آپ کے والدین آپ کے جذباتی دعوؤں سے زیادہ کے حق دار ہیں


 اکثر لوگ مجھ سے ناراض رہتے ہیں کہ میں نفسیاتی مسائل میں بار بار والدین کے منفی روئیوں کی نشاندہی کرتی ہوں۔ یہاں ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوتی ہے کہ جب میں غیر متوازن روئیوں کے حامل والدین کی مثال دیتی ہوں وہاں لوگ اپنے متوازن روئیوں کے حامل والدین کو فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کو کہ بالکل غلط ہے۔ یاد رکھیے اگر آپ کے والدین نے آپ کی جذباتی ضروریات کا خیال رکھا ہے۔ آپ کو وقت اور محبت دی ہے۔ بطور اولاد آپ کی رائے کا احترام کیا ہے اور اسی طرح دوسروں کی ذات اور رائے کا احترام سکھایا ہے۔ آپ کی مثبت شخصیت کی تعمیر میں ان کا بڑا ہاتھ ہے تو آپ زبردستی اپنے والدین کو ابیوسیو والدین کی کیٹگری میں ٹھونسنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ نفسیاتی مسائل کی نشاندہی میں بار بار یہ بات واضح کرتی ہوں کہ یہ ان والدین، اساتذہ اور اردگرد کے افراد کی بات ہے جو منفی روئیوں کے حامل ہیں اور ان کا رویہ ان سے متعلق افراد کو بھی نفسیاتی مسائل کا شکار بنا رہا ہے۔
یہاں ایک مسئلہ یہ آتا ہے کہ والدین سے جو تقدس جوڑ دیا گیا ہے ہم ان سے تعلق کو جذباتی حوالے سے دیکھنے کی بجائے مقدس بنا کے دیکھتے ہیں۔ ایسے میں وہ افراد جو کہ واقعی تشدد کا سامنا کر رہے ہوں وہ لاشعوری طور پہ یہ نہیں مان پاتے کہ ان کے والدین کا رویہ غلط ہے۔ وہ ساری زندگی پرتشدد روئیوں کے ساتھ گزارتے ہیں اور انہیں روئیوں کو نارمل سمجھا شروع کردیتے ہیں بلکہ ان پر تشدد روئیوں کو بھی مقدس گردانا جاتا ہے۔
لیکن اس سے ان روئیوں سے ہونے والی تباہی نہیں رک پاتی وہ مسلسل اس سے متاثر ہونے والے کی شخصیت کو تباہ کر رہی ہوتی ہے۔
جہاں منفی روئیوں کا حامل والدین اپنے نقصان دہ روئیوں کے باجود تعریفوں کے ٹوکرے پارہے ہوتے ہیں وہیں پہ ایک مسئلہ یہ آتا ہے کہ قربانیاں دینے والے والدین ایسے متشدد روئیے رکھنے والے والدین کی لائن میں کھڑے کردئیے جاتے ہیں جو ان کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔
وہ والدین جو مثبت تربیت کر رہے ہیں وہ حق رکھتے ہیں کہ ان کی اولاد اس حقیقت کو سمجھے کہ وہ صرف وہ نہیں کر رہے جو تمام والدین کرتے ہیں بلکہ وہ اس سے زیادہ کر رہے ہیں۔
 ایسے میں جب ہر شخص ہی جب یہ دعویٰ کرتا نظر آتا ہے کہ میری ماں یا میرا باپ دنیا کا سب سے عظیم ہے۔ والدین کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا وغیرہ وغیرہ اس میں سچے دعوت اور صرف اوپری دل سے کیے کھوٹے دعوے سب مکس ہوجاتے ہیں۔
آپ کے جذبات کی سچائی کے لیے ضروری ہے کہ آپ والدین کی عظمت کے صرف نعرے نہ لگائیں بلکہ ان کی وقت کے ساتھ بدلتی ضروریات کے مطابق ان کی صحت، غذا، تفریح اور دوسری ضروریات پہ توجہ رکھیں۔
بد قسمتی سے وہ افراد جو بڑھ بڑھ کے مغرب کے اولڈ ایج ہومز پہ تنقید کر رہے ہوتے ہیں۔ مشرقی اقدار میں والدین کی عظمت کے گن گارہے ہوتے ہیں ان کے اپنے والدین بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کے دعوے صرف زبانی کلامی ہوتے ہیں۔
ایک بات جو ہمارے جیسے معاشرے میں سمجھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ وہاں حقیقت کے درمیان جذبات آجاتے ہیں وہ یہ کہ بڑھاپے کی کچھ کنڈیشنز اور نفسیاتی امراض میں بزرگوں کو گھر پہ رکھنا اور کوئی مستقل اٹینڈینٹ فراہم نہ کرنا اس نے سچی محبت نہیں بلکہ ظلم ہے۔ آپ ٹرینڈ پروفیشنل نہیں بتدریج الزائمر یا ڈیمینشیا کی طرف جاتے بزرگوں سے ڈیل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ ایسے امراض کی طرف جاتے بزرگوں کی علامات فوری سمجھنا مشکل ہوتا ہے گھر والوں کو لگتا ہے کہ شاید یہ تنگ کرنے کے لیے چیزیں بھولنے کا بہانہ کر رہے ہیں اس کی ایک وجہ پہلے سے دل میں موجود یہ خیال ہوتا ہے کہ ان کی ذات ایک اضافی بوجھ ہے۔ جیسے جیسے علامات بڑھتی جاتی ہیں گھر والوں کے اس روئیے میں بھی شدت آتی جاتی ہے۔ لیکن معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اور کچھ اپنی لاپرواہی کی وجہ سے نہ تو بروقت علاج شروع ہوپاتا ہے نہ انہیں کسی کئیر سینٹر میں داخل کروایا جاتا ہے جہاں ان کی صحت اور غذا کا معیاری خیال رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ ان کی بدلتی نفسیاتی کنڈیشن کی بنیاد پہ انہیں مناسب رویہ فراہم کیا جاسکے۔
اگر آپ کے گھر کے بزرگ کی صحت اچھی ہے، وہ بھی اپنا خیال رکھ سکتے ہیں اور آپ بھی ان کا خیال رکھنے کا شافی وقت نکال سکتے ہیں تو اس سے بہتر کوئی حل ہے ہی نہیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رہیں۔ بلکہ ہر انسان کی طرح یہ ان کا حق ہے۔ لیکن یہ صرف دکھاوا نہ ہو کہ انہیں گھر میں اضافی شے کی طرح چھوڑ دیا جائے اور انہیں اپنی بنیادی ضروریات کے لیے ترسنا پڑے یا کسی اور سے درخواست کرنی پڑے۔ کہ گھر کے جوان فیس بک پر تو اس بحث میں مصروف ہیں کہ کسی نے والدین کے خلاف کچھ کہا کیسے لیکن ان کے اپنے گھر کے بزرگ ان کے منفی روئیوں کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ یاد رکھیے ہمارے کسی اپنے کو بڑے بڑے دعوؤں کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ اکثر بڑے بڑے دعوے کھوکھلے نکلتے ہیں۔ ہم سب کو اصل توجہ محبت اور عزت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ساتھ ہی بنیادی ضروریات تک رسائی کی۔ یعنی بروقت غذا، علاج موسم کے مناسبت سے لباس اور آپ کا وقت۔ یہی ضرورت آپ کے والدین کو بھی ہے۔
ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments