نین کھلے تو اوجھل ”سپنا“ – نائلہ گل قاضی کی تیسری برسی



27 جنوری کا دن، سندھ کی جواں مرگ شاعرہ، نثر نویس، استاد، ماہر تعلیم اور کمپیئر، پروفیسر نائلہ گل ”سپنا“ قاضی کی یاد لے کر آتا ہے، جو آج سے 3 برس قبل، محض 41 برس کی عمر میں سندھ سے بچھڑ گئی اور اپنے پیچھے ادب خواہ تعلیم کا ایسا نامکمل سفر چھوڑ گئی، جس راستے پر ابھی انہیں کئی دہائیوں تک چل کر، سندھ کی پہچان بن کر عالم آشکار دانشور بننا تھا۔

سندھ میں انگنت شخصیات کی طرح کچھ گھرانے بھی علم، ادب خواہ فنون لطیفہ کے مختلف شعبہ جات کی اس طرح مانگ سجاتے رہے ہیں، کہ ان خانوادوں کا تقریباً ہر فرد، ادب کے گلشن کی آبیاری کرتے ہوئے، اپنی خواہ اپنے خطے کی پہچان بنانے میں کامیاب رہا ہے اور ان گھرانوں کے ان افراد کو انفرادی طور پر خطۂ سندھ نے پہچانا اور توقیر بخشی ہے۔ سندھ کے ایسے ہی گنے چنے علمی، ادبی اور مصوری سے وابستہ خانوادوں میں سے ایک، لاڑکانے ضلع کے رتو ڈیرو شہر کا قاضی خاندان ہے، جس میں 8 دسمبر 1977 ء کو، نائلہ گل ”سپنا“ نے آنکھ کھولی، جس گھرانے کو ماضیٔ قریب سے یہ خطہ، اس کے جد امجد، قاضی عبدالحی ”قائل“ کے نام اور حوالے سے پہچانتا ہے، مگر اس خاندان کی ادبی وابستگی کا سلسلہ لگ بھگ اس سے بھی 13 پشتیں پہلے سے چلا آ رہا ہے۔

7 برس قبل 2015 ء میں سندھ سے بچھڑ جانے والے حسین شاعر، محقق، کالم نویس اور مترجم، مقصود گل کی سب سے بڑی اولاد، نائلہ گل ”سپنا“ بنت مقصود گل ولد قاضی ’قائل‘ ، ولد قاضی عبدالحق ’عبد‘ ، ولد قاضی خوش محمد کو اگر میں قدیم روایتی انداز میں شاعرہ ابن شاعر، ابن شاعر، ابن شاعر لکھوں، تب بھی غلط نہ ہو گا، مگر میں ان کا تعارف کرانے کے لئے سندھ کے نامور محقق اور حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحہ پر پی ایچ ڈی کرنے والے منجھے ہوئے عالم اور دانشور، ڈاکٹر شاہنواز سوڈھر کے ان الفاظ کا سہارا لوں گا کہ: ”نائلہ گل، ایک عالم گھرانے کی چشم و چراغ ہے۔ جابرانہ سوچوں اور متکبر روایات کو اس کے خاندان نے ہمیشہ ہی سے ناپسند کیا ہے۔ نائلہ گل قاضی نے، سسئی کے احوال زیست کو ایم۔ اے۔ (فائنل) میں اپنے مضمون کے طور پر منتخب کر کے یہ غیر شعوری طور پر ثابت کیا ہے کہ، سندھ کا دانشور طبقہ، ذات پات کی تفریق سے کافی آگے ہے۔“

چار بھائیوں کی اکیلی بہن۔ مقصود گل اور گلنار بدر کا پہلوٹھی بچہ۔ پیدائشی طور پر ذہین۔ جیسے اپنے ورثے کی مشعل کو مضبوطی سے تھامے آگے لے جانے کے لئے تیار تھی۔ 1982 ء میں پہلی کلاس میں گورنمنٹ پرائمری اسکول نمبر 2 رتو ڈیرو میں داخل ہوئی۔ 1987 ء میں پانچویں کلاس کا امتحان پاس کرنے تک ہر کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کرتی رہی۔ پانچویں کلاس میں سالانہ امتحانات کے ساتھ ساتھ اسکالرشپ کا امتحان بھی نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔

چھٹی کلاس میں گورنمنٹ مدرسہ الغرباء گرلس ہائی اسکول رتو ڈیرو میں داخل ہوئی۔ (جو اس وقت تک رتو ڈیرو میں لڑکیوں کا سیکنڈری ایجوکیشن کا واحد ادارہ تھا۔ ) جہاں سے 1992 ء میں میٹرک کا امتحان امتیازی مارکس کے ساتھ پاس کیا۔ یہی اسکول، سپنا کے میٹرک پاس کرنے تک، اپ گریڈ ہو کر ”گورنمنٹ گرلس ہائیر سیکنڈری اسکول“ بن چکا تھا، جہاں سے انہوں نے 1994 ء میں انٹر کا امتحان نمایاں نشانات سے پاس کیا۔ اپنی فطری خواہ خداداد مصورانہ صلاحیتوں کی آبیاری کرتے ہوئے، انہوں نے اپنی سیکنڈری ایجوکیشن کے دوران، ایلیمینٹری اور انٹرمیڈیٹ ڈرائنگ کے امتحانات بھی قابل رشک کامیابی کے ساتھ پاس کیے ۔

انٹر سائنس کرنے کے بعد ، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے 1997 ء میں بی۔ اے۔ اور اس کے 3 سال بعد 2000 ء میں سندھی ادب میں ایم۔ اے۔ کی ڈگری ”فرسٹ کلاس۔ فرسٹ پوزیشن“ کے ساتھ حاصل کی۔ 2016 ء کے قریب خیرپور یونیورسٹی ہی میں سندھی ادب میں ایم۔ فل۔ اسکالر کی حیثیت سے رجسٹر ہو کر کورس ورک شروع کیا، مگر بے وفائیٔ حیات کے باعث ایم۔ فل۔ مکمل نہ کر سکیں۔

زمانۂ طالب علمی میں نائلہ، اپنے اسکول خواہ کالج کی شعلہ بیان مقرر رہیں۔ ڈبیٹ کے ساتھ ان کی دلچسپی و شوق اور مباحثوں میں شرکت نے ان کو اسٹیج پر بات کرنے کا اعتماد بھی بخشا، تو ہنر بھی عطا کیا!

سندھی میں ماضی سے آج تک، خواتین ادیباؤں کی تعداد و تناسب بہت کم رہا ہے، ان میں بھی شاعرات کی تعداد تو اور بھی کم ہے۔ سپنا نے، اپنی اس موروثی عطا کو اپنے ہنر کی طاقت سے اور نکھارا اور شاعری کے میدان میں اپنے الگ انداز کے ساتھ لکھنے لگیں۔ ان کی اولین تحریر تو ان کی سیکنڈری سکولنگ کے زمانے میں 1988 ء کے قریب کسی اخبار میں شائع ہوئی تھی، جو بھی کسی نظم کی صورت میں تھی، مگر انہوں نے ”سپنا گل قاضی“ کے قلمی نام کے ساتھ باقاعدہ طور پر 1993 ء سے لکھنے کا آغاز کیا۔

سپنا، بنیادی طور پر شاعرہ تھی اور پابند خواہ آزاد شاعری کی لگ بھگ ہر صنف پر طبع آزمائی کرنا ان کی مستقل شعری مشق کا حصہ تھا۔ ان کی شاعری، سندھی ادبی بورڈ کے خواتین کے لئے شائع ہونے والے رسالے، سہ ماہی ”سرتیوں“ (سکھیاں ) اور دیگر مشہور جرائد میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہی۔ سپنا مشاعروں میں بہت ہی کم شرکت کیا کرتی تھیں، مگر شاعرہ کی حیثیت سے ان کا پہلا مشاعرہ 1997 ء میں سندھی ادبی بورڈ کی جانب سے سندھ میوزیم حیدرآباد کے ممتاز مرزا آڈیٹوریم میں منعقدہ ”کل سندھ خواتین مشاعرہ“ تھا، جس میں شعر پڑھتے وقت ان کی عمر محض 20 برس تھی۔ اس مشاعرے میں شاعرہ نہ ہونے کے باوجود، عظیم جرمن اسکالر، ڈاکٹر اینیمری شمل نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی تھی۔

سپنا نے، دیگر اصناف سخن کے علاوہ غزل اور نظم میں سب سے زیادہ طبع آزمائی کی۔ انہوں نے ہر بحر میں غزل کہی۔ مختصر بحر میں غزل کہنا سب سے مشکل امر سمجھا جاتا ہے، مگر انہوں نے مختصر ترین بحور میں بھی کامیابی سے غزلیات کہیں۔ ان کی غزلیات میں منفرد و یکتا قوافی کا استعمال جابجا نظر آتا ہے، جو سپنا کی شاعرانہ برجستگی کا ثبوت ہے۔ ان کی شاعری، داخلی جذبات سے لے کر خارجی احساسات تک ہر قسم کے اظہار کا بھرپور بیان ہے۔

تم پر میرے قرض بہت ہیں
تم کو اپنے فرض بہت ہیں
میری جانب دھیان ذرا ہو،
دامن پر ہے، عرض بہت ہیں
تو جو مجھ سے دور اگر ہو،
خوش ہوتے خود غرض بہت ہیں
حسرت، خواہش، الجھن، ”سپنا“
میرے من کے مرض بہت ہیں

شادی کے وقت، اپنا آبائی گھر چھوڑتے ہوئے اپنے احساسات کا اظہار اس نظم میں کتنی عمدگی اور یکتائی سے کرتی ہیں :

میرا کمرا اداس ہونا ہے
دل کا ڈیرا اداس ہونا ہے
تم سے لوں گی میں جس گھڑی رخصت،
تیرا چہرہ اداس ہونا ہے
سانجھ سے قبل ہے چلے جانا
پھر سویرا اداس ہونا ہے
میری سکھیاں جو گنگنائیں، وہ،
گیت، سہرا اداس ہونا ہے
میری پونجی وہ منتشر ”سپنا“
گھاؤ گہرا اداس ہونا ہے

ذاتی احساسات کے اظہار کے علاوہ سپنا کا قلم، اپنی جنم بھومی کی محبت میں بھی سر چڑھ کر بولتا ہے اور مختلف منظومات میں اپنی دھرتی کی محبت میں وہ جابجا گویا ہوتے دکھائی اور سنائی دیتی ہیں :

سندھو! تجھ سے سانس جڑا ہے
دل پر تیرا نام لکھا ہے
’موہن‘ ، ’مکلی‘ ، ’جھوک‘ ، ’درازا‘
’بھٹ شہ‘ سے ایمان بندھا ہے
جینا ہے ہر طور ابد تک،
سر، جو تیرے نام کٹا ہے
عدوئے ارض پاک کی گردن،
طعن کا بھاری طوق پڑا ہے
سولی پر تاریخ کے دیکھو!
غاصب! تیرا سیس ٹنگا ہے
شاہ بھٹائی کے شعروں میں،
خوشبو کا احساس بسا ہے
”سپنا“ اک دن سچ ہونا ہے
جن پر تیرا اوج لکھا ہے

کائنات کے اجتماعی درد کا اظہار بھی سپنا کے قلم تک پہنچ کر، اپنی الگ ادا اپنا لیتا ہے اور انہیں روایتی شاعراؤں سے الگ تھلگ کر کے کھڑا کر دیتا ہے۔ کربلا کے شہدا کے غم کا اظہار یوں کر رہی ہیں :

قضا کو پا کے چلا قافلہ اماموں کا
خدا کا فیصلہ تھا فیصلہ اماموں کا
وہ بھوک پیاس پہ نازاں رہے سر صحرا
شہادتیں ہیں بنیں مشغلہ اماموں کا
صحوبتوں کا سر عام رقم تھا قصہ،
عدو یزید بنا برملہ اماموں کا
جو حد ظلم سے ’اصغر‘ پہ اس نے وار کیا،
کہ اس سے اور بڑھا حوصلہ اماموں کا
یہ کم نظر کے فہم میں نہیں سما سکتا،
جو رمز سے ہے بھرا معالمہ اماموں کا
کہ سر کرب و بلا بس جناب ’زینب‘ تھیں
نصاب باب رہا ولولہ اماموں کا
کہ میر کاروان خستہ بنا ایک علیل،
وہیں سے آگے بڑھا سلسلہ اماموں کا
’سکینہ‘ قید کو سونپے چلی حسیں ”سپنا“
کہ منزلوں سے ملا مرحلہ اماموں کا

نثر کے میدان میں ان کا قلم، نظم سے زیادہ موثر انداز میں اپنے جوہر دکھاتا رہا۔ مضامین سے لے کر، تحقیقی مقالہ جات تک، کالم سے لے کر بچوں کی کہانیوں تک، ان کی تحریروں کا حسن و جامعیت، قارئین کے لئے مکمل ابلاغ کا بہترین ذریعہ تھی۔ سال 2000 ء کے دوران، سندھی ادب میں ایم۔ اے۔ کرتے ہوئے، اس کے سال آخر میں، نامور محقق اور سندھی تجریدی نظم کے منفرد شاعر، ملک ندیم کی سرپرستی میں شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کے شعبہ سندھی میں، حضرت شاہ بھٹائی کے بیباک کردار ’سسئی‘ کے مختلف روایات کے مطابق بیان کیے گئے احوال حیات، اس کی جدوجہد کے شاعرانہ پہلوؤں، اس کے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحہ کے ساتھ ساتھ دیگر اساسی شعراء کے پاس ذکر اور اس کے لوک خواہ کلاسیکی سندھی ادب میں ذکر اور مقام کے حوالے سے انہوں نے جو مونوگراف (تحقیقی مقالہ) تحریر کیا، اس کا معیار بلا مبالغہ ایم۔ فل۔ کے مقالے سے کم نہ تھا، جس تحقیق کی تکمیل میں ملک رزاق ندیم صاحب کے ساتھ ساتھ نامور لطیف شناس دانشور، ڈاکٹر شاہنواز سوڈھر نے بھی ان کی رہنمائی کی۔

استاد کی حیثیت میں ان کا مقام ایک ”مثالی استاد“ سے بھی کچھ بڑھ کر رہا۔ میرے مشاہدے کے مطابق، ان کا انداز اور ڈھب مکمل طور پر ایک استاد والا تھا اور ایسا لگتا تھا، جیسے قدرت نے انہیں استاد کے طور پر ہی، یہی کردار ادا کرنے کے لئے پیدا کیا تھا۔ اپنے والد محترم کی جانب سے قائم شدہ نجی اسکول میں 1995 ء سے پڑھانے خواہ انتظامی معاملات میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے سے لے کر، 2008 ء میں سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے، سندھی مضمون کی لیکچرر کی حیثیت سے لاڑکانے کے گورنمنٹ گرلز کالج اور گورنمنٹ بیگم نصرت بھٹو گرلس کالج میں پڑھانے تک، وہ ایک فرض شناس، باصلاحیت اور شاگردوں کی ہمت افزائی کرنے والی استاد رہیں۔

اپنے زمانۂ طالب العلمی سے لے کر، استاد کی حیثیت میں ذمہ داریاں انجام دینے تک، اسکول خواہ کالجز میں منعقد ہونے والے چھوٹے بڑے پروگرامز کی ادب کی خوشبو سے بھرپور و معمور کمپیئرنگ کرنے سے لے کر ریڈیو پاکستان کراچی خواہ دیگر نجی ایف ایم ریڈیوز پر مختلف پروگراموں کی منفرد میزبانی کرنے تک ایک باصلاحیت میزبان اور ’ریڈیو جوکی‘ (آر۔ جے ) کی حیثیت سے انہوں نے اپنا لوہا منوایا۔ ایک خطاط کی حیثیت سے قرآنی آیات سے لے کر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحہ اور جدید شعراء کی شاعری کی ان کی کی ہوئی کیلیگرافی تک، ان کی خطاطی کا فن، ان کی مصورانہ صلاحیتوں کا غماز ہے۔ وہ پی ٹی وی کے ساتھ ساتھ دیگر نجی چینلز کے متعدد مشاعروں میں بحیثیت شاعرہ شرکت کر کے اپنا کلام پڑھتی رہیں، اور ان کے دیگر کئی پروگرامز میں مبصر و مہمان کی حیثیت سے بھی شرکت کرتی رہیں۔

مگر ان تمام شعبہ جات کے ساتھ منسلک اپنے سینکڑوں سپنے، آنکھوں میں ادھورے چھوڑ کر، ”سپنا“ ، 3 برس قبل، 27 جنوری 2019 ء کو مختصر علالت کا بہانہ کر کے ہم سے بچھڑ گئیں، اور لاڑکانے سے کراچی آتے ہوئے، دادو کے قریب ان کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی۔ وہ اپنے اس بے وقت داغ مفارقت دے جانے کے حوالے سے اپنی سطروں میں ہمیں پہلے ہی اشارہ دے کر جگانے کی کوشش کر گئیں، جو بازگشت دراصل ہم ان کے بچھڑنے اور یہ ”سپنا“ بکھرنے کے بعد سمجھ سکے :

موت اٹل ہے، آنی ہی ہے
دور چلی جاؤنگی ساتھی!
نین کھلے تو اوجھل ”سپنا“
کب تک ساتھ رہوں گی ساتھی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments