ٹک ٹاک


تم یونیورسٹی جاؤ گی یا نہیں؟ اٹھو۔ اٹھ رہی ہوں امی فلزہ نے سستی سے کمبل اوپر کرتے ہوئے کہا میں جا رہی ہوں دوبارہ نہیں آؤنگی اٹھانے جانا ہو تو چلی جانا ورنہ پڑی سوتی رہو۔

ہائے ہائے کتنے بج رہے ہیں؟ نو بج گئے سر فیروز کی کلاس بھاگو فلزہ بستر سے اچھلتے ہوئے اٹھی۔ اس لڑکی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ماں سب کا اللہ ہی محافظ ہے باتھ روم میں گھستے ہوئے فلزہ نے چیختے ہوئے کہا۔

فلزہ بھاگم بھاگ سر فیروز کی کلاس لینے یونیورسٹی پہنچی۔ مگر جو خبر اسے سننے کو ملی وہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ سر فیروز کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور وہ آئی سی یو میں زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے وہ سر فیروز جن کی ایک آواز پر کلاس میں خاموشی چھا جاتی تھی وہ شخص زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ یہ خبر سن کر فلزہ سمیت دیگر طالبعلموں کو بھی افسوس ہوا تھا کیونکہ سر فیروز یونیورسٹی کی ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ سب نے مل کر ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی اور دیگر اساتذہ کی کلاسز لینے میں مصروف ہو گئے۔

٭ ٭ ٭

غزالہ کی ڈھولکی میں جاؤ گی؟ کلاسز لینے کے بعد مدیحہ نے فلزہ سے پوچھا۔ یار جانے کا ارادہ تو تھا مگر سر کی طبیعت کا سن کر دل بوجھل ہے شاید اب نہ جاؤ۔ سر فیروز انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گے چلتے ہیں۔ مدیحہ نے کہا۔ تم کب تک جاؤ گی؟ چار بجے تک۔ ٹھیک ہے میں بھی پھر چار تک نکلو گی فلزہ نے کہا۔

کہاں جانے کی تیاری ہو رہی ہے؟ فلزہ کو تیار ہوتا دیکھ کر مسز گیلانی نے پوچھا۔ امی غزالہ کی ڈھولکی ہے وہاں جا رہی ہوں۔ تم ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ گی یا میں چلو ساتھ؟ چلی جاؤں گی امی۔ یہ کہتے ہوئے مسز گیلانی کمرے سے چلی گئی۔

فلزہ ماشاء اللہ اچھی لگ رہی ہو شائستہ نے فلزہ کو دیکھتے ہی کہا۔ آپ کا شکریہ۔ لڑکیوں آپ گانے گانا پسند کریں گی اپنی دوستوں کو باتوں میں مصروف دیکھ کر غزالہ نے کہا۔ ہاں بھئی گانے گاؤں ورنہ غزالہ ہمارا قتل کردے گی۔ اس نے اپنے ہاتھ پیلے کرنے ہے لال نہیں۔ فضہ نے لقمہ دیا۔ میں نے اپنی ڈھولکی میں بلایا ہے تم لوگوں کو۔ اچھا اچھا گاتے ہیں گانے۔

اچھا آنٹی میں اب چلتی ہوں بہت دیر ہو گئی ہے۔ فلزہ نے غزالہ کی امی سے ملتے ہوئے کہا۔ ارے بیٹا رکو ابھی تو سب ہیں۔ نہیں آنٹی بھائی آ گیا ہے چلتی ہوں۔ اللہ خوش رکھے، آباد رکھے، نصیب اچھا کرے آمین۔ اللہ حافظ بیٹا انھوں نے گلے لگاتے ہوئے کہا اور رخصت کیا۔

٭ ٭ ٭

ٹک ٹک ٹک فلزہ اپنے کمرے میں آئی تو سناٹے میں گھڑی کے چلنے کی آواز گونج رہی تھی۔ ارے یہ گھڑی رات کو اس کے چلنے کی آواز ٹرن ٹرن کس کا فون آ گیا؟ ہیلو سدرہ کیسی ہو؟ بہت خوش ہوں۔ کیوں بھئی کیا ہوا؟ بیٹا ہوا ہے میرا تم خالہ بن گئی۔

مبارک ہوں اپنا خیال رکھنا میں کل آونگی تم سے اور اپنے بھانجے سے ملنے اللہ حافظ۔ ٹک ٹک ٹک ایک تو میں اس گھڑی کو ہٹاؤ گی عجیب سر میں درد ہوتا ہے اس سے۔ ارے ایف بی پر اسٹیٹس تو آپ ڈیٹ کروں یہ کہتے ہوئے فلزہ نے موبائل اٹھا کر ایف بی کھولی۔

نہیں ایسا نہیں ہو سکتا سر فیروز چلے گئے ایف بی کا کھولنا تھا اور سر فیروز کے انتقال کی خبر سامنے تھی۔ ٹک ٹک ٹک یہ گھڑی مگر میں اس گھڑی سے اتنا چڑ کیوں رہی ہوں زندگی اس گھڑی کی ٹک ٹک کی طرح آگے بڑھ رہی ہے میرا آج کا دن کیسا گزرا ہے غزالہ اپنی نئی زندگی کی شروعات کر رہی ہے، سدرہ ماں بن گئی اور سر فیروز دنیا سے چلے گئے۔ یہ دنیا ایسے ہی چل رہی ہے کوئی آتا ہے، کوئی جاتا ہے کسی کو جیون ساتھی ملتا ہے اور کسی کا جیون ساتھی جدا ہوجاتا ہے۔ مگر یہ سب سوچنے کی فرصت کس کے پاس ہے

انسان جیتا یوں ہے جیسے کبھی مرے گا نہیں
اور مر اس طرح جاتا ہے جیسے کبھی جیا نہیں

میں اس گھڑی کو یہاں سے نہیں ہٹاؤ گی کیونکہ یہ پل پل مجھے احساس دلاتی رہے گی کہ زندگی کے لمحے بند مٹھی میں سے ریت کی طرح نکل رہے ہیں اور مجھے تیاری کرنی ہے یہاں اور وہاں دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے کیونکہ میری موت کے دن بھی یہی ہو گا کوئی ڈھولکی میں سے گانے گانے کے بعد انا اللہ پڑھ کر یونیورسٹی کے اسائنمنٹ کی فکر کرے گا سر فیروز کے جانے سے کیا ہو گا کچھ بھی نہیں بس ان کے ساتھ ہو گا جو ہو گا ان کی کتاب بند ہو گئی۔ فلزہ نے افسردگی سے سوچا اور فجر کا الارم لگا کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments