’اے مشتِ خاک‘: کیا پاکستانی ڈرامے خواتین پر تشدد کو عام سی بات ظاہر کر رہا ہے؟

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی



پاکستان کے نجی انٹرٹینمنٹ چینل جیو پر نشر ہونے والا ڈرامہ ’اے مشت خاک‘ سوشل میڈیا پر گذشتہ چند دنوں سے زیر بحث ہے اور اس میں پیش کیے گئے کرداروں اور رویوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ 

اس ڈرامے کی ایک قسط میں مرکزی کردار مستجاب (فیروز خان) اپنی سابقہ گرل فرینڈ شیزہ (نمرہ خان) کا گلا دباتا ہے اور گلے سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے صوفے پر پٹخ دیتا ہے۔ ان مناظر نے ایک بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا پاکستانی ڈرامہ معاشرے میں خواتین پر تشدد کو ایک عام سی بات ظاہر کر رہا ہے۔

اس ڈرامے میں اداکار فیروز خان اور ثنا جاوید مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ جس میں فیروز خان کو ایک بگڑے ہوئے ضدی، انا پرست اور مذہب سے دور شخص دکھایا گیا ہے جو دعا (ثنا جاوید) کی محبت میں گرفتار ہو کر اس سے شادی کر لیتا ہے۔

ڈرامے میں دعا (ثنا جاوید) ایک مذہبی و پرییزگار لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں جن کا مذہب اور اس کی تعلیمات سے کافی لگاؤ ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ٹوئٹر، فیس بک، اور انسٹاگرام پر جہاں ایک جانب ناظرین نے اس ڈرامے کی تعریف کی ہے تو وہیں چند نے اس میں دکھائے جانے والے تشدد پر تنقید بھی کی ہے۔

بیریسٹر امبرین قریشی نے اس ڈرامے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ میڈیا کے ذریعے خواتین پر دکھایا جانے والا تشدد ان خواتین کے لیے تکلیف دہ ہے جو اس سے گزر چکی ہیں یا اس سے گزر رہی ہیں لہذا اسے روکنے اور اس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔

ماہی ماہرہ نامی صارف نے لکھا کہ ’یہ ڈرامہ دراصل ہمارے معاشرے کے مردوں کی حقیقت دکھا رہا ہے جہاں مائیں اپنے بیٹے کی صحیح طریقے سے پرورش نہیں کر پاتیں اور بعد میں وہ چاہتی ہیں کہ ان کے بیٹے کی ایسی عورت سے شادی ہو جو اس کی مذہبی اور اخلاقی طور پر مزید تربیت سازی کرے۔

’دوسری طرف مرد شادی سے پہلے گرل فرینڈ رکھتے ہیں اور جب شادی کی بات آتی ہے تو وہ کسی اور کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ماؤں کو اپنی بیٹیوں کی بجائے اپنے بیٹوں کی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے مرد بالغ ہو کر درحقیقت زہریلے اور جانور بن جاتے ہیں۔‘

حبا نامی صارف نے اس ڈرامے میں تشدد کے سین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اے مشت خاک ایک انتہائی تکلیف دہ ڈرامہ ہے اسے پاکستان میں نشر نہیں کیا جانا چاہیے، یہاں کے لوگ پہلے ہی دماغ سے پیدل ہیں انھیں مزید کرپٹ بنانے کے لیے کسی اور بے ہودہ چیز کی ضرورت نہیں۔‘

ڈرامے میں پُرتشدد مناظر کے متعلق ایک جانب خواتین کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہیں تو دوسری طرف مرد بھی اس پر تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں۔

ہارون اشرف نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’اس ڈرامے کو سکرین پر انتباہی پیغام کے ساتھ دکھانا چاہیے تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مغربی ممالک کے اس سے بھی زیادہ پُرتشدد مواد کو ہم بڑی آسانی سے دیکھ لیتے ہیں، یہ سب ایک پرفارمنگ آرٹ ہیں اس کا مقصد دکھائے جانے والے عمل کی تائید نہیں۔‘

جبکہ محمد داؤد خان نامی صارف پوچھتے ہیں کہ ’جو مواد ہم اپنے قومی یا مرکزی ٹی وی چینلز پر بنا اور دکھا رہے ہیں کون اسے لکھتا، بناتا اور اس کی ہدایت کاری کرتا ہے؟‘

ڈرامہ سیریل ‘اے مُشتِ خاک’ کی کہانی ڈرامہ نگار ماہا ملک نے لکھی ہے اور اس کی ہدایت کاری احسن طالش نے کی ہے اور یہ عبداللہ قدوانی کے پروڈکشن ہاؤس نے بنایا ہے۔

’لوگ موضوع سمجھ نہیں پا رہے، یہ ایک انفائیڈل کی کہانی ہے‘

ڈائریکٹر احسن طالش کا کہنا ہے کہ انھیں اس ڈرامے کا زبردست ریسپانس مل رہا ہے لیکن کچھ لوگ موضوع کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔

’یہ ایک انفیڈل (مرتد) کی کہانی ہے۔ والدین بچوں کو سب کچھ دے دیتے ہیں لیکن ان کا جو مذہبی عقیدہ ہوتا ہے اس کو عقیدہ ہی رکھتے ہیں۔ ان کو مذہبی تعلیم نہیں دیتے پھر اس کو جو راہ ملتی ہے اس سے متاثر ہو جاتا ہے، آپ اس کو مذہب سے تو متاثر کرتے ہی نہیں ہیں، وہ ایک اسلامی گھرانے میں پیدا ہوا ہے بس اتنا ہی ہے۔‘

سوشل میڈیا پر ڈرامے کے وائرل کلپ اور کہانی پر اٹھائے گئے سوالات پر ان کا کہنا تھا کہ وہ خواتین پر تشدد کو عام سی بات نہیں بنا رہے ہیں اور نہ ہی انھوں نے دانستہ طور پر ایسا کچھ کیا ہے۔

‘میں نے سکرپٹ بھی کئی بار پڑھا ہے اس میں بھی ایسا نہیں ہے کہ ہم عورت پر تشدد کو نارملائز کر رہے ہیں، کیا یورپ میں انگریز مرد اپنی بیوی کو نہیں مارتا، وہ خاتون بھی کئی سماجی دباؤ کی وجہ سے چپ رہتی ہے اور مرد بھی مار کھاتے ہیں۔‘

’ہمارے ہاں وارننگ نہیں دکھائی جاتی ہم سمجھدار لوگ ہیں‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ بیرون ملک پرتشدد مناظر میں انتباہی پیغام لگایا جاتا ہے تو ان کا جواب تھا کہ ہمارے ہاں وارننگ نہیں دکھائی جاتی ہم کافی سمجھدار لوگ ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہم معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ ہم نارملائز کرتے ہیں جیسے آپ گاڑی میں بیٹھ کر دفتر جاتے ہیں۔ یہ بھی ایسے ہی ہوتا ہے اس کو عام زبان میں کہتے ہیں ’منجن‘ تو اس ڈرامہ کو ایک کہانی کے طور پر بھی تو لیں۔‘

احسن طالش سے جب یہ پوچھا گیا کہ دیگر کئی کہانیوں کی طرح کیا اس ڈرامے کا مرکزی کردار مستجاب راہ راست پر آجائے گا تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا۔

پاکستان کے معاشرے میں آج بھی یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے کہ لڑکے کی شادی کرا دیں سدھر جائے گا، احسن طالش سے جب پوچھا گیا کہ کیا بیویاں سدھارنے کے لیے ہوتی ہیں تو انھوں نے کہا کہ بلکل ایسا نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جن کے پرانے ٹیبوز ہیں وہ وہاں پر ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ لڑکی جو دقیانوسی خیال لے کر بڑی ہوتی ہے وہ ہی ماں بن کر کرتی ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ بھی تو ڈرامے میں اس تاثر کی تائید کر رہے ہیں کہ پرہیز گار بیوی شوہر کو سدھار دے گی تو ان کا جواب تھا کہ جو معاشرے میں ہوتا ہے وہ دکھاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم ایک کہانی کو اسی طریقے سے دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک ایسی عورت ہے۔ اور ایک ایسا مرد ہے، دونوں بس ایسے ہی ہیں۔‘

’صابر شاکر عورت تشدد برداشت کر لے، ہم اس تشدد کو جائز بنا رہے ہیں‘

پاکستان میں میڈیا کی نگرانی کرنے والی تنظیم عکس کی ڈائریکٹر تسنیم احمر کا کہنا ہے کہ ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہے کہ صابر شاکر عورت تشدد کو برداشت کر لے، آگے جا کر مرد ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ اس کو قبول کر لیتی ہے۔ ایک طرح سے ہم اس تشدد کو جائز بھی بنا رہے ہوتے ہیں اور مردانگی کا جو تصور ہے وہ طاقت پر مبنی ہے اس کو بڑھا کر پیش کرتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس ڈرامے میں ہیرو (فیروز خان) کی مرادنہ وجاہت دکھائی گئی ہے، اب اس طرح کے جو مرد ہوں گے وہ یہ تاثر بنا لیں گے کہ ہمیں اس طرح ہی ہونا ہے اور وہ مرد جو اس امیج میں فٹ نہیں آتے وہ اپنی طاقت کو کم از کم اس طرح سے استعمال کریں گے جہاں پر ان کا بس چلے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ‘مرد اگر عورت پر تسلط قائم نہیں کر سکتا تو پھر وہ چھوٹی بچیوں اور جانوروں پر اپنی طاقت آزماتا ہے، تو یہ جو نارملائزیشن کا عمل ہے یہ خواتین تک نہیں رکتا بلکہ اس کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں۔‘

تسنیم احمر کا کہنا ہے کہ ’جب اس طرح کے مناظر دکھاتے ہیں اس سے مرد کے اندر جو ایک حیوان بیٹھا ہوا ہے وہ جاگتا ہے، آپ تشدد کو عام سی بات قرار دینے کی طرف لے جاتے ہیں۔‘

وہ اس ڈرامے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘شروع میں آپ نے تشدد دکھایا پھر 26 ویں یا 27 ویں قسط میں جا کر دکھائیں گے کہ وہ مفلوج ہو گیا یا اس کے ساتھ کچھ بُرا ہوا، اس دورانیے میں کئی مرد اصل زندگی میں اپنی نام نہاد طاقت کا اظہار کر چکے ہوتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments