عورتوں کو دو منٹ میں مار پیٹ کر یا سیکس کر کے ٹھیک کرنے کے دعویدار


گزشتہ دنوں بی بی سی اردو اور ڈوئچے ویلے اردو پر کچھ ایسی ویڈیوز اور رپورٹس شیئر کی گئیں جن میں خواتین کے حوالے سے خانگی، نفسیاتی و ازدواجی مسائل پر گفتگو تھی۔

خبر رساں اداروں کا کام ہے خبر دینا اور اس امر کو مزید وسیع کیا جائے، تو تعلیمی، سائنسی، سماجی، سیاسی و اقتصادی سب ہی سلسلے اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔

تین چار رپورٹس ایسی تھیں جن میں خواتین کے نفسیاتی مسائل پر بات کی گئی تھی، اور بہت سنجیدگی سے وہ رپورٹس پیش کی گئی تھیں۔ اب کمنٹس سیکشن میں ہمارے لوگوں کے کمنٹس تھے کہ ان کو ہمارے حوالے کر دو ۔ ہم دو منٹ میں ٹھیک کر دیں گے۔ گویا کہ وہ بہت بڑے عالم۔ ڈاکٹر یا کوئی بہت ہی قابل سائیکاٹرسٹ ہیں۔

کمنٹس صرف اور صرف مضحکہ و تضحیک پر مبنی تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ مرض یا مریض کو سمجھتے، وہ صرف اور صرف یہ سوچ رہے تھے کہ ان خواتین کو صرف سیکس کی ضرورت ہے اور وہ دو منٹ میں جسمانی تعلق قائم کر کے ان کو ٹھیک کر دیں گے۔

اس وقت دین بالکل یاد نہیں تھا کہ دین میں ”زنا“ بھی گناہ کبیرہ کے زمرے میں شامل ہے، فحش گفتگو بھی گناہ کے زمرے میں ہے۔

اور یہی صورتحال اس دن دیکھی جب ایک گروپ میں طلاق کی بڑھتی ہوئی صورتحال پر بات کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور صاحبہ پوسٹ کا مطلب صرف عورت پر الزام تراشی نہیں تھا، بلکہ فریقین پر زور تھا، کیونکہ گھر مرد و عورت دونوں مل کر بناتے ہیں، لیکن کمنٹس میں سب لوگ حتی کہ خواتین بھی صرف یہ لکھ رہی تھیں، کہ عورت یہ کر لے۔ عورت وہ کر لے عورت ایسی ہو عورت ویسی ہو۔

ایک آپا نے تو یہ تک لکھ دیا کہ ”اڑیل عورت“ کو بھی مرد قابو کر سکتا ہے۔ اور جب ہم نے پوچھا اڑیل مرد کو کیسے قابو کریں گے تو ہمیں جواب نہیں ملا۔ حالانکہ جواب ملنا چاہیے تھا کیونکہ بہر کیف مرد بھی اڑیل ہو سکتا ہے۔

گویا ایک خاتون ہوتے ہوئے ان کی بھی وہی سوچ تھی جو خبر رساں اداروں کے پیجز پر کمنٹس کرنے والے نام نہاد مرد حضرات کی تھی کہ دو منٹ میں ہر عورت کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ جاہلانہ اور ہوس پرست سوچ ہے جو اس معاشرے کو کھا گئی، کہ ہر عورت ہماری ملکیت ہے اور ہم جو دل چاہے اس کے ساتھ سلوک کر سکتے ہیں۔

اور اس سوچ کو وہ خواتین بڑھاوا دے رہی ہیں جو نہ جانے کنفرم خواتین ہیں یا نہیں، خواتین کے نام سے آئی ڈی بنا کر نام نہاد منافقانہ پارسائی پھیلانے کی کوشش ہے۔ کیونکہ جو اپنی شناخت چھپائے وہ ہمارے نزدیک قابل اعتبار نہیں ہے۔

حالانکہ بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح بھی مرد کی وجہ سے ہے۔ جس کی ان گنت وجوہات ہیں۔ سب سے قابل ذکر تو یہی ہے کہ زوجہ اگر شادی کے بعد بھی اپنے زوج سے ذہنی و جسمانی طور پر مطمئن نہ ہو تو پھر وہ کیا کرے۔

علاج یا علیحدگی کا مطالبہ؟ اس پر بات نہیں کی جاتی۔ شادی کے بعد بھی اگر شوہر بے وفائی کا مرتکب ہو تو عورت کیا کرے؟
اس پر بھی بات نہیں کی جاتی

گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل نے طلاق کی بڑھتی شرح پر رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں مختلف خواتین سے ان کی طلاق اور علیحدگی کی بابت سوالات کیے گئے تھے۔ خواتین کی اکثریت نے نان و نفقہ نہ دینے پر خلع کے ذریعے علیحدگی حاصل کی تھی۔اینکر نے پوچھا ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں کے مطالبات زیادہ ہوں۔ جس پر جوابات یہ تھے۔

میں تو گزارا کر لیتی تھی لیکن بچوں کو بھوکا کیسے رکھتی۔
بچوں کی وجہ سے ملازمت کی لیکن وہ میری تنخواہ بھی چھین لیتا تھا اور دوستوں کے ساتھ دعوتیں کرتا تھا۔
تین بیٹیاں ہیں۔ سسرال والے اور شوہر طعنے دیتے تھے کہ بیٹیاں پیدا کی ہیں۔
شادی کے پہلے دن سے ہی سلوک اچھا نہیں تھا۔

اس پر بھی لوگوں کی رائے یہ ہو کہ عورتوں کو دو منٹ میں مار پیٹ کر یا سیکس کر کے ٹھیک کیا جا سکتا ہے تو ہم معاشرتی رویوں پر تاسف اور کڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

عمومی خیال یہی ہے اور یہی بنانے کی مزید کوششیں کی جا رہی ہیں کہ عورت ٹھیک ہو جائے۔ بلکہ ہم ہر عورت کو ٹھیک کر دیں۔ آپ کے کون سے دین میں لکھا ہے کہ آپ ہر خاتون کو پکڑ کر دو منٹ میں ٹھیک کریں؟ آپ کی کون سی شریعت میں درج ہے کہ عورت کو ہر وقت سیکس کی ضرورت ہوتی ہے؟ آپ کے کون سے فقہ میں درج ہے کہ ہر مرد کو اجازت ہے کہ ہر عورت کو ٹھیک کرتا پھرے، خواہ وہ اس کو جانتا ہے یا نہیں۔

عورت کے حوالے سے ملکیت کا جو تصور ہے وہ وہی ہے جو پندرہ سو برس پہلے عرب کے جہلاء کا تھا، اسلام آنے کے بعد سب کو جہل کی جیل سے آزادی دے دی گئی تھی لیکن ہمارے کنفیوز لوگ جہل کی جیل میں بیٹھے ابھی تک یہی سوچ رہے ہیں کہ ہر عورت ہماری ملکیت ہے۔ اور ہم جو دل چاہے اس کے ساتھ سلوک کر سکتے ہیں۔ لکھتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی کہ دوسرے لوگ ہمارے متعلق کیا سوچیں گے۔

بد قسمتی سے اپنی جہالت کا زعم بھی ہے، عقل سے سوچیئے کہ اس زعم میں ہم اسی سوچ کو بڑھاوا دے رہے ہیں جو مرد اور عورت کو دشمنی پر اکساتی ہے۔

ہر مسئلے کا حل دو منٹ نہیں ہے، ذرا دو منٹ اپنے گریبان میں جھانکیں اور سوچیں کہ ہر کام دو منٹ کے لئے نہیں ہوتا۔ خانگی، ازدواجی، نفسیاتی، سماجی مسائل درد دل و دماغ سے حل کرنے کے ہوتے ہیں۔ مسائل کا حل درست تشخیص و علاج ہے۔ نفسیاتی مسائل کا حل تشدد نہیں بلکہ نفسیات کے معالجین کے پاس مریض کو علاج کے لئے لے جانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments