گلگت بلتستان کو وفاق کے قابل تقسیم ٹیکسز میں سے حصہ دیا جائے


گلگت بلتستان عبوری صوبہ کا معاملہ اس وقت ڈیڈلاک کا شکار ہے۔ تنازع یہ ہے کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان سینیٹ میں 4 کی بجائے 8 سیٹوں کا تقاضا کر رہے ہیں۔ کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اس بابت کہا ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی ایک اور قرارداد منظور کرے۔ قرارداد میں سینیٹ میں 8 سیٹیں مانگی جائیں۔

اس سارے معاملے میں میرے نتائج فکر یہ ہیں کہ حکومت گلگت بلتستان کو اپنی توانائی سیٹوں کے چکر میں نہیں لگانی چاہیے۔ سینیٹ میں سیٹیں چار ملیں کہ آٹھ یہ زیادہ معنی نہیں رکھتا۔ بلکہ فوکس دو چیزوں پہ ہونا چاہیے۔ اول یہ کہ آئینی اداروں میں گلگت بلتستان کو نمایندگی ملے۔ مثلاً قومی اقتصادی کمیشن، مشترکہ مفادات کونسل، الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ وغیرہ۔

دوسرا اور اہم نکتہ یہ کہ وفاق پاکستان سالانہ محصولات یعنی ٹیکسز میں سے گلگت بلتستان کو حصہ دے۔ اس مقصد کے لیے آئین کے آرٹیکل 160 کو گلگت بلتستان تک وسعت دی جائے۔ شنید ہے کہ آئین پاکستان کے 11 آرٹیکلز میں ترمیم کی تجویز ہے۔ یہی وقت ہے کہ وزیر اعلی جی بی خالد خورشید کو موقع شناسی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ وفاق سے آرٹیکل 160 میں بھی ترمیم کا پروانہ لینا چاہیے۔ یہ آئین کی وہ دفعہ ہے جو ٹیکسز کی صوبوں کی درمیان تقسیم کا طریقہ بتاتی ہے۔

یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ پہلے محصولات کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر ہوتی تھی، تاہم 2010 میں پیپلز پارٹی حکومت نے مشہور زمانہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے یونٹس خاص کر چھوٹے صوبوں کو اتنا امپاور کیا جس کا تصور پاکستان جیسی ریاستوں میں محال ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے این ایف سی اور ٹیکسز کی تقسیم کا نیا طریقہ کار وضع کیا گیا۔ آبادی کے ساتھ صوبے کا رقبہ، مسائل، وسائل اور ریونیو کو بھی محصولات کی تقسیم کار کے کلیے میں ڈالا گیا۔

اس کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو ہوا۔ مثلاً 2019۔ 20 کے مالی سال کے دوران صوبہ بلوچستان کو وفاق پاکستان نے 208 ارب روپے دیے۔ یاد رہے کہ یہ پیسے صرف ٹیکسز کی مد میں ملے ہیں۔ فیڈرل پی ایس ڈی پی (ترقیاتی بجٹ) اور صوبائی حکومت کا سالانہ بجٹ اس سے ہٹ کے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر آئین پاکستان کے اندر دیے ہوئے محصولات کی تقسیم کار کے فارمولے کے مطابق گلگت بلتستان کو سالانہ حصہ بقدر جثہ مل جائے، عبوری صوبہ گلگت بلتستان بھی وفاق سے ٹیکسز کا حصہ وصولنے کے باب میں باقی 4 صوبوں کے مطابق قرار دیا جائے تو اس سے نہ صرف فیڈریشن مضبوط ہو گا بلکہ گلگت بلتستان بھی مالی طور پر خود کفیل ہو جائے گا۔

یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ گلگت بلتستان کا پورا نظام حکومت اور انتظامی مشینری بمع ملازمتیں اسلام آباد کے گرانٹ سے چلتے ہیں۔ ایسے میں جی بی کو عبوری طور پر پاکستان کا آئینی حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ اگر کلی طور پر وفاق پاکستان کے مالیاتی نظام کا حصہ بنایا جائے تو دونوں فریق فائدے میں رہیں گے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کی شکایتیں کافی حد تک کم ہو جائیں گی، جی بی معاشی طور پر خود مختار ہو گا اور یہ وفاق پاکستان کے بجٹ سے ہو گا، یوں وفاق پاکستان مستحکم ہو گا۔

یہاں ضمناً یہ عرض! کہ اگر آئین پاکستان کی مجوزہ تقسیم کار کے تحت گلگت بلتستان کو وفاقی محصولات میں سے حصہ مل جاتا ہے تو یہاں ٹیکسز کے نفاذ میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ گلگت بلتستان میں ایک خوف کا ہوا یہ بنا ہوا ہے کہ پتا نہیں ٹیکسز لگیں گے تو کیا سے کیا ہو جائے گا؟ جبکہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس یہاں پہلے سے ہی نافذ ہیں۔ انکم ٹیکس وہ ہے جو ہر مہینے آپ کی تنخواہ سے کٹتا ہے۔ سیلز ٹیکس یعنی اشیائے صرف پر لگنے والی محصولات، مثلاً آپ روزانہ جو صابن، سگریٹ، چینی، موبائل فون، بیلنس کارڈز، کولڈ ڈرنک وغیرہ خریدتے ہیں ان کے ٹیکس آپ کے اوپر لگتے ہیں۔ رہ گئے لینڈ ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس تو یہ روز روز لگنے والے کوئی ٹیکس ہیں نہیں۔ خلاصہ یہ کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا فیصلہ حتمی ہے تو اس کو وفاق کے قابل تقسیم ٹیکسز میں سے حصہ ملنا ضروری ہے۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments