23 سال کال کوٹھڑی میں: سزائے موت کے قیدی محمد انور کی کہانی جو تختہ دار تک پہنچنے کے بعد رہا ہوئے

کریم الاسلام - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، وہاڑی


پھانسی کی رات
یہ ڈسٹرکٹ جیل وہاڑی کی موت کی کال کوٹھری ہے۔ چھ بائی آٹھ فٹ کے اِس سیل میں قتل کے مجرم چوہدری محمد انور کو قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

یہ انور کی زندگی کا آخری دن ہے۔ چند گھنٹوں بعد انُھیں پھانسی دے دی جائے گی۔ اُن کی اپنے اہلخانہ سے آخری ملاقات ہو چکی ہے۔ جیل ڈاکٹر پھانسی کے پھندے کی تیاری کے لیے چوہدری محمد انور کے گلے اور قد کا ناپ لے چکے ہیں۔

زندگی کے آخری مراحل میں ان کی آنکھوں کے سامنے تمام زندگی ایک فلم کی طرح چل رہی ہے۔ ایسے میں جیل عملے کا ایک رکن کوٹھری کے باہر آیا تو انھیں لگا کہ اب پھانسی کا وقت آن پہنچا ہے۔ لیکن انھیں بتایا گیا کہ ہائی کورٹ میں دائر اُن کی اپیل سماعت کے لیے منظور کر لی گئی ہے۔

انور کی پھانسی روک دی جاتی ہے۔

ٹھیک چھ سال بعد پاکستان کی سپریم کورٹ محمد انور کی رہائی کا حکم جاری کرتی ہے اور وہ 28 سال سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد جیل سے باہر آ جاتے ہیں۔

یہ انور کی زندگی کی کہانی ہے۔

محمد انور کا بچپن

محمد انور کا بچپن

بچپن میں قتل

یہ سنہ 1993 کی بات ہے۔ ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا کے نوجوان محمد انور نویں کلاس میں پڑھتے تھے۔ اُن کے والد زمیندار تھے اور انور سکول کے بعد کھیتوں میں والد کی مدد کیا کرتے تھے۔ انور کے بڑے بھائی کی گاؤں کے کچھ لوگوں سے ذاتی دشمنی تھی، جس کی لپیٹ میں وہ بھی آ گئے۔

انور بتاتے ہیں کہ ’یہ چوہدراہٹ کا معاملہ تھا۔ وہ لوگ خود کو چوہدری سمجھتے تھے اور میرا بھائی بھی اپنے آپ کو چوہدری سمجھتا تھا۔ پھر ایک دن وہ لوگ میرے بھائی کو مارنے کے لیے گھر تک آ گئے۔ جب میں نے یہ صورتحال دیکھی تو خوفزدہ ہو گیا۔ بوکھلاہٹ میں اندر گیا اور اُسی بھائی کا پِسٹل لا کر گھر کے اندر سے فائرنگ کر دی۔‘

اِس فائرنگ کے نتیجے میں دو لوگ زخمی ہوگئے جن میں سے ایک 28 دن بعد ہلاک ہو گیا۔ محمد انور کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک غیر ارادی قتل تھا جو اپنے دفاع میں کیا گیا۔ ایک انسانی جان کے ضیاع پر وہ آج بھی نادم ہیں اور قتل ہونے والے شخص کے خاندان سے معافی کے طلبگار ہیں۔

جیل

موت کی کال کوٹھری

فائرنگ کے واقعے کے بعد محمد انور کو گرفتار کر لیا گیا۔ اُن کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی اور نا ختم ہونے والی مشکلات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ سالہا سال پیشیاں بھگتنے کے بعد سنہ 1998 میں سیشن جج نے اُنھیں سزائے موت سُنا دی۔

’مجھے سینٹرل جیل ملتان کی موت کی کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ وہاں اور بھی قیدی تھے چار چار پانچ پانچ قیدی ایک سیل میں ہوتے تھے۔ یہ چھ بائی آٹھ فٹ کا کمرا تھا وہیں ہمیں کھانا ملتا تھا اور وہیں ٹوائلٹ کا انتظام بھی تھا۔‘

انور کے بقول سزائے موت کے قیدیوں کی حالتِ زار کا اندازہ لگانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اِن قیدیوں کے سر پر ہر وقت موت کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔

’آدمی قتل تو ایک بار کر بیٹھتا ہے لیکن اس کوٹھری میں روز مرتا ہے۔ میں ہر وقت سوچتا رہتا تھا کہ میرا کیا بنے گا۔ گھر والوں کا خیال آتا تھا کہ میرے بعد اُن کا کیا ہوگا۔ کبھی کبھی ساری ساری رات نیند نہیں آتی تھی۔ اِن حالات میں کچھ قیدی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ بندہ سوچتا تو ہے کہ کسی طرح یہاں سے نکل جائے لیکن وہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔‘

پاکستان میں سزائے موت

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا کے 108 ممالک میں سزائے موت پر مکمل پابندی ہے جبکہ 28 ممالک میں موت کی سزا تو موجود ہے لیکن اُس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ صرف 55 ممالک ایسے ہیں جہاں موت کی سزا دی جاتی ہے۔

دنیا بھر میں سماجی تنظیمیں سزائے موت کی مخالف ہیں اور اِسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔

پاکستان میں سنہ 2008 سے 2014 تک موت کی سزا پر پابندی عائد تھی۔ پاکستانی قانون میں 33 ایسے جرائم ہیں، جن میں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ لیکن قانونی ماہرین کے مطابق اِن میں سے صرف چند ہی جرائم ایسے ہیں جن میں عدالتیں موت کی سزا دیتی ہیں مثلاً قتل یا توہینِ مذہب۔ سماجی تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان (جے پی پی) سے وابستہ وکیل ثنا فرخ سمجھتی ہیں کہ قوانین میں ترمیم کر کے سزائے موت کے حقدار جرائم کی تعداد کم کی جانی چاہیے۔

’اِس طرح پاکستان میں سزائے موت کو آہستہ آہستہ ختم کیا جا سکے گا۔ اِس کے علاوہ اگر قوانین پر مکمل عمل کیا جائے اور منصفانہ نظامِ عدل قائم کیا جائے تو اکثر کیسز میں نوبت سزائے موت تک نہیں جائے گی۔ پاکستان میں سزائے موت کے بعد ایک مرحلہ صدرِ مملکت سے معافی کا بھی ہوتا ہے۔ تو اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں کتنے حفاظتی مراحل موجود ہیں۔‘

محمد انور

جیل کی دنیا

چوہدری محمد انور گزرے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جیل ایک الگ ہی دنیا ہے۔ وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر وقت قانون حرکت میں رہتا ہے۔ اگر قیدی سو بھی رہا ہے تو وہ قانون کا پابند ہے۔

’دن کا آغاز نماز سے ہوتا تھا۔ پھر ہم ناشتہ کرتے اور ایک گھنٹہ ٹہلائی (ٹہلنے) کے لیے باہر جاتے تھے۔ پھر دوپہر کا کھانا کھایا جاتا اور شام میں ہمیں ایک گھنٹے کے لیے دوبارہ ٹہلائی کروائی جاتی۔ جب وقت ملتا تو کال کوٹھری کے قیدی ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور اپنے دکھ درد بانٹتے۔ کچھ لوگ تلاوت اور عبادات میں وقت گزارتے۔‘

انور کے بقول سزائے موت کے سیل میں قید لوگ بظاہر تو نارمل رہنے کی کوشش کرتے تھے لیکن ذہنی طور پر ہر وقت پریشان رہتے تھے۔ کبھی کسی کو گھر کی یاد آ گئی تو کبھی گھر والوں کی۔ سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا تھا جب ایک ساتھی کو پھانسی دینے کے لیے لے جایا جاتا تھا۔

’اُس وقت دوسرے قیدیوں کی حالت غیر ہوتی ہے۔ وہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ کل ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ پھر وہ اتنی ٹینشن میں آجاتے ہیں کہ دو دو دن کھانا نہیں کھاتے۔ قید کے دوران میرے کئی دوست پھانسی چڑھ گئے۔ مجھے آج بھی اُن کی یاد آتی ہے۔‘

شاعری

جیل میں شاعری

محمد انور کو شاعری کا شوق تو جیل جانے سے پہلے ہی تھا لیکن قید میں وقت ملا تو وہ خود بھی شعر کہنے لگے اور ثروت تخلص اختیار کیا۔ شاکر شجاع آبادی اُن کے پسندیدہ شاعر ہیں۔

’میں نے ہر موضوع پر شعر کہے۔ نعتیہ اشعار لکھے اور رومانوی شاعری بھی کی۔ جیل میں کی گئی شاعری کا تمام ریکارڈ میرے پاس اب بھی محفوظ ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ اپنی نظموں اور غزلوں کو ایک شعری مجموعے کی شکل میں شائع کرواؤں۔‘

قید کے دوران شاعری کے ساتھ ساتھ انور نے مختلف اخباروں میں کالم بھی لکھے۔ اُن کا مؤقف تھا کہ سزائے موت کو ختم کر دینا چاہیے کیونکہ یہ نا انصافی پر مبنی سزا ہے۔

بچوں کی سزائےِ موت پر پابندی

اقوامِ متحدہ کے بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کے مطابق 18 برس سے کم عمر بچوں کو سزائے موت اور عمر قید نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان نے سنہ 1990 میں اِس معاہدے کی توثیق کی جس کے بعد ملک میں ’جوینائل جسٹس سسٹم آرڈیننس‘ پر پیش رفت ہوئی۔

سنہ 2000 میں اِس قانون کا اطلاق کیا گیا جس کے تحت جرم کے ارتکاب کے وقت نابالغ ملزمان کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔ اِس کے بعد سنہ 2001 میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے آرڈیننس کے اطلاق سے پہلے سزائے موت پانے والے نابالغ افراد کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔

اِس کے باوجود کئی نابالغ مجرمان سنہ 2001 کے صدارتی حکم نامے کے بعد بھی سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی فہرست میں موجود رہے۔ کئی عمر قید کی مدت پوری ہونے کے باوجود سالہا سال جیلوں میں رہے اور بہت بعد میں سماجی تنظیموں کی کوششوں سے رہا ہوئے۔

اِس وقت پاکستان کی مختلف جیلوں میں 3831 قیدی موت کی سزا کے منتظر ہیں۔ جسٹس پراجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کے مطابق سزائے موت کے منتظر اِن قیدیوں میں سے کم از کم ایک شخص ایسا ہے جو جرم کے وقت نابالغ تھا۔

کراچی سینٹرل جیل میں قید محمد اعظم پر سنہ 1998 میں 17 سال کی عمر میں ایک شخص کے قتل کا الزام ہے۔ اُنھیں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 1998 میں سزائے موت سُنائی۔ اِس وقت اُن کی درخواست سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت ہے۔ لیکن قانونی ماہرین کے مطابق جیلوں میں قید نابالغ مجرمان کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان کے کئی علاقوں میں اب بھی بچوں کی پیدائش کا اندراج نہیں کروایا جاتا۔

جیل

زندگی کی آخری رات

سنہ 2001 میں لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری محمد انور کی اپیل خارج کر دی۔ 'جوینائل جسٹس سسٹم آرڈیننس' کے نفاذ کے بعد اُنھوں نے سپریم کورٹ کا رُخ کیا جہاں اُنھیں ماتحت عدالت سے رجوع کرنے کا کہا گیا۔

اِسی دوران سنہ 2015 میں محمد انور کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہو گئے۔ اُن کی اہلخانہ سے آخری ملاقات کرا دی گئی اور قیدِ تنہائی میں منتقل کر دیا گیا۔ انور کو وہ رات آج بھی یاد ہے۔

‘وہ میری زندگی کی آخری رات تھی۔ صبح مجھے پھانسی دے دی جانی تھی۔ جیل ڈاکٹر نے میرا ناپ لے لیا تھا۔ گلے اور قد کی پیمائش تاکہ اُس کے مطابق پھانسی کا رسّہ تیار کیا جا سکے۔ سب سے مشکل وقت جو تھا وہ تھی آخری ملاقات۔ جب میرے اپنے میری آخری ملاقات کے لیے آئے۔ وہ قیامت خیز منظر تھا۔ میں اُنھیں آخری بار دیکھ رہا تھا وہ مجھے آخری بار دیکھ رہے تھے۔ کہ شاید صبح ہم ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکیں گے۔ یہ بہت مشکل وقت تھا۔’

آخری ملاقات کے دوران ہی محمد انور کے بھائی نے اُنھیں بتایا کہ وہ اُن کی زندگی بچانے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیم ‘جسٹس پراجیکٹ پاکستان’ کی مدد سے حکمِ امتناعی کی کوشش کر رہے ہیں۔ بالآخر یہ کوششیں رنگ لائیں اور رات ساڑھے دس بجے عدالت نے سزا پر عملدرآمد روک دیا۔

اِس آخری رات کے بارے میں بعد میں انور نے جیل ہی میں یہ شعر کہے۔

کوئی لختِ جگر ماں کا کسی کی آنکھ کا تارا

یہ دنیا چھوڑنے کو ہے کسی کو جان سے پیارا

ہاتھوں میں ہیں ہتھکڑیاں اور چاروں طرف پہرہ ہے

کہ تختہِ دار پر چڑھنا مقدر اُس کا ٹھہرا ہے

سزائےِ موت جرائم کا خاتمہ؟

قانونی ماہرین کے مطابق اعداد و شمار سے واضح ہے کہ سزائے موت سے جرائم کی شرح میں کمی نہیں آتی۔ ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں سزا سے زیادہ قیدیوں کی بحالی اور اُن کے معاشرے میں انضمام پر توجہ دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عابد حسین ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ عابد باکسر کیسے بنا؟

گردن توڑ کر قتل کرنے والا لاہور کا مالشیا ’سیریل کِلر‘ کیسے بنا؟

آسٹریلیا کے قانون شکن ’ہیرو‘ جن کی کہانی دلا بھٹی سے ملتی جلتی ہے

محمد انور

وکیل اور سماجی کارکن ثنا فرخ کے مطابق 'ہمارے یہاں اکثر کسی بڑے سانحے کے بعد رائے عامہ میں مجرموں کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ شروع ہو جاتا ہے۔ اِس کے بعد ملوث افراد کو پھانسی دے دی جاتی ہے اور عوامی دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صرف موت کی سزا جرائم کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔ جرائم کے اسباب کا سراغ لگا کر اُنھیں جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔'

ثنا فرخ بتاتی ہیں کہ ‘اِس کے علاوہ سزائے موت کے قیدیوں کے کئی قانونی اور سماجی مسائل بھی ہیں۔

مثلاً جیلوں میں دیگر قیدی کُھلی بیرکس میں قدرے آزادانہ انداز میں رہتے ہیں لیکن سزائے موت کے قیدی چھوٹی کوٹھریوں میں اکھٹے بند ہوتے ہیں۔ پھر اِن لوگوں کا باہر کی دنیا بشمول وکلا اور گھر والوں سے رابطہ دیگر قیدیوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ سزائےِ موت کے قیدیوں میں نفسیاتی مسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں۔’

ثنا کہتی ہیں کہ ‘سزائے موت کے اکثر مقدموں میں کم از کم دس سال کے بعد کیس ہائی کورٹ تک پہنچ پاتا ہے، جس کے بعد بھی قانونی جنگ چلتی رہتی ہے۔ تو ایک طرح سے قیدی عمر قید کاٹ چکا ہوتا ہے تب کہیں جا کر اُسے موت کی سزا دی جاتی ہے اور پھر سزا پر عملدرآمد میں بھی وقت لگتا ہے۔ اِس طرح ہمارے عدالتی نظام میں کئی ایسی چیزیں ہیں، جنھیں بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔’

انصاف میں دیر

چوہدری محمد انور نے اپنی موت کی سزا پر حکمِ امتناعی کا سُنا تو اُنھیں ایسا لگا کہ بس تھوڑی مہلت مل گئی ہے اور زندگی چند دن اور بڑھ گئی۔ لیکن پھر معاملہ سپریم کورٹ تک گیا اور گذشتہ سال اُنھیں رہائی مل گئی۔ انور کو شکایت ہے تو صرف یہ کہ اُنھیں انصاف دیر سے ملا۔

جیل

'میں سنہ 2001 کا نابالغ ثابت ہوں۔ اُس سال میرا میڈیکل بورڈ ہو چکا تھا۔ اِس حساب سے میری سزا عمر قید بنتی تھی اور مجھے بہت پہلے رہا ہو جانا چاہیے تھا۔ اب 20 سال بعد انصاف ملے تو کیا انصاف ہے۔ میری تو زندگی تباہ ہو گئی۔ جیل میں ہی مجھے فالج اور ہارٹ اٹیک ہوا۔ اب میرے جسم کا بایاں حصہ کام نہیں کرتا۔'

محمد انور بتاتے ہیں کہ جیل میں قید شخص تو ذہنی اور جسمانی اذیت برداشت کرتا ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ اُس کے گھر والے بھی کٹھن حالات سے گزرتے ہیں۔ جرم ایک آدمی کرتا ہے سزا پورا خاندان بھگتتا ہے۔

‘پہلے میرے والدین کیس کی پیروی کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے۔ پھر میرے دو بھائیوں نے پیروی شروع کی اور وہ بھی ایک ایک کر کے دنیا سے چلے گئے۔ زمین جائیداد سب بک گئی اور ہم مقروض ہو گئے۔ مجھے اپنے سب پیاروں کی موت کا علم کئی کئی دن بعد ہوا اور میں اُن کے جنازوں کو کندھا بھی نہیں دے پایا۔’

کال کوٹھری کی یاد

لیکن تمام مصائب کے باوجود جیل کی یاد اب بھی محمد انور کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ آدھی سے زیادہ زندگی جیل میں گزارنے کے بعد اُنھیں اُس جگہ سے ایک خاص اُنس پیدا ہوگیا تھا۔

‘کبھی کبھی جیل میں ایسا لگتا تھا کہ میں پیدا ہی یہاں ہوا ہوں۔ رہائی کے بعد جب میں جیل کے دروازے سے باہر نکلا تو ایسا لگا کہ یہ دنیا پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ایسے جیسے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ جب میں جیل گیا تھا تو نا موبائل فون تھے، نا ہی جدید انداز کی گاڑیاں اور نا ہی انٹرنیٹ۔ یہ سب میرے لیے نیا ہے۔‘

انٹرنیٹ

جیل سے چھوٹنے کے بعد انور سب سے پہلے اپنے بڑے بھائی کے گھر گئے جو اُن کی رہائی سے چند ماہ پہلے وفات پا گئے تھے۔

‘بھائی کے بچوں نے میرا استقبال کیا۔ وہ ایک بہت جذباتی مرحلہ تھا۔ خوشی تو تھی رہائی کی لیکن دکھ بھی تھا کہ بھائی چلے گئے۔ والدین اور بھائیوں کی قبر پر جا کر فاتحہ بھی پڑھی۔ پھر میرے پرانے دوست بھی ملنے آئے۔ کچھ مجھے پہچان نا سکے اور کچھ کو میں نے بڑی مشکل سے پہچانا۔ میرے جیل کے ساتھی جو مجھ سے پہلے رہا ہو گئے تھے وہ بھی ملنے آئے۔ تو ہم نے جیل کی یادیں تازہ کیں۔ پھر میں جیل بھی گیا اُن دوستوں کی ملاقات پر جو اب تک قید ہیں۔’

لیکن رہ رہ کر محمد انور کو دکھ یہی کھائے جاتا ہے کہ اُن کی تمام زندگی جیل میں ہی گزر گئی۔ وہ بچپن میں جیل گئے اور اب بوڑھے ہو کر باہر آئے ہیں۔ وہ اپنے پاس آنے والے ملنے والوں کو اپنا یہ شعر سُنانا کبھی نہیں بھولتے۔

سمندر دی جوشِ طوفانی نئیں ویکھی

میں آپ ہی اپنی جوانی نئیں ویکھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments