کرنل کی لائبریری


برسوں بعد شہر کی اس گلی سے گزرنے کا اتفاق ہوا جہاں کبھی ایک لائبریری ہوا کرتی تھی۔ دور طالب علمی میں ہم اسی لائبریری سے جاسوسی ناول، ڈائجسٹ اور دیگر کتابیں کرائے پر لے کر پڑھا کرتے تھے۔ اس لائبریری کا مالک دونوں ٹانگوں سے معذور ایک ادھیڑ عمر خوش مزاج آدمی تھا۔ وہ خود بھی جاسوسی کہانیوں کا دلدادہ تھا۔ سب لوگ اسے کرنل کے نام سے پکارتے تھے۔

کرنل کی لائبریری میں ڈھیروں کتابیں تھی۔ اس کے علاوہ وہ بارہ مسالے والی چٹ پٹی چنا چاٹ بھی فروخت کرتا تھا۔ کتاب سے محبت کرنے والے آتے تھے کتابوں کرائے پر لیتے تھے اور ساتھ چنا چاٹ بھی کھاتے تھے، یوں کرنل کی گزر بسر اچھی ہو رہی تھی۔

جب میں اس گلی میں داخل ہوا تو قدم خود بخود کرنل کی لائبریری کی طرف اٹھ گئے۔ وہاں پہنچا تو دکان میں کتاب نام کی کوئی چیز نہیں تھی، البتہ چنا چاٹ کے ساتھ گول گپوں کا اضافہ ہو چکا تھا۔ دکان پر ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ جیسے ہی میں نے دکان کے اندر قدم رکھا۔ اس نے جلدی سے خالی پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور تیز لہجے میں پوچھا:

 ”جی صاحب! چنا چاٹ یا گول گپے۔ ہاف پلیٹ یا فل۔“

 ”مجھے کرنل سے ملنا ہے۔ “

میں نے اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے مسکرا کر کہا۔ یہ سن کر نوجوان نے چونک کر میری طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں پوچھا:

 ” آپ کون ہیں؟“

میں ان کا ایک پرانا قدر دان ہوں۔ لاہور سے آیا ہوں۔ خواہش تھی کہ ان سے ملاقات ہو جاتی۔ ”میں نے مختصر جواب دیا۔

 ” ان کا تو کئی برس پہلے انتقال ہو گیا تھا۔ میں ان کا بیٹا ہوں۔“ اس کے لہجے میں اک کرب سا محسوس ہوا۔

 ”ان للہ و انا الیہ راجعون! کیا ہوا تھا انھیں؟“ میں نے چند لمحے توقف کے بعد پوچھا۔

 ”کچھ خاص نہیں۔ بس اپنی لائبریری کے زوال کو دل پر لے بیٹھے تھے۔ انھیں کتاب سے بہت محبت تھی۔ لائبریری بنائی تو ساتھ میں چنا چاٹ بھی رکھ لی۔ کہتے تھے لوگ کھانے کے بہانے بیٹھ جاتے ہیں تو ان سے ادب پر گفتگو بھی ہوجاتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ لوگ ان کے پاس کتابیں لینے نہیں بلکہ صرف چنا چاٹ کھانے کے لیے آنے لگے۔ جب لوگوں نے کتابیں پڑھنا کم کر دیں تو ابا بیمار رہنے لگے۔

ایک روز انھوں نے کہا، ” مجھے میری کتابوں سمیت گھر کی بیٹھک میں منتقل کر دو، اور تم یہاں بیٹھ کر چنا چاٹ بیچو۔ اب لوگوں کو کھانے سے محبت ہے، کتاب سے نہیں۔“

 ”پھر کیا ہوا؟“

میں نے بے چینی سے پہلو بدلا۔

 ” ان دنوں وہ بہت خاموش رہنے لگے تھے۔ ہر وقت اپنی کتابوں سے گرد جھاڑتے رہتے تھے یا پھر کوئی کتاب کھول کر بیٹھ جاتے تھے۔ ایسا وہ خود کو مصروف ظاہر کرنے کے لیے کیا کرتے تھے۔ اندر کا درد ان کے چہرے سے عیاں رہتا تھا۔ اپنی لائبریری کی ہر کتاب تو وہ برسوں پہلے ہی پڑھ چکے تھے۔ لیکن پھر بھی ان کے سامنے ہر وقت کوئی کتاب کھلی رہتی تھی۔ ایک صبح وہ نماز کے لیے نہ اٹھے تو میں انھیں جگانے کے لیے کمرے کی طرف بڑھا۔ جب میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو ایک کتاب ان کے سرہانے کھلی پڑی تھی، لیکن وہ خود اس جیتی جاگتی دنیا سے بہت دور جا چکے تھے۔ اب میں اس دکان میں چنا چاٹ بیچتا ہوں اور بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کبھی یہاں کرنل لائبریری ہوا کرتی تھی۔“

نوجوان کی بات سن کر میں کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا اور پھر اٹھ کر دکان سے باہر آ گیا۔

 ”کرنل کی چٹ پٹی چنا چاٹ، کرارے گول گپے۔“

 ”ہاف پلیٹ، فل پلیٹ۔“

نوجوان کی آوازیں مسلسل میرا تعاقب کر رہی تھیں، اور میں جلد از جلد بازگشت کے اس حصار کو توڑ کر دور نکل جانا چاہتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments