بچوں کی جسمانی سزا پر پابندی، کیا نتائج برآمد ہوئے؟


کئی سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی تربیت کا موقع ملا اور اس دوران ایک سوال ہر جگہ ہی پوچھا گیا کہ فرض کیجیے ایک بچہ ‘بدتمیزی‘ کر رہا ہے جبکہ سزا دینے پر پابندی ہے، بتائیے آپ ہماری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ اچھا سوال ہے لیکن اس کا جواب کسی طور آسان نہیں ہے۔

ہمیں اخلاقیات کے حوالے سے کول برگ کے نظریے کے حوالے سے معلوم ہے کہ اخلاقی ترقی کے مراحل میں پہلا مرحلہ سزا و جزا ہے۔ تاہم بالخصوص بچوں کا سزا سے بچنے کا اپنا ڈیفنس میکینزم یعنی دفاعی طریقہ کار ہوتا ہے۔

حتی کہ اگر کسی ایک بچے کو پیٹا جا رہا ہو اور دیکھنے والا دوسرا بچہ بخوبی جانتا ہو کہ اس بچے کو جس بات پر سزا دی جا رہی ہے، اس میں اس بچے کا تو کوئی کردار ہے ہی نہیں بلکہ یہ مار پیٹ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے تو بھی وہ بچہ مداخلت نہیں کرے گا۔

اخلاقی تقاضا جو بھی ہو لیکن سزا کا خوف اکثر حاوی ہی رہتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بچہ اخلاقی ترقی کے حوالے ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے۔

اگر کلاسیکی مشروطیت یا کنڈیشنگ کے نظریے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جانوروں سمیت انسانوں میں بھی سیکھنے کے پیچھے باقاعدہ جبریت پر مبنی ایک نظام موجود ہے اور سزا و جزا یا حوصلہ افزائی یا شکنی اس نظام کا بہت ہی اہم حصہ ہے۔

بچے کیسے سیکھتے ہیں؟

ایک عرصے تک بچوں کی اخلاقی، سماجی یا مذہبی تربیت کے لیے یہی نظام رائج رہا اور بچوں کو سزا یا کسی انعام کی لالچ دے کر انہیں مروجہ اقدار اور طرز زندگی کے گُر سکھائے جاتے رہے۔

سزا و جزا کے اس تربیتی طریقہ کار نے بچوں کو رٹو طوطا بنا دیا، وہ بہت جلد تمیز بھی سیکھ گئے اور مخصوص سماجی انداز میں رویوں کی ترتیب بھی سمجھ گئے، ویسا ہی جیسا ایوان پاف لوف کی کلاسیکی مشروطیت میں تجربہ گاہ میں مقید کتے ایک خاص انداز میں عمل کرنا سیکھ گئے تھے۔

سوویت ماہر نفیسات پاف لوف کے ان کتوں نے خوارک کی لالچ میں یہ سیکھا تھا تاہم بچوں کے سیکھنے کا بنیادی محرک خوف بنا، بہرحال جو بھی تھا، اس تشریطی تربیتی طریقہ کار سے کم ازکم حسب منشا نتیجہ حاصل ہوا، یعنی تمیز دار بچے دیکھنے کو ملنے لگے، لیکن ان بچوں کی نفسیاتی بنت کیسی رہی اور اچانک خوف ختم ہو جانے پر وہ کس طرح ردعمل ظاہر کریں گے، یہ اہم پہلو خاطر میں ہی نہ لایا گیا۔

پھر اچانک معلوم ہوا کہ بچوں کی جسمانی سزا پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں یہ پابندی بتدریج لگی۔ ہمیں ایک ہچکچاہٹ کا سامنا تھا کہ ہم خود استادوں کی مار کھا کر بڑے ہوئے ہیں اور والدین ہمارے اساتذہ کو کہتے تھے کہ ‘بچے کی چمڑی تمھاری اور ہڈی ہماری‘۔ استاد کی مار کا ایک باقاعدہ متبرک ثقافتی پس منظر تھا کہ ایسی مار کس قدر مبارک ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

ملک پر اصل بوجھ ’ڈگری یافتہ جاہل‘ ہیں!

ہم ایسے نہ تھے کہ بچوں کی محبت میں یا جدید نفسیاتی دریافتوں کی وجہ سے جسمانی سزا پر پابندی لگاتے۔ ہمیں مغربی ممالک کی جانب سے ایک جبر کا سامنا رہا ہے، جو قرض دینے سے بیشتر عجیب و غریب فرمائشیں کیا کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک دباؤ بچوں کی جسمانی سزا سے متعلق تھا اور ہمیں مجبورا بچوں کی سزا پر پابندی لگانا پڑی۔

تو پھر کیا؟ مار نہیں پیار کی ایک مہم چلانا پڑی۔ اساتذہ کے ہاتھ سے ڈنڈے چھین لیے گئے، جن سے وہ اپنے تئیں سدھار کا کام لیا کرتے تھا۔ تاہم ہم نے جن کے کہنے پر پابندی لگائی ان سے یہ پوچھنا بھول گئے کہ بچوں کی تربیت کے لیے جسمانی سزا کا کیا کوئی متبادل نظام بھی موجود ہے؟ آپ لوگ بچوں کو سکھانے اور ان میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے کیا کرتے ہیں؟

اب یہاں ایک لطیفہ سنیے۔ ایک ملک جو صرف بیرونی دباؤ کی وجہ سے بچوں کی سزا پر پابندی لگا دیتا ہے وہ یہ بات بالکل بھی نہیں سوچتا کہ بچوں میں نظم و ضبط کا متبادل طریقہ کار کیا ہو گا؟ جب سزا نہیں ہوگی اور استاد کے ہاتھ میں ڈنڈا نہیں ہو گا تو وہ کیا طریقہ کار ہے، جس سے بچوں میں نظم و ضبط برقرار رکھا جائے گا یا مختصرا یوں کہہ لیجیے کہ استاد کی اتھارٹی کو کیسے قائم رکھا جائے گا؟

اب تصور کیجے کہ پورے ملک میں اساتذہ ‘مولا بخش‘ کے بغیر خود کو بے بس تصور کرتے ہیں، ہے نا پریشانی و تعجب کی بات۔ وہ تربیتی سیشنز میں تربیت دینے والوں سے یہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ اسے کوئی بتائے کہ بچوں میں سزا کے بغیر سیکھنے اور نظم و ضبط کا عمل کیسے برقرار رکھا جائے؟

جاتے جاتے المیے کی اور ایک بات بھی سن لیجیے، جو پرائیویٹ سکولز سے متعلق ہے۔ بچے کو معلوم ہے کہ جماعت میں پڑھانے والی استانی یا استاد ملازم ہے اور اس کے والدین اس سکول کو بھاری فیس دیتے ہیں اور اگر وہ اس استاد اور استانی کی شکایت والدین یا سکول انتظامیہ کو کر دیتا ہے تو اساتذہ کی نوکری چلی جائے گی۔ یعنی اس کمرشل نظام تعلیم میں تو سزا و جزا سے جڑی تشریط ہی الٹ ہو گئی، یعنی یہاں اب بچوں کے بجائے اساتذہ خوف کے سائے تلے آ گئے۔

پاکستان، یکساں تعلیمی مواقع کی کمی اور غریب بچوں کا المیہ

تربیتی سیشنز میں جب میں اساتذہ سے پوچھتا کہ کیا مثبت تربیت کے حوالے سے ان کو ان کی پیشہ وارانہ تعلیم میں کچھ نہیں پڑھایا گیا تو جواب ہوتا تھا کہ ہم اس لفظ سے ہی واقف نہیں ہیں۔ اساتذہ کی تربیت کے یہ سیشنزعموما دو یا تین گھنٹوں پر محیط ہوتے ہیں۔

اس مختصر وقت میں مثبت تربیت کے حوالے سے بتانا ناممکن سی بات ہے لیکن جس قدر بتایا جاتا، اساتذہ نہ صرف متاثر ہوتے بلکہ سیشن کے بعد کہتے کہ یہ سب کچھ ہمیں کیوں نہیں بتایا گیا۔ ایک استاد نے کہا کہ کاش اسے یہ باتیں بیس سال پہلے معلوم ہوتیں تو وہ ایک بہت مختلف والد اور استاد ہوتا۔

ایک بات جو میری سمجھ سے باہر ہے کہ جب اساتذہ کی پیشہ وارانہ تعلیم کی بات کی جائے تو اس میں اسی فیصد نصاب تو صرف مثبت تربیت کے حوالے سے مرتب ہونا چاہیے لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ اساتذاہ مثبت تربیت کی تراکیب سے ہی واقف نہیں ہیں۔

مثبت تربیت کے لیے بچوں کی نفسیات پر عبور، ان کی نفسیاتی و ذہنی حدود کے حوالے سے آشنائی اور بچوں کے رویوں کا جاندار مطالعہ ضروری ہے۔ ایک بچہ جو کسی نامناسب رویے کا اظہار کرتا ہے تو استاد اس قابل ہو کہ اس رویے کے محرکات کو نہ صرف سمجھ سکے بلکہ اس کو دور کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔

یہ سب اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ معاشرے کے سب سے پڑھے لکھے افراد جن کو علم نفسیات اور تدریسی طریقہ کار پر مہارت حاصل ہو، پرائمری کے اساتذہ اور استانیاں ہونا چاہییں۔ تاہم ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ عمومی طور ہمارے ہاں پرائمری کے اساتذہ وہ بنتے ہیں جو کسی ‘اعلی پیشہ’ کے لیے اپنے آپ کو اہل ثابت نہ کر سکے ہوں۔

آن لائن تعلیم کے بچوں پر نفسیاتی اثرات

مجھے یاد ہے ہمارے علاقے میں کسی کے میٹرک یا ایف اے میں کم نمبر آتے تھے تو اس کے بارے میں بڑوں کی یہی رائے ہوتی تھی کہ اب یہ کسی کام کا نہیں ہے اس لیے اس کو سی ٹی یا پی ٹی سی کروا دی جائے۔ لیکن یہ بات میں عمومی حوالے سے کہہ رہا ہوں یقیننا کئی قابل اساتذہ بھی ہوں گے جو پرائمری کے بچوں کو پڑھا رہے ہوں گے ان کی دل آزاری کسی طور مقصود نہیں۔ مقصد صرف نظام تعلیم میں خرابیوں اور کوتاہیوں کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے۔

ایک دفعہ کسی نے کہا ‘کہ یہ آپ بچوں کی جسمانی سزا کے اس قدر خلاف ہیں لیکن کیا آپ کو بچپن میں یہ سزا نہیں ملی؟ کیا ہم سب کو استادوں نے مارا پیٹا نہیں ہے؟ کیا ہم سب نے ہی والدین کی مار نہیں کھائی؟ تو ہم سب بھی تو پل ہی گئے ہیں اور مناسب پل گئے ہیں’؟

میں کچھ یوں گویا ہوا، ” گو کہ اس کا کوئی سادہ جواب نہیں لیکن اگر میں سادہ ترین اسلوب بھی اختیار کروں تو آپ سے پوچھوں گا کہ اپنے معاشرے کی جانب ایک نگاہ کیجیے، اخبارات کا مطالعہ کیجیے، جرم و سزا سے متعلق اپنے سیاستدانوں کے بیانات اور اداروں کے پروفیشنل نظریات، پیشہ وارانہ شعبوں جیسے ڈاکٹرز، وکلاء ، میڈیا پرسنز وغیرہ کے رویوں تک ایک عقلی نگاہ دوڑایے اور جواب دیجیے کہ کیا ہم مناسب پل گئے ہیں؟‘‘

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments