جمہوریت کا مردہ خراب کرنے والے کون ہیں؟


سینیٹ کے جس اجلاس میں سٹیٹ بنک ترمیمی بل کے حوالے سے حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کے مابین سخت کشیدگی کی فضا پیدا ہو چکی تھی، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی تھی اور چیئرمین سینیٹ کے ساتھ بھی اپوزیشن ارکان کی تلخ کلامی ہو رہی تھی جس سے بادی النظر میں سسٹم کی بنیادیں ہلتی نظر آ رہی تھیں۔ اسی اجلاس میں پارلیمانی نظام کے تحفظ کے لئے اتفاق رائے سے قرارداد پیش اور منظور ہونا بذات خود سسٹم کے تحفظ اور دفاع کے حوالے سے خوش آئند ہے۔ اس سے بعض حلقوں کی جانب سے صدارتی نظام کے لئے مخصوص مقاصد کے تحت شروع کی گئی مہم اپنی موت آپ مر جائے گی۔

گزشتہ 20 سال سے تسلسل کے ساتھ جاری پارلیمانی جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے جن حلقوں کی جانب سے صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑ کر اس کے حق میں مذموم مہم چلائی گئی ان کا مقصد یقیناً ماضی کی طرح جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کا موقع نکالنا تھا۔ بدقسمتی سے بعض حکومتی حلقوں کی جانب سے صدارتی نظام کی خوبیاں گنوائی جانے لگیں جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ مقتدر شخصیات خود صدارتی نظام کے قیام کی خواہش رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس منتخب پارلیمانی جمہوری نظام کے خلاف ماضی کے ماورائے آئین اقدامات سے ڈسے جانے والے قومی سیاسی قائدین اور ان کی جماعتوں کے عہدیداروں اور کارکنوں کو بجا طور پر یہ فکر لاحق ہوئی کہ جمہوریت کا سفر پھر سے کھوٹا کرنے کی کسی سوچی سمجھی منصوبہ بندی پر عملدرآمد کی راہ ہموار کی جا رہی ہے چنانچہ اس بحث مباحثہ نے پہلے سے گرم سیاسی ماحول میں کشیدگی کا عنصر بھی شامل کر دیا۔

بے شک پارلیمانی جمہوری نظام ہی بانیان پاکستان کا مطمح نظر تھا اور تحریک پاکستان کی شکل میں شروع کی گئی ان کی جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں ہی پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ قائداعظم قیام پاکستان کے بعد مزید کچھ عرصہ حیات رہتے تو وہ یقیناً اس ارض وطن کو وفاقی پارلیمانی جمہوری آئین کا تحفہ بھی دے جاتے مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور ان کے بعد ملک کا نظام مفاد پرست سیاست دانوں کے ہتھے چڑھ گیا جنہوں نے آمرانہ سوچ رکھنے والے ہندو، انگریز کے ٹوڈیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ملک میں ننگی آمریت کی شکل میں وحدانی طرز حکومت کی بنیاد رکھ دی۔ چنانچہ 1956 کا آئین بھی اسی طرز حکومت کے مطابق وضع کیا گیا اور پھر اس آئین کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال کر جنرل ایوب خان نے مارشل لا کی شکل میں جرنیلی آمریت مسلط کر دی اور گیارہ سال تک من مانیاں کیں۔

جب ان کے خلاف عوام کی تحریک شروع ہوئی تو انہوں نے ایک دوسرے جرنیل یحییٰ خان کو اقتدار منتقل کر دیا۔ اس طرح جرنیلی آمریت کا تسلسل برقرار رہا جس کے دوران ملک اور قوم کو سقوط ڈھاکہ کے المناک سانحہ سے دوچار ہونا پڑا۔ اس منتشر و مایوس فضا میں ذوالفقار علی بھٹو نے عنان اقتدار سنبھالا تو انہوں نے سسٹم کو جمہوریت کی پٹڑی پر ڈالنے کا عزم باندھا جس کے لئے اپوزیشن نے بھی ان کا ساتھ دیا چنانچہ اسمبلی کے فورم پر عرق ریزی کے بعد 10 اپریل 1973 کو متفقہ طور پر ملک کا پہلا آئین منظور کیا گیا جو اسی سال 14 اگست کو نافذالعمل ہوا۔

اس آئین کے تحت ملک کا سسٹم وفاقی پارلیمانی جمہوری بنیادوں پر استوار کیا گیا مگر طالع آزماؤں کو یہ سسٹم گوارا نہ ہوا اور جنرل ضیا الحق نے 5 جولائی 1977 کو منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا کر ملک میں دوبارہ جرنیلی آمریت مسلط کردی۔ اس کے خلاف بیشتر سیاسی جماعتوں نے ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر بحالی جمہوریت و آئین کی طویل جدوجہد کی جس کے دوران انہوں نے قید، کوڑے، قلعہ بندی اور پھانسیوں کی سزائیں بھی بھگتیں جس کے نتیجہ میں ضیا الحق 1985 میں آئین بحال کر کے غیر جماعتی انتخابات کرانے پر مجبور ہوئے تاہم ان کے زیراثر 85 کی اسمبلی نے اس آئین میں دفعہ 58 ٹو (بی) سمیت کئی ناروا ترامیم بھی منظور کر لیں۔ اس کے باوجود پارلیمانی جمہوری نظام کا تسلسل قائم ہو گیا۔

1988 میں ضیا الحق کے طیارہ حادثہ کے بعد بھی ملک کا سسٹم جمہوریت کی بنیادوں پر ہی کھڑا رہا جس کے ماتحت ملک میں یکے بعد دیگرے چار انتخابات منعقد ہوئے اور پھر 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کو پھر جرنیلی آمریت کے راستے پر ڈال دیا۔ تاہم سید ظفر علی شاہ کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت جنرل مشرف 1973 کا آئین بحال کرنے اور اس کے ماتحت 2002 میں عام انتخابات کے انعقاد پر مجبور ہوئے اور پھر وکلا اور عوام کی تحریک کے نتیجہ میں 2008 میں انہیں خود بھی اقتدار سے باہر نکلنا پڑا۔

اس طرح 2002 سے اب تک ملک میں پارلیمانی جمہوریت کا تسلسل برقرار ہے اور اس کے ماتحت اب تک چار انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔ ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہ سہی لیکن کسی نہ کسی طور جمہوری نظام کی پٹڑی پر گامزن ضرور ہے اور آئندہ سال 2023 میں نئے انتخابات کے ذریعہ اقتدار نئے منتخب ہونے والے نمائندوں کو منتقل ہو جائے گا۔

اس فضا میں یکایک صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑنا تسلسل کے ساتھ چلنے والی جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کی سازش سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ 73 کے آئین کی موجودگی میں آئینی طریق کار کے تحت صدارتی نظام کا نفاذ ناممکنات میں شامل ہے جبکہ اس نظام کے لئے آئین ساز اسمبلی کے ذریعے ازسرنو آئین تشکیل دینا ہو گا جس کے لئے ایک طویل پراسس درکار ہے۔ اگر اس آئینی طریقہ کار سے ہٹ کر صدارتی نظام کے نفاذ کی کوشش کی جائے گی تو وہ ماضی جیسے کسی ماورائے آئین اقدام کے ذریعے ہی ممکن ہو گا۔

اس تناظر میں صدارتی نظام کے لئے چھوڑے گئے شوشہ سے پارلیمانی جمہوری نظام کو سخت خطرات لاحق ہوتے نظر آرہے تھے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ وہ کون سے اذہان ہیں جنہیں جمہوری دور میں صدارتی اور صدارتی نظام میں جمہوریت کی یاد ستاتی رہتی ہے جن کی سازشوں کے نتیجہ میں 74 برس بعد بھی سرزمین پاکستان ہمیشہ کسی نہ کسی مخمصہ کا شکار ہے۔ کسی سمت کا تعین ہوسکا نہ منزل کا سراغ مل سکا۔ موجودہ عمرانی دور حکومت میں خود حکومتی کارپردازوں کی جانب سے صدارتی نظام کے حق میں پرزور مہم چلانے کا کوئی تو مقصد ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments