صدیق اعوان صاحب: شخص ہفت رنگ


گرمیوں کی ایک چلچلاتی دوپہر، مین بلڈنگ کے وکٹورین طرز کے برآمدوں میں سے گزرتے ہوئے، کچھ ہی لمحوں بعد اک قد آدم دروازے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ دروازے پہ ہاتھ رکھتے ہی اس میں جنبش ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ایک پٹ، چڑچڑاہٹ کی آواز پیدا کرتے ہوئے جا کھلا۔ وہ ایک پرانی طرز کا دفتر تھا۔ جس کی دیواروں تک سے کہنگی ترشح تھی۔ سامنے کرسی پہ بیٹھے اقبال شاہد صاحب اپنی ساتھی اساتذہ سے محو گفتگو تھے۔ دروازے کی آواز سے ان کی توجہ بھٹکی، سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا اور گویا ہوئے ”جی؟

” اس سے پہلے کے کہ وہ کچھ اور کہتے میں نے دبی ہوئی آواز میں عرض کیا، صدیق اعوان صاحب یہاں ہیں؟ انھوں نے کمرے کے ایک گوشے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ رہے صدیق صاحب۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آرام دہ کرسی پر، بے حد نفاست و سکون سے، گردن کو کرسی کی کمر پہ جمائے، آنکھیں بند کیے محو آرام ہیں اور بستہ سامنے پڑے میز رکھا ہوا ہے۔ جیسے تھکاوٹ سے چور انسان دنیا و مافیا سے بے خبر نیند کی وادیوں میں تحلیل ہو رہا ہو۔

اقبال شاہد صاحب کی آواز سے میری موجودگی کا احساس پاتے ہوئے صدیق صاحب بیدار ہوئے اور سامنے پڑے میز کی دائیں جانب موجود کرسی پہ بیٹھ جانے کو کہا۔ سید پہ کچھ زور دیتے ہوئے مجھ سے گویا ہوئے، ”کیسے ہیں سید عدیل اعجاز صاحب؟ اور آپ کا مقالہ کہاں تک پہنچا؟“ ہم نے کہا کہ سر بس ہوا چاہتا ہے۔ یہی کوئی دو چار ہاتھ کا سفر رہ گیا ہے۔ اتنے میں آفس بوائے چائے اور سینڈوچ لے آیا۔ اچھا تو آپ کے مقالے کا عنوان کیا ہے؟

جلد از جلد مقالہ تحریر کیجیے آپ کو کچھ ذمہ داریاں تفویض کرنا چاہتے ہیں۔ صدیق صاحب نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے کہا سر جنوبی ایشیاء کے تناظر میں تجارت کا معاشی نشوونما کے ساتھ تعلق و ربط دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ”ارے یہ کس موضوع پہ تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں۔ اس میں نیا کیا ہے؟ افزائش علم کہاں ہے؟ کچھ نیا کیا ہوتا۔ اس میں آپ کیا دور کی کوڑی لا سکتے ہیں! وہی گھسی پٹی باتوں پہ خامہ فرسائی کر رہے ہیں۔“ باتیں تو ان کی درست تھیں مگر جنوبی ایشیائی تناظر میں تجارت کا تعلق کبھی بھی صحت مندانہ نہیں رہا۔

لیکن ان کے سامنے چپ ہونے ہی پہ صاد کیا۔ میں نے کہا، سر فیس بک پہ کمنٹس سیکشن میں آپ کس بات کی نوید دینا چاہ رہے تھے۔ بے قرار ہوا چاہتا ہوں اور تب ہی سے بے تاب ہوں۔ میرے ذہن میں تھا کہ شاید آپ انٹر کی سطح پہ معاشیات پڑھانے کے بارے میں میری رائے لینا چاہ رہے ہوں گے۔ ان دنوں طلبا کو انٹر کی کلاسیز پڑھانے کے لیے بھرتی کیا جا رہا تھا۔ سامنے جانے سے پہلے کیسے کیسے لڈو من میں پھوٹ رہے تھے۔ دل ہی دل میں تہیہ کر رکھا تھا کہ اگر ایسی پیش کش ہوئی تو قبول کرنے میں پس و پیش سے کسی طور بھی کام نہ لوں گا، جھٹ سے ہامی بھر دوں گا۔

بہت سوں کو یہ کہتے سنا اور خود مشاہدہ بھی کیا کہ آپ اپنے پسندیدہ و من پسند بالخصوص مجلس مباحث کے بچوں کو اپنے قریب رکھتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ایک اور خیال آتا کہ میں قربت کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہوں میری تو ان سے بالمشافہ ملاقات بھی نہیں ہے۔ اس لیے آپ مجھے اپنے پاس رکھنے سے تو رہے۔ اسی شش و پنج میں ان کے سامنے جا حاضر ہوا۔ اس پہلی بالمشافہ ملاقات میں جہاں بہتیری باتیں ہوئیں وہیں آپ کے علمی و ادبی ذوق اور مشاغل کے بارے میں بھی جانکاری ملی اور یہ بھی علم میں آیا کہ آپ بہت زیادہ کتابی نہیں البتہ پڑھتے ضرور ہیں۔

اثنائے گفتگو مجھ سے کہنے لگے اشعار کے وزن کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ عروض کے بارے میں کس قدر شد بد رکھتے ہیں؟ میں نے کہا پرکاہ جتنا بھی اوزان شعر کے بارے میں نہیں جانتا البتہ عبدالغنی صاحب کی کتاب، بحر الفصاحت، جو علم عروض پہ ہے دیکھ رکھی ہے جسے مجلس ترقی ادب نے شائع کیا ہے، ایک بار پڑھنے کی کوشش بھی جس میں بری طرح ناکام رہا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے، تو ان کو سیکھ لیجیے، میں نے کہا کیسے سیکھوں سر؟

اس کے لیے تو کسی استاد کے آگے زنوائے تلمذ طے کرنا ہوں گے۔ اساتذہ کے پاس اتنا وافر وقت کہا کہ مجھے عروض سیکھا سکیں۔ تو ایک دو کتابوں کے نام بتائے جو تلاش بسیار نہ ملی سکیں۔ البتہ سید عابد علی عابد صاحب کی کتابیں ضرور دیکھیں مگر سمجھ نہ پایا۔ پھر کہنے لگے بالفرض اگر آپ کو راوی کا مدیر بنا دیا جائے تو آپ اشعار برابر کر سکیں؟ اشعار کا وزن، ان کی تحتی اور صنعت سیکھنے کا شوق تو پہلے ہی تھا، اپنی مدد آپ کے تحت ان کو سیکھنے کے لیے خوب ہاتھ پاؤں بھی مارے مگر گوہر مراد ہاتھ نہ آیا، ایسی اشکالات میں استاد اور رہنما کی یاد بری طرح ستاتی شاید غالب کو بھی ایسے ہی ستاتی ہو، کیوں کہ استاد و رہبر کے بغیر ایسے چیستاں کو حل کرنا صحرا میں پانی تلاش کرنا ہی تو تھا۔ میں نے کہا سر، کیا وہ خوشخبری یہی تھی؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ لیکن میرے لیے یہ بہت بڑی بات اس لیے نہ تھی کیوں کہ ”ٹیڈ نالوں گوڈے اگے نہیں ہوندے۔“ اس دن شام تلک آپ کے ساتھ وقت گزارا، آپ کے بیٹے کے بارے میں بھی معلوم ہوا۔ بیٹے سے آپ کا رویہ روایتی باپ سے بالکل ہٹ کر تھا۔

سالار قافلہ کی مانند، ہاتھ میں بستہ اٹھائے ہوئے، جو کہ ایک طرح کی عمرو عیار کی زنبیل ہی تھا، کاغذات کا پلندا پکڑے ہمیشہ کی طرح پتلون شرٹ میں ملبوس، انٹر بلاک میں اپنے دفتر سے، جس میں آپ کم کم ہی بیٹھے پائے گئے ہیں، نکل کے تیزی سے چھوٹے چھوٹے قدم بھرتے ہوئے قائداعظم ہاسٹل کی طرف جا رہے ہیں اور طلبا کا قافلہ آپ کے پیچھے پیچھے ہے، راستے میں کوئی واقف کار مل گیا تو اس سے دو چار باتیں کر کے، دو چار کو بھگتا کے ہاسٹل میں چلے گئے اور پھر چہکنے لگے۔

پارے کی مانند ہمہ وقت حرکت میں رہتے۔ ابھی قائداعظم ہاسٹل میں ہیں تو کچھ ہی دیر بعد شہاب گارڈن میں یا شعبہ انگریزی ادب کی غلام گردشوں میں اپنے دل پسند طلبا کی منڈلی میں، جو آپ کے اردگرد ہمیشہ جمی رہتی، امیر جنود بنے کھڑے ہیں، احکامات جاری کر رہے ہیں، ہر کوئی آپ کے سامنے اپنی داستان غم کی روداد جی کھول کے بیان کر رہا ہے اور آپ حسب دل خواہ اس پہ طنز کا پخ لگا رہے ہیں اور شرارت آمیز تبسم آپ کے چہرے سے ٹوٹ کر برس رہا ہے۔

کہ و مہ کا جھرمٹ آپ کے گرد سے جھڑتا ہی کب ہے۔ ان سب کے ساتھ آپ کا لاڈ پیار دیدنی ہے۔ ایک دن شعبۂ انگریزی ادب کی استانی صاحبہ  نے مجلس مباحث کے ایک بچے کو چھوٹا سا کام کیا کہ دیا آپ نے اس پہ بے پناہ غصے کا اظہار کیا اور چھوٹتے ہی بولے کہ یہ آپ کے ملازم تو نہیں جن سے آپ کام کروا رہی ہیں۔ اور اس طالب علم کو استانی صاحبہ کا کام کرنے سے روک دیا۔ شاید حد شمار سے زیادہ ملا لاڈ پیار ہی ان بچوں کو سرکش اور غرور و تمکنت، کبر و نخوت کا پیکر بنا ڈالتا ہے جو بعد کو سب کے کان کاٹنا اپنا اولین حق سمجھتے ہیں۔

میرے مطابق اساتذہ کا کام کر دینا، کسی کے کام آ جانا دوستوں میں بیٹھ کر الل ٹپ گفتگو کرنے اور وقت ضائع کرنے سے ہزار گنا بہتر ہے۔ یہ ہماری تربیت کا حصہ ہونا چاہیے کہ ہر استاد کا خندہ پیشانی سے کام کیا جائے۔ اس سے آداب کی درستی ہوتی ہے۔ قریب سے صدیق صاحب کو دیکھا جائے تو آپ بھی اپنی ذات میں بزرجمہر ہی ہیں۔ کئی معاملات میں نرگسیت پسند بھی محسوس ہوئے۔ جن سے آپ کی چھنتی ان سے گاڑھی چھنتی اور جن سے ٹھنتی ان سے پھر ٹھنی ہی رہتی۔

جب کبھی اپنے ناپسندیدہ حضرات سے سامنا ہوتا تو حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے علیک سلیک تو ضرور کرتے ہیں مگر طعن و طنز کے نیزے سے چھید لگانے سے بھی نہ چوکتے، تب ایسے محسوس ہوتا کہ چراغ حسن حسرت کی روح عالم بالا سے روئے زمین پہ آ کر آپ میں حلول کر گئی ہو اور ان ناپسندیدہ ہم عصروں کو ان کی غیر موجودگی میں ان کے ذکر خیر پہ صلواتیں سنانے سے بھی دریغ نہیں کرتے مگر صلواتیں بھی اس خوش اسلوبی سے سناتے کہ تہذیب بھی خود پہ فخر کرے بغیر نہیں رہ سکتی۔

ان صلواتوں سے مزا وہی اٹھا سکتے ہیں جو زبان و بیان پہ دسترس رکھتے ہوں یا کن رس ہوں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن، شعبۂ انگریزی ادب میں، فضل حسین ریڈنگ روم کے بالکل نیچے والے کمرے میں براجمان تھے، اور کسی پہ مغلظات کی بارش برسا رہے تھے، ”اس ناہنجار، نطفۂ ناتحقیق کی یہ جرات“ ۔ آپ کے منہ سے یہ سن کر دل کے تار جھنجھنا اٹھے۔ البتہ بعد کو آپ سے کھل کر بہت باتیں ہوئیں۔ اپنے پسندیدہ ادباء و شعراء اور کالم نگاروں کے بارے میں بھی بتایا۔

کہنے لگے کہ انہیں شاہد صدیقی صاحب ایک آنکھ بھی نہیں بھاتے لیکن وجوہ نہ بتائیں۔ لیکن ہم تو شاہد صدیقی صاحب کو ایک صاحب طرز کالم نگار سمجھتے ہیں اور میرے پسندیدہ کالم نگاروں کی فہرست میں آپ شامل ہیں۔ میں نے آپ کو مزید کھرچنے کی کوشش کی لیکن آپ اتنی جلد کھرچے نہیں جاتے۔ مجھے صدیق صاحب متعدد بار مولانا ابو الکلام آزاد کے صدیق مکرم لگے، سب کے دوست جن سے جیسی بھی چاہو بات کر لو۔ لیکن گورنمنٹ کالج میں آپ کی صداقت، حذاقت اور دوستی کے جذبے کو سب سے زیادہ شوکت صاحب ہی پہ برستے دیکھا ہے۔

مزید بر آں آپ کی ارباب اختیار سے کبھی بگڑتے نہیں دیکھی۔ ایک دن آپ کی معیت میں دفتر میں بیٹھا تھا تو گفتگو کے دوران یونیورسٹی کے چند شعبوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ میں نے کہا سر آپ حاکم وقت کے حاشیہ نشینوں میں سے ہیں، انتہائی قریب ہیں آپ کیوں اپنی تشویش کا برملا اظہار نہیں فرماتے؟ نہایت خوبصورتی سے بولے، خاموشی سب سے بہترین جواب اور کار آمد حربہ ہے بالخصوص وہاں جہاں زیادہ تر لوگ بہرے ہوں۔ آپ کو قریب سے دیکھیں، پرکھیں اور جانچیے تو آپ کنڈلی مارے نظر آتے ہیں، کتابی چہرے پہ پیچاں سی آنکھوں کو مزید چھوٹا کر کے سامنے والے کا جائزہ لیتے ہوئے پہلے آگے والے کو اعتماد میں لیں گے اور پھر کسی عقدے کی طرح کھلتے ہی چلے جائیں گے۔

آپ کی شخصیت کا خمیر سیاست اور ادب میں گندھا ہوا ہے بالکل ذوق کی مانند، وہی سیاست جو بہادر شاہ ظفر کے دربار میں ہوا کرتی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اتنے ہی مردم شناس بھی۔ کوئلوں کی کان میں ہیرے کو پہچاننا، نکالنا اور تراشنا آپ ہی کا خاصا ہے۔ اب تک ان گنت ہیرے تراش کر کوہ نور بنا چکے ہیں۔ بالکل ایک چابک دست جوہری کی طرح۔ گورنمنٹ کالج کی ایک ایک کروٹ پہ کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ ایک دن مجھے کہنے لگے، آپ کے شروع میں لکھے گئے خاکے ہم نے پڑھ رہے ہیں مگر ہم انہیں خاکے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

کیوں خاکہ تو وہ ہوتا ہے جس میں عین شخصیت نکھر اور نتھر کر سامنے آ جائے، اور خاکہ لکھنے سے پہلے، جس پہ لکھا جا رہا ہے اس کے ساتھ وقت بھی خوب بتایا ہو، مراد آپ جس پہ طبع آزمائی کر رہے ہیں، اس کی عادات و خصائل، نشست و برخاست، خلوت و جلوت اور بہت سی چیزوں سے واقف ہوں۔ مگر آپ کے ہاں مدح سرائی اور لفاظی زیادہ ہے، جیسی حنیف رامے کے ہاں پائی جاتی ہے۔ آپ نے مجھ پہ لکھا جب کہ میں ایسا نہیں ہوں۔ مجھے محسوس ہوا شاید آپ اپنے بارے میں کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں، کیوں کہ مدح کس کو پسند نہیں!

آپ کی ان اصلاح زدہ باتوں ہی نے میرا رخ متعین کیا جس پہ مجھے فخر ہے۔ پھر کہنے لگے ہمیں خاکہ نگاروں میں سب سے زیادہ منٹو پسند ہیں۔ ان کا چبھتا ہوا اسلوب، کسی بھی شخصیت کو روح سے پکڑتے ہیں اور صفحات پہ بکھیر دیتے ہیں۔ میں نے اسی بات پہ گرہ لگاتے ہوئے کہا کہ سر، اسلم فرٖخی صاحب کے ہاں تو ایسا نہیں پایا جاتا، شاہد احمد دہلوی اور جوش ملیح آبادی کے ہاں بھی تو لفاظی ہے۔ کہنے لگے بات تو آپ کی درست ہے مگر ان کے ہاں تجربہ بھی تو تھا، ان کے تعلقات بادۂ کہن کی مانند تھے، جتنے پرانے تھے، اتنے ہی واقعات سے پر تھے، جن کو اب تک پڑھ کے مزہ آتا ہے۔

پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ صابر لودھی صاحب کو جانتے ہیں، وہ بھی راوی میں خاکے لکھا کرتے تھے، آپ نے آفتاب احمد اور مظفر علی سید کے لکھے گئے خاکے پڑھے ہیں؟ میں نے کہا نہیں، اب سے پہلے تک میں ان ناموں سے بھی آشنا نہیں تھا۔ پہلی ہی فرصت میں ان کو پڑھیے تاکہ آپ گورنمنٹ کالج کے بارے میں مزید جان سکیں کہ یہاں کیسی کیسی شخصیات پیدا ہوئی ہیں۔ آفتاب احمد، مظفر علی سید اور صابر لودھی صاحب کو پڑھنا واقعی ایک خوشنما تجربہ ثابت ہوا۔

بڑی خواہش تھی کہ صدیق صاحب کی کوئی تحریر پڑھوں۔ جو بعد کو نیو ہوسٹل کے سو سال پورے ہونے پر شائع ہونے والے انتہائی دیدہ زیب پطرس میں چھپی تھی۔ سچ جانیے تو پطرس کا یہ خصوصی شمارہ جتنے درد اور تردد سے پیدا کیا گیا تھا معیار میں اتنا ہی ردی تھا۔ لیکن آپ کی تحریر وہی طنزیہ، کہانت میں ڈوبی ہوئی، شاعرانہ بیان میں۔

تلفظ میں اور الفاظ کو برتنے، ان کی نشست و برخاست میں آپ کو بہت چوکس اور منجھا ہوا پایا اور وہیں ذومعنیٰ گفتگو میں بھی۔ ابھی اقبال شاہد صاحب کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی کا معاملہ بیچ میں آن پڑا، آپ مخاطبین سے کہنے لگے دربار سے کیا احکامات آئے ہیں۔ دربار کا لفظ سن کے کس ذی ہوش کے ہوش نہیں اڑتے۔ شاید یہی موٹے موٹے الفاظ کا استعمال ہے جس بنا پہ آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ چاپلوس اعظم ہیں۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ سر، در پردہ سب کہتے ہیں کہ آپ چاپلوسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اس بات میں کس حد تک سچائی ہے؟

پہلے تو آپ خوب ہنسے اور پھر کہنے لگے رتی سی بھی نہیں۔ البتہ جو کہتے ہیں خوب کہتے ہیں ان کہنے دیجیے۔ ہمیں بھی یہی محسوس ہوا کہ آپ چاپلوس نہیں ہیں۔ البتہ زبان سے مینا بازار لگانے کی جو آپ کی عادت ہے اس سے آپ احتراز کرے بغیر نہیں رہتے جس سے سب کو ایسے نظر آتے ہیں۔ اور یہ قدرتی ہے۔ لیکن جب کوئی جادو بیانی میں آپ کو خود سے ذری سا بھی آگے نکلتا محسوس ہو تو آپ اس کے پر کاٹنے کی ضرور کوشش کریں گے۔ اس کے تلفظ میں غلطیاں نکالیں گے۔

بس اسی کوشش میں ہوں گے کہ اس کی کمزوری ہاتھ آ جائے اور اگر کمزوری ہاتھ آ جائے تو بس پھر وہ تو گیا۔ اکثر طلباء خاص طور پر مجلس مباحث کے بچوں کو کہتے سنا کہ جو صدیق صاحب کی جی حضوری میں ثانی نہیں رکھتا وہی اس مجلس کی صدارت کا حق دار قرار پاتا ہے۔ ویسے بھی اب مجلس مباحث میں کوئی دم خم رہ بھی نہیں گیا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ اب تو یہ محض لکیریں ہی پیٹتی پائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ گورنمنٹ کالج کی بزم کی رونق ہیں۔ گورنمنٹ کالج کی شادابی آپ ہی کے دم سے ہے۔ آپ کے نام کا ڈنکا نہ صرف گورنمنٹ کالج بلکہ اس کی باہر بھی اتنے ہی زور سے بجتا ہے۔ طلباء گورنمنٹ کالج سے بعد اور آپ سے پہلے شناسا ہوتے ہیں۔ اس لیے نہ آپ سا کوئی تھا اور نہ آپ سا کوئی ہے۔ بے مثل اور بے مثال ہیں ہمارے ہفت رنگ صدیق اعوان صاحب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments