؟ وہ بھی دو فٹ سے زیادہ نہیں۔ یورپ، کینیڈا، امریکہ اور دنیا کے دوسرے بے شمار ممالک میں جہاں روزانہ آٹھ فٹ سے بھی زیادہ برف گرتی ہے وہ برف کی چادر میں منجمند ہو کر نہیں رہ جاتے، لوگ گھروں میں سمٹے بیٹھے رہنے کی بجائے اس کا انتظار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں بے شک تم گھر سے نہ نکلو برف تو گرنی ہے وہ اس میں بے شمار کھیل کھیلتے ہیں گرم کپڑوں میں ملبوس بچوں کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔

صبح جب راستوں اور ڈرائیو ان سے برف ہٹاتے ہیں تو اس میں بچوں کو ساتھ لگایا جاتا ہے۔ ٹارگٹ بنا کر بچوں کو اس پر سنو بال کھیلنے کی پریکٹس کراتے ہیں برف کے چھوٹے چھوٹے گھروندے اور قلعے بنا کر اس میں چھپنے کا انتظام کرتے ہیں۔ سنو مین اور آئس اینجل بنائے جاتے ہیں جن کے ساتھ بچے کھیلتے ہیں اور اس طرح اینجل فیملی بن جاتی ہے۔ ان ڈور کھیلیں ان کے علاوہ ہیں۔ لیکن نام نہاد سیاسی جوکروں اور مذہبی گروہوں نے انسان سے چھوٹی چھوٹی خوشیاں چھین لی ہیں انسان سے انسان کی محبت چھین لی ہے۔ کمرشل اداروں میں بدل کر انسان سے عبادت گاہوں کا تقدس چھین لیا ہے۔ ان بہروپیوں نے اس چھوٹی سے دنیا کو سور کی ہڈی سے تشبیہ دے کر اس خوبصورت دنیا کو بدصورت بنانے کی کوشش کی ہے۔

جب اس قدر برف گرنے سے کافر ملکوں میں کچھ نہیں ہوتا تو اس پاکیزہ اور مقدس ملک میں اس طرح کے المیے کیوں جنم لیتے ہیں پھر اتنے محکموں ٹال پلازوں اور چیک پوسٹوں اور اس قدر محکموں اور ڈیزاسٹر اتھارٹی کی کوکھ سے اس قدر المناک حادثے کیوں جنم لیتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے کھوکھلے سیاسی نعرے اور بوسیدہ اعلان کہ ہم نے اس ملک کو مقدس ریاست میں بدل دیا ہے اور ہم نے آ کر سیاحت کا ایک وژن دیا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں دیا۔

اس المیے سے جو محکموں کی مکمل نا اہلی سامنے آئی اس پر سیر حاصل بحث ہو چکی ہے کہ برفباری کا سپیل آنے سے پہلے کسی محکمے کا نہ انفرادی پروگرام تھا اور نہ متعلقہ محکموں کا اجتماعی معیاری لائحہ عمل SOP تیار کیا گیا تھا نہ اس پر عملدرآمد کرنے کی کوئی کوشش اور خواہش دکھائی دیتی ہے۔ کہ جب موسم میں ٹریفک کا بہاؤ زیادہ ہو گا جب ہر طرف برفباری کا سماں اور ہر طرف برف کی سلطنت قائم ہو جائے گی تو اس میں عملے اور مشینوں کو کہاں کہاں ڈپلائے کیا جائے گا۔

اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی کہاں کہاں اور کس طرح شمولیت ہوگی اگر تمام محکموں کو اپنے اپنے متعلقہ فرائض کا کماحقہ احساس ہوتا اور ایک مضبوط پروگرام ترتیب دیا ہوتا تو کسی غلطی کا کوئی احتمال نہ ہوتا اور ہر محکمہ اپنی کارگردگی بہتر انداز میں سر انجام دے سکتا تھا لیکن لگتا ہے کہ ملک میں جیسے انتظامی غدر پھیلا ہوا ہے۔ اگر تھوڑی سی بھی تیاری ہوتی تو کبھی یہ المیہ ظہور پذیر نہ ہوتا دکھ کی بات یہ ہے جتنے بھی ادارے ہیں ان میں سے کسی کی نمائندگی نہیں تھی۔ سنی بینک سے جھیکا گلی ایک چھوٹا سا قطعہ ہے لیکن اس پر قیامت گزر گئی اس سے زیادہ ہماری نالائقی اور بے حسی کیا ہو سکتی ہے۔

اور اس سے زیادہ گھناؤنا کردار وہاں کی دکانوں اور ہوٹلوں کے مالکان کا تھا جنہوں نے ایک ایک کمرے کے لئے پچاس ہزار روپے تک کرائے طلب کیے اور واش رومز کے استعمال کے لئے مزید پیسے طلب کیے۔ طوفان برفباری میں گھرے لوگوں کے لئے مساجد کے دروازے بھی نہ کھل سکے۔ نہ ارد گرد کے مذہبی لوگوں کو اس امر کا شعور تھا کہ رفاہ عامہ کیا ہوتا ہے برف میں پھنسی گاڑیوں کو نکلوانا کیسے ہے کاش ان مصیبت ذرہ لوگوں کے لئے تو گھروں، مساجد، ہوٹلوں اور دکانوں کے دروازے کھول دیے جاتے اور دکھ میں ان کا ساتھ دیا جاتا۔

آپ کو یاد ہو گا کہ جب 2011 میں جاپان کے شمالی علاقہ ہانسوکو میں سونامی اور زلزلہ آیا جس میں نہ صرف بے پناہ زمینی نقصان ہوا اس سے سونامی کا وہ طوفان پیدا ہوا کہ جس نے ملک کے ساحلی علاقے کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ یہ جاپان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا ان حالات میں جو دکانیں اور سٹور بچ گئے مالکان نے مصیبت زدہ بھائیوں کے لئے کھول دیے کہ وہ بغیر ادائیگی کے جب چاہیں اپنی ضرورت کی اشیا وہاں سے حاصل کر سکتے ہیں اور یقین واثق ہے کہ جاپانی اتنے غیور اور ایماندار ہیں کہ جب ان کے حالات ٹھیک ہوئے ہوں گے انہوں نے سٹور پر جا کر رقم کی ادائیگی کر دی ہو گی اور یہاں لاکھوں مساجد اور کروڑوں علماء کی محبت میں رہنے والوں کا مزاج خود غرض انسان دشمن لوگوں میں بدل گیا ہے جو ہر وقت اپنے بھائیوں کی کھال اتارنے کو تیار رہتے ہیں۔

یہ المیہ اداروں اور ذمہ واروں کی غفلت اور ریاست کی عمومی نا اہلی سے رونما ہوا اس سے کوئی بھی اپنی اپنی جگہ پر بری الذمہ نہیں ہو سکتا کہا گیا ہے کہ مری سانحہ عمران خان کا پیچھا کرے گا لیکن کچھ بھی نہیں ہو گا وہ ایک ٹویٹ کریں گے کہ انہیں اس واقعے سے دلی افسوس ہوا ہے بس اس سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں آج تک اس سے زیادہ انہوں نے کیا بھی نہیں۔ ذمہ واری وزیر اعلی کی بھی ہے لیکن یہ ایسی حکومت ہے کہ ایک کو بات سمجھ نہیں آتی دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے وہ خود کو عقل کل سمجھتا ہے۔

چوبیس سال کی جدوجہد کے بعد اس نے قوم کو اور کیا دیا ہے جو اس معاملے میں اس سے کوئی امید لگائے بیٹھے ہیں اتنے سانحے ہوئے انہوں نے ہمیشہ انکوائریوں کا حکم دیا اس سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکے۔ اب ہو گا کیا سانحہ آ کر گزر گیا ہے اگر کوئی عوامی حکومت ہوتی تو دن رات ایک کر کے تمام کوتاہیوں کا جائزہ لیتی پھر فول پروف انتظام مکمل کر کے تمام محکموں کو الرٹ کر دیتی کہ آئندہ نہ صرف کوئی ایسا روح فرسا واقعہ رونما نہ ہو بلکہ زیادہ سے زیادہ عوام اس طرح کی تفریحات سے لطف اندوز ہو سکیں مگر اس نام نہاد ریاست میں صرف یہ ہو گا کہ چند افراد کو معطل کیا جائے گا کچھ تبادلے کر دیے جائیں گے اور انکوائری کا حکم جاری ہو گا اور پھر حسب دستور رموز مملکت اور ان کی مصروفیت میں حکمرانوں کو اتنا وقت میسر نہیں ہو گا کہ وہ انکوائری رپورٹ کو دیکھ سکیں آخر میں وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے نام نہاد مذہبی ریاستوں میں بہروپیے جنم لیتے ہیں جو خوش کن تقریروں اور بوسیدہ الفاظ کے سحر میں لوگوں کو یہ کہہ کر خاموش کرا دیتے ہیں کہ موت کا ایک دن معین ہے۔

عوام کو مذہبی حوالوں سے مطمئن کرنے کی کوشش ہوگی کہ موت اٹل ہے جو وقت لکھا ہوا ہے وہ آ کر رہے گا لیکن ذہن میں رہے کہ یہ دنیا سب اسباب کی دنیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ اموات کسی کی غفلت کا نتیجہ تھیں کسی کی منشا اور کسی کے ظلم سے تو موت واقع نہیں ہوئی اگر ایسا نہ ہوتا تو قتل ناحق پر قصاص کا حکم نہ آیا ہوتا۔

موت ابھی تک اٹل ہے لیکن انسان کو جب سے شعور آیا ہے اس کوشش میں ہے کہ موت کو شکست دے سکے وہ جانتا ہے کہ آبادیوں میں، ویرانوں میں، جنگلوں میں دنیا کے ہر کونے میں موت ہے۔ اس نے جہاں سمندروں کی تہوں کو چھان لیا ہے وہ کائنات کے اسرار و رموز کو جاننے اور اس کو تسخیر کرنے میں لگا ہے اس کا ٹارگٹ وباؤں، بیماریوں اور موت کا خاتمہ ہے۔ جب فرشتوں نے اس کی تخلیق میں مخالفت کی تو خداوند کریم نے تھا کہا جو کچھ وہ جانتا ہے تم نہیں جانتے میں نے اسے احسن تقویم پر تخلیق کیا ہے شیکسپئر کے الفاظ میں

What a piece of work is a man!
how noble in reason! how infinite in faculty!
in form and moving how express and admirable!
in action how like an angle!
in apprehension how like a god!
the beauty of the world! the paragon of animals!

فرمان الٰہی کی اس سے بہتر تفسیر نہیں کی جا سکتی انسان اپنی زندگی کو اٹل بنانے کی طرف کوشاں ہے اور وہ آہستہ آہستہ اپنے مشن کی طرف بڑھ رہا ہے ہو سکتا ہے اسے صدیوں بعد یا ہزاروں سا بعد اپنے اس مشن میں کامیابی حاصل ہو اور جب کامیابی مل گئی تو میری دانست میں یہ وہ لمحہ ہو گا جب مشیت ایزدی جوش میں آئے گی کہ مرے ہاتھوں سے بنا مٹی کا یہ پتلا اب خود خدا بننے کی کوشش کر رہا ہے تو پھر وہ ہو گا جس کے بارے مقدس کتاب کہتی ہے

”جب بھڑکتی آگ نمودار ہو گی جب کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہو گی جب سورج لپیٹ دیا جائے گا
تارے بکھر جائیں گے اور پہاڑ دھنکی ہوئی اون کی طرح اڑ جائیں گے ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments