روداد سفر – فلپائن میں چند دن


مے کدے کے موڑ پر رکتی ہوئی
مدتوں کی تشنگی تھی، میں نہ تھا

تائیوان جانے کے لیے ہمیں فلپائن جا کر تائیوان کا ویزہ لینا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے چائنا، اس پیپلز ریپبلک آف چائنا کو تسلیم کیا تھا، اس لیے ہمارے تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے اور نہ ہی ان کی ایمبیسی پاکستان میں موجود تھی۔ ان کا ٹریڈ سینٹر فلپائن میں تھا جو ویزہ ایشو کرتا تھا۔

اسلام آباد ائر پورٹ اپنے دو بیگ سارے کپڑوں، جوتوں سرف، صابن سمت لے کر پہنچ گئے۔ کھانے کے لیے میٹھے پکوان بھی زاد راہ کے طور پر میرے بیگ میں موجود تھے۔ ائر پورٹ پر چیکنگ کے دوران یہ سامان دیکھنے والے حیران تھے اور یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ بدھو کہاں سے اٹھ کر آ گئے، جن کے خیال میں یہ ساری ضروریات زندگی بالخصوص پکوان صرف اور صرف پاکستان میں ہی ملتے ہیں اور باقی دنیا خدا کی ان نعمتوں سے محروم ہے۔

اسلام آباد سے کراچی کا سفر تھا، وہاں سے فلپائن ائر لائن سے منیلا پہنچنا تھا۔ ہمارے ایک عزیز جن کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے، میر صاحب جن کو لوگ طنزیہ طور پر دانشور کہتے تھے، وہ اور ان کے ایک کزن منیلا میں تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے۔ روانگی سے قبل ان کے گھر جا کر ان کی والدہ سے پوچھا کہ انہیں اگر کوئی چیز دانشور صاحب کے لیے بھجوانی ہے تو ہم منیلا جار ہے ہیں، اس طرح ان کی والدہ سے ان کا ایڈریس بھی لے لیا۔

اسلام آباد سے کراچی ائر پورٹ پہنچے، کراچی میں چھ گھنٹے ہمیں رکنا تھا پھر رات بارہ بجے کے بعد منیلا کے لیے فلائٹ تھی۔ وقت گزارنے کے لیے ہم ائرپورٹ کی سیر کرتے رہے۔ ہمارے ساتھ ایک شیخ صاحب بھی تھے، جو اپنی آڈیو وڈیو کی دکان بیچ کر ہمارے ساتھ تائیوان جا رہے تھے۔ فلائٹ کا اعلان ہوا اور ہم متعلقہ ائر لائن کے کاؤنٹر پر پہنچ گئے۔ سامان بک کروایا، بورڈنگ پاس لیا اور امیگریشن کاؤنٹر پر آ گئے۔ امیگریشن والوں نے جب ہمارے پاسپورٹ دیکھے تو کبھی ہمیں دیکھتے، تو کبھی ہمارے پاسپورٹ دیکھتے۔

پاسپورٹ پر کوئی ویزہ نہیں لگا تھا، اور مزید یہ کہ اس پر سٹوڈنٹ بھی لکھا ہوا تھا۔ چیکنگ کرنے والے افسر نے اپنے سینئر کو آواز لگائی اور بتایا کہ سر یہ فلپائن جا رہے ہیں خالی پاسپورٹ لے کر سینئر نے کہا کہ انہیں جانے دو، اگلے خود ہی واپس بھیج دیں گے۔ اس طرح ہم نے یہ معرکہ بھی سر کر لیا۔ بہت بڑا جہاز تھا، ہم بھی بیٹھ گئے، تقریباً سات آٹھ گھنٹے کی فلائٹ تھی، سوتے جاگتے مووی دیکھتے سفر گزر گیا۔ منیلا ائر پورٹ پر اترے اور امیگریشن کاؤنٹر پر اپنی معصوم سی صورت لیے پہنچ گئے۔

کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون نے ہم سے پوچھا کہ کہاں جانا ہے؟ ہم نے بتایا کہ تائیوان کا ارادہ ہے۔ انہوں نے تین مہینے کا انٹری ویزہ عنایت کر دیا۔ ویزہ کے حصول کے بعد اپنا سامان ڈھونڈنے نکلے، سامان وصول کیا اور ایک طرف جا کر کھڑے ہو گئے کہ اب کیا کریں؟ ہمارا خیال تھا کہ وہ صاحب ( فاروقی صاحب، فرضی نام ہے ) جنہوں نے ہمیں تائیوان لے کر جانا تھا، ہمیں لینے ائر پورٹ پر کھڑے ہوں گے، مگر وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا اور نہ ہی ہمارے پاس ان کا کوئی اتا پتہ تھا۔

کافی سوچ و بچار کے بعد جب کچھ نہ سوجھا تو اپنے عزیز میر صاحب کا خیال آیا ان کا ایڈریس نکالا اور ان کے پاس جانے کے لیے ٹیکسی پکڑی۔ راستے میں ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ وہ مسلمان ہے، کچھ تفصیل پوچھی تو اندازہ ہوا کہ اس کے پاس اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے ٹیکسی کے بیک مرر کے ساتھ لٹکے سورۃ یاسین کے کارڈ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں سوچتا رہا کہ ایک غیر مسلم معاشرے میں جہاں رومن کیتھولک کی اکثریت ہے، یہ لوگ کیسے زندگی گزارتے ہوں گے اور ان کی آئندہ نسلیں کیسے اپنی مذہبی اور تہذیبی روایات کو برقرار رکھیں گی؟

سکول میں مسیحی اساتذہ اور باہر بچوں کے ساتھ کھیلنے والے بھی مسیحی، جب ہر وقت ان کا واسطہ مسیحیوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے تو کیا یہ آہستہ آہستہ انہی میں گم ہو رہے ہیں یا یہ اپنی نسلوں کے عقائد کو دلائل پر استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ تو خیر آپس میں جڑے ہوئے ہیں، مگر جو روزگار کے لیے ایسے شہروں کا رخ کر رہے ہیں وہ اپنا بچاؤ کیسے کر سکیں گے؟ اس وقت دیکھا جائے تو آج انٹرنیٹ کی سہولت نے یہ interaction ہر ایک کی میز پر اور موبائل کی صورت میں ہاتھ میں پکڑا دیا ہے۔ جو باتیں صرف نسلی عقائد کی بنیاد پر سادگی سے مانی جاتی تھیں، اب وہ بھی سوال بنتی جا رہی ہیں۔

میر صاحب تک پہنچنے کے لیے فری وے یا موٹر وے کے ذریعے شہر کے اندر پہنچے، گلیاں گھومتے گھومتے، میر صاحب ایک گھر کے صحن میں کرسی پر بیٹھے نظر آ گئے اور ان کے ساتھ ہی وہ صاحب بھی موجود تھے جنہوں نے ہمیں تائیوان پہنچانا تھا۔ ٹیکسی والے کو روکا اور میر صاحب کو آواز دی، سامان اتارا اور وہیں میر صاحب کے پاس صحن میں بیٹھ گئے۔ دوسرے صاحب ہمیں وہیں چھوڑ کر باہر گئے کچھ دیر بعد واپس آئے اور ہمیں ہمارے سامان سمیت ساتھ لیا اور ایک گیسٹ ہاؤس میں پہنچا دیا۔

ہم نہا دھو کر فارغ ہوئے اور فاروقی صاحب کے ساتھ جیپنی میں بیٹھ کر پیزا ہٹ  پہنچے۔ وہاں حلال و حرام کا خیال رکھتے ہوئے میر صاحب نے فش مشروم والے پیزا کا آرڈر دیا اور ہم نے مزے سے کھایا۔ پیزا کھاتے ہوئے یہ خیال آیا کہ یہاں ان کیتھولک مسیحیوں میں رہنے والے مسلمان اور ان کے بچے حلال فوڈ کیسے تلاش کرتے ہوں گے اور اسی ماحول اور اسی معاشرے میں پلنے بڑھنے والے اپنے بچوں کو حلال و حرام کی تفریق اور ان کی وجوہات کیسے بیان کرتے ہوں گے؟

پہلی رات سوتے سوتے گزر گئی، اگلے دن بارش شروع ہوئی تو سڑکیں نہروں کا منظر پیش کرنے لگیں اور پاکستان کی طرح ہر طرف بجلی بند۔ رات کو خنکی سی ہو گئی، فلپائنی شرٹیں اتار کر اپنے اپنے گٹار لیے صحنوں میں بیٹھ گئے اور ساز چھیڑنے لگے۔ فلپائنی گٹار اور گانے کے بہت شوقین ہیں، ان کی دھنوں اور سریلی آوازوں نے ایک سماں باندھ دیا۔ یہ گانا اور گٹار صرف گھر میں ہی نہیں اپنے گرجا گھروں میں بھی بجائے جاتے ہیں، مناجاتیں اسی گٹار پر سریلے انداز اور لے میں پڑھی جاتی ہیں۔

بیان کیا جاتا ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام جب زبور پڑھتے تھے تو سننے والے مدہوش ہو جایا کرتے تھے۔ عیسائیوں کی تہذیب اور مذہبی روایات کو سمجھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، حالانکہ ہمارے شہر میں کرسچن ہسپتال موجود ہے، جہاں گرجا گھر بھی ہے اور اس میں تقریباً سارے ہی ملازمین اور ڈاکٹر کرسچن ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کبھی اس پر طرف توجہ ہی نہیں ہوئی۔

کرسچن ہسپتال کے تذکرے سے یاد آیا کہ ایک دفعہ چھوٹی عمر میں کسی بیماری کے دوران میں دو دن کے لیے اس کرسچن ہسپتال میں داخل رہا۔ صبح سویرے نرسیں اور وارڈ بوائے کوئی کتابچہ اٹھا کر وارڈ میں آتے اور کچھ پڑھتے تھے۔ بہت پرانی بات ہے اس لیے مجھے صرف اتنا ہی یاد ہے کہ وہ کسی آسمانی باپ کی بات کرتے تھے۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ آرامی زبان سے ترجمہ ہو کر آئی ہوئی بائیبل یعنی کتاب مقدس تھی جس میں معلوم نہیں وہ اصل لفظ کیا تھا جن کا یہ ترجمہ کیا گیا تھا۔ اس کتاب میں پالنے والے کو باپ کے مفہوم میں لیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بھی خدا ہی کو ماننے والے تھے۔

فلپائن میں اقامت کے ابتدائی عرصے میں کچھ فلپائنی لڑکوں سے ہیلو ہائے بھی ہوئی، سبھی مسکراتے ہوئے ملتے۔ یہ سب انگلش جانتے ہیں اور مسیحی ہونے کی نشانی یعنی صلیب کے لاکٹ ان کے گلے میں لٹکے ہوئے تھے۔ یہ روایات صدیوں سے ان کے ہاں موجود تھی، چاہے وہ مسیحی عقائد پر عمل کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، لیکن یہ مذہبی علامت ہر وقت ان کے پاس موجود رہتی۔ اس معاشرے میں شادی کا کنٹریکٹ بھی موجود تھا اور آزاد جنسی تعلقات کی نسبت اسے پسندیدہ نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

سبھی لڑکے لڑکیاں کام کرتے اور مختلف علاقوں سے آئے تھے اور جوئے کے شوقین بھی تھے، جوا کھیلنے کے باوجود یہ بات خود بھی کہتے کہ ”بری لت لگ گئی ہے۔“ یعنی جوئے کو یہ برا سمجھتے تھے، اس کے ناجائز ہونے کا کچھ نہ کچھ تصور ان کے پاس بھی موجود تھا۔ ایک لڑکی نے بتایا کہ اس کا شوہر شراب پیتا اور جوا کھیلتا ہے، جسے میں پسند نہیں کرتیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ تو ہمارے مذہب میں حرام ہیں اور مسلمان چھپ چھپا کر یہ کام کرتے ہیں لیکن یہ مسیحی اسے کیوں برا کہہ رہے ہیں؟ کیا یہ مسیحی تعلیمات میں بھی ممنوعہ چیزیں تھیں؟

اب مجھے فکر ہوئی کہ ان کے اور اپنے مذہب کے درمیان مشترک اور متضاد باتوں کو جاننے کی کوشش کروں اور باہم تقابل بھی کروں۔ میں جاننے کی کوشش میں لگ گیا کہ ایسی کون سی باتیں ہیں ہمارے اور مسیحوں کے درمیان مشترک ہیں۔ اس تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ یہ لوگ خنزیر کھاتے بلکہ پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگ اسے ممنوع کیوں نہیں سمجھتے، کیا خنزیر عیسائیوں کے ہاں حرام نہیں تھا یا یہ مسیحی اس کی حرمت سے منحرف ہو گئے ہیں۔ میرا دوسرا رابطہ مسیحیوں کے ساتھ تائیوان میں ہوا۔

فلپائن قیام کے دوران ہم نے دیکھا کہ وہاں اس وقت غیر ملکی انویسٹمنٹ بہت زیادہ ہو رہی تھی۔ بہت بڑے بڑے پلازے ایس ایم کے نام سے بن رہے تھے اور بن چکے تھے جن میں بہت بڑے بڑے سینما بھی موجود تھے۔ جن میں اکثر ہالی وڈ کی فلمیں چلتی تھیں۔ ہم نے بھی اس وقت دی ماسک دیکھی۔ اس کے علاوہ کبھی کبھار سڑک پر چلتے کوئی سکارف پہنے لڑکی بھی نظر آ جاتی جو اس کے مسلمان ہونے کی نشانی تھی۔ مسجد بھی ایک موجود تھی۔ یہ سارا مٹر گشت ہم جیپنی میں کرتے تھے جسے آپ ہمارے ہاں کی سوزوکی سمجھ لیں۔ ایک فلپائنی پیسو کرایہ تھا۔

تائیوان ایمبیسی سے ویزہ حاصل کیا اور تائیوان جانے کے لیے طیارے میں سوار ہو گئے۔ اس کی روداد آگے پیش کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments